راج بھون کا نام ’لوک بھون‘ کرنے کے معاملے پر راجیہ سبھا میں تیکھی بحث، اپوزیشن و حکومت آمنے سامنے



قومی آواز بیورو


نئی دہلی: ملک بھر کے راج بھونوں کا نام ’لوک بھون‘ رکھنے سے متعلق وزارتِ داخلہ کے 25 نومبر کے حکم نے بدھ کو راجیہ سبھا میں وقفہ صدر کے دوران شدید گرما گرمی پیدا کر دی۔ یہ معاملہ ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی رکنِ پارلیمان ڈولا سین نے اٹھایا، جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تیکھی بحث ہوئی۔


ڈولا سین نے بنگلہ میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے فیصلے سے قبل نہ پارلیمنٹ، نہ ریاستی اسمبلیوں اور نہ ہی کابینہ کو اعتماد میں لیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چیئرمین کو بھی اس سلسلے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ اپنے خطاب میں سین نے منریگا سمیت چند دیگر امور کا ذکر کیا، جس پر چیئرمین نے فوراً مداخلت کرتے ہوئے ہدایت دی کہ ارکان صرف اپنے طے شدہ موضوعات تک محدود رہیں اور غیر متعلقہ نکات کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔




ایوان کے لیڈر جے پی نڈا نے بھی ڈولا سین کی گفتگو پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صرف ’لوک بھون‘ کے معاملے پر بات کرنے کی اجازت تھی لیکن انہوں نے کئی غیر متعلقہ امور اٹھا دئے۔ نڈا نے درخواست کی کہ موضوع سے ہٹی ہوئی تمام باتیں کارروائی سے حذف کی جائیں اور صرف اسی معاملے سے متعلق نکات کو ریکارڈ میں رکھا جائے۔ چیئرمین سی پی رادھا کرشنن نے نڈا کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ موضوع سے باہر کی گفتگو ریکارڈ کا حصہ نہیں ہوگی۔


اس پر راجیہ سبھا میں قائدِ حزبِ اختلاف ملکارجن کھڑگے نے ڈولا سین کا دفاع کیا اور حکومت پر بحث محدود کرنے کا الزام لگایا۔ کھڑگے نے کہا کہ سین نے کوئی غیر شائستہ لفظ استعمال نہیں کیا اور ان کی گفتگو بنیادی طور پر اسی فیصلے سے جڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایوان کے لیڈر یہ طے نہیں کر سکتے کہ کون سی بات ریکارڈ میں رہے گی اور کون سی نہیں، یہ دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے اور پارلیمانی روایت کے منافی ہے۔‘‘


نڈا نے کھڑگے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کسی پر دباؤ نہیں ڈالا بلکہ صرف قواعد کے مطابق گفتگو کو موضوع تک محدود رکھنے کی گزارش کی تھی۔ چیئرمین نے بھی یہی دوہرایا کہ وقفہ صفر کے دوران ارکان کو صرف اپنے طے شدہ موضوعات پر ہی بولنا چاہیے۔






طلاق یافتہ مسلم خاتون جہیز اور تحفے واپس لینے کی حق دار، سپریم کورٹ کا فیصلہ



قومی آواز بیورو


سپریم کورٹ نے منگل کو واضح اور اہم فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ طلاق یافتہ مسلم خاتون کو نکاح کے موقع پر شوہر کو دیا گیا جہیز اور دیگر تحائف واپس لینے کا قانونی حق حاصل ہے۔ عدالت نے کہا کہ مسلم ویمن (پروٹیکشن آف رائٹس آن ڈائیوؤرس) ایکٹ، 1986 کا مقصد طلاق یافتہ خواتین کی عزت و مالی حفاظت کو یقینی بنانا ہے، اس لیے نکاح کے وقت دیے گئے جہیز کا تعلق براہِ راست خاتون کی مالی سلامتی اور وقار سے ہے۔


یہ فیصلہ روشن آرا بیگم کے اس قائم کردہ دعوے کے تناظر میں آیا، جنہوں نے اپنے پہلے خاوند سے نکاح کے وقت اپنے والد کی طرف سے دیے گئے 7 لاکھ روپے اور 30 گرام سونے کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ رقم اور زیورات نکاح نامے میں درج تھے۔ اگرچہ کلکتہ ہائی کورٹ نے پہلے قاضی اور خاتون کے والد کے بیانات میں تضاد کا حوالہ دے کر ان کا دعویٰ مسترد کر دیا تھا مگر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس نتیجے کو برقرار نہیں رکھا۔




عدالت نے کہا کہ قوانین اور ان کی تشریح آئین کے بنیادی اصولوں مساوات، وقار اور فرد کی آزادی کے مطابق ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے روشن آرا کے سابق شوہر کو حکم دیا کہ وہ 7 لاکھ روپے اور 30 گرام سونے کے مساوی رقم براہِ راست خاتون کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائے۔ اگر وہ اس حکم کی تعمیل میں تاخیر کرے تو عدالت نے 9 فیصد سالانہ سود عائد کرنے اور تعمیل کا حلفی بیان جمع کروانے کا پابند کیا۔


فیصلے میں عدالت نے تاکید کی کہ قانون کی تشریح کرتے وقت سماجی حقیقت، خواتین کے تجربات اور ان کی عزت و معاشی خودمختاری کو فوقیت دی جائے تاکہ قانون صرف الفاظ تک محدود نہ رہے بلکہ عملی تحفظ فراہم کرے






بنگال میں ایس آئی آر کے دوران 46 لاکھ سے زیادہ نام حذف کرنے کے لیے نشان زد



قومی آواز بیورو


مغربی بنگال میں ووٹر لسٹ کی درستگی کے لیے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے 4 نومبر سے جاری خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) کے دوران ریاست میں غیر مستعمل یا غلط اندراجات کی بڑی تعداد سامنے آئی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ووٹر لسٹ سے 46 لاکھ سے زیادہ نام حذف کرنے کے لیے نشان زد کیے گئے ہیں۔ آئی اے این ایس کی رپورٹ کے مطابق، یہ تمام نام ووٹر لسٹ کے ان گنتی فارموں کی ڈیجیٹل جانچ کے بعد شناخت کیے گئے ہیں، جن میں ہر ووٹر کی تفصیل درج کی جاتی ہے۔


منگل کی شام تک پوری ہونے والی ڈیجیٹلائزیشن کے ٹرینڈ سے معلوم ہوا کہ ہٹائے جانے کے قابل ناموں کی تعداد 46.30 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جب کہ پیر کی شام یہی تعداد 43.50 لاکھ تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف 24 گھنٹوں میں مزید 2.70 لاکھ نام فہرست میں شامل ہوئے ہیں جنہیں نکالا جا سکتا ہے۔




دوسری بڑی کیٹیگری غائب ووٹرز کی ہے، جن کی تعداد 6.40 لاکھ بتائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ 16.22 لاکھ ایسے ووٹرز نشان زد ہوئے ہیں جو شادی، ملازمت یا مستقل منتقلی کے سبب ریاست یا اپنے حلقے سے ہمیشہ کے لیے کہیں اور شفٹ ہو گئے ہیں اور اس لیے ان کا نام موجودہ لسٹ میں برقرار نہیں رہ سکتا۔ تقریباً 1.05 لاکھ ڈپلیکیٹ ووٹرز کی بھی شناخت کی گئی ہے، جن کے نام دو مختلف جگہوں پر موجود ہیں۔



27 اکتوبر تک کی ووٹر لسٹ کے مطابق مغربی بنگال میں ووٹروں کی مجموعی تعداد 7 کروڑ 66 لاکھ 37 ہزار 529 ہے۔ ووٹر لسٹ کی جانچ کے ساتھ ساتھ ریاست میں پولنگ اسٹیشنوں کی کیٹیگرائزیشن میں بھی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ منگل کی شام کمیشن نے بتایا کہ ان اسٹیشنوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے جن میں ایک بھی مردہ، ڈپلیکیٹ یا منتقل ووٹر موجود نہ تھا۔



پیر کو الیکشن کمیشن نے ریاست میں ایسے 2208 پولنگ اسٹیشنوں کی شناخت کی تھی جن کی ووٹر لسٹ ہر قسم کی غلطیوں سے پاک تھی لیکن 24 گھنٹوں کے اندر اس تعداد میں کمی آئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایس آئی آر کے تحت جاری ڈیٹا کی جانچ مزید نام سامنے لا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق یہ پورا عمل 2025 کے انتخابات سے قبل ووٹر لسٹ کو شفاف، درست اور تازہ ترین بنانے کی بڑی کوشش کا حصہ ہے۔





پوتن دورے کے دوران وزیر اعظم مودی سے تجارت اور درآمدات پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے


قومی آواز بیورو


ہندوستان کے دورے سے پہلے، روسی صدر ولادیمیر پوتن نے منگل یعنی2 دسمبر کو اپنے دورے کا ایجنڈا واضح کیا۔ پوتن کے 4-5 دسمبر کو نئی دہلی کے سرکاری دورے سے قبل، ہندوستان کے ساتھ ایک اہم فوجی معاہدے کی منظوری دی گئی ہے۔ روس ہندوستان کو ایٹمی طاقت سے چلنے والی ایس ایس این آبدوز کو لیز پر دے گا۔ روسی صدر پوتن وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں گے۔


روس کے دوسرے سب سے بڑے بینک وی ٹی بی کی ایک کانفرنس میں پوتن نے کہا کہ وہ تجارت اور درآمدات پر تفصیل سے بات کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کریں گے۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر امریکی صدر ٹرمپ کو بھی نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ روس ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے آزاد اقتصادی پالیسی پر عمل جاری رکھے گا۔ اس دوران انہوں نے ہندوستان اور چین کے ساتھ روس کے بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات کا بھی ذکر کیا۔




ولادیمیر پوتن نے بھی اپنے خطاب میں یورپی ممالک کو سخت وارننگ جاری کی۔ ان کا کہنا تھا کہ "کچھ ممالک اپنی اجارہ داری کو دوسروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے دنیا شدید انتشار کے دور سے گزر رہی ہے۔ اگر یورپ جنگ لڑنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔ یورپی ممالک جنگ کو فروغ دے رہے ہیں، ان کے پاس اب امن کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔" پوتن نے کہا کہ یورپی ممالک یوکرین پر امن مذاکرات سے دستبردار ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے روس سے رابطہ منقطع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک جنگ کے حق میں ہیں۔


ہندوستان کے ساتھ اپنے تجارتی اور توانائی کے تعلقات کو تیسرے ممالک کے دباؤ سے بچانے کے لیے ایک خصوصی فریم ورک بنانے کی تجویز دیتے ہوئے، روس نے منگل کو کہا کہ مغربی پابندیاں محدود مدت کے لیے ہندوستان کی روسی خام تیل کی درآمد کو کم کر سکتی ہیں۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ پوتن اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ہونے والی چوٹی کانفرنس میں بنیادی طور پر بھاری تجارتی خسارے، چھوٹے سائز کے جوہری ری ایکٹروں میں تعاون اور دفاعی اور توانائی کی شراکت سے متعلق مسائل پر ہندوستان کی تشویش پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔




روس سے ہندوستان کی درآمدات تقریباً 65 بلین ڈالر کی ہیں، جب کہ ہندوستان سے روس کی درآمدات صرف 5 بلین ڈالر ہیں۔ دفاعی تعاون کے شعبے میں پیسکوف نے مثال کے طور پر براہموس میزائلوں کی مشترکہ تیاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جدید ٹیکنالوجی کے اشتراک کا ایک نمونہ ہے۔






روس۔یوکرین امن منصوبہ صرف یوکرین اور یورپ کی شمولیت سے ممکن: میکرون



یو این آئی


فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ روس یوکرین تنازع سے متعلق کسی بھی ممکنہ "امن منصوبے" کو اُس وقت تک حتمی شکل نہیں دی جاسکتی جب تک یوکرین اور یورپ دونوں مذاکرات میں براہِ راست شریک نہ ہوں۔ ایلیزی پیلس میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میکرون نے یہ مؤقف پیش کیا۔


میکرون کے مطابق ،منجمد روسی اثاثوں کا معاملہ،یوکرین کے لیے سکیورٹی گارنٹیزاور یورپی یونین میں یوکرین کی ممکنہ شمولیت ۔یہ تمام امور ایسے ہیں جن پر فیصلے صرف یورپی ممالک کی موجودگی میں ہی طے کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ "فی الوقت کوئی مکمل یا حتمی امن منصوبہ موجود نہیں۔"




صدر زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین جنگ کا خاتمہ "باعزت طریقے" سے چاہتا ہے اور اس کے لیے "مضبوط" سکیورٹی گارنٹیز ضروری ہیں۔انہوں نے اعتراف کیا کہ مستقبل کے مذاکرات میں علاقائی معاملات سب سے زیادہ مشکل ہوں گے۔ ایلیزی پیلس کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے پیر کے روز یورپی لیڈروں، امریکی نمائندوں اور یوکرینی مذاکرات کاروں کے ساتھ بھی اہم مشاورتی اجلاس کیے۔


لٹویا کے صدر ایڈگرز رِنکیوِکس نے بھی کہا کہ یوکرین سے متعلق کسی ممکنہ امن معاہدے کے لیے یورپ کا مذاکرات کی میز پر ہونا لازم ہے۔انہوں نے بتایا کہ لٹویا، بالٹک ریاستوں، یورپی یونین اور زیادہ تر نیٹو ممالک کے درمیان تین اصولوں پر مکمل اتفاق ہے۔






یوکرین جنگ کا خاتمہ آسان نہیں: امریکی صدر کا بیان



قومی آواز بیورو


شائع خبروں کے مطابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کابینہ کے اجلاس میں یوکرین کی جنگ کو ’بڑا جھنجھٹ ‘قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے ختم کرانا اتنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً چار سال سے جاری اس جنگ کو حل کرنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔


صدر ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ یوکرین جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی ثالثی کی کوششوں کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ الاسکا میں پوتن کے ساتھ ان کی ملاقات اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقاتوں کے باوجود کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔




دریں اثناء منگل کو ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف اور داماد جیرڈ کشنر نے ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی۔ مذاکرات کا مقصد جنگ کے خاتمے کے لیے ممکنہ امن فارمولے پر بات کرنا تھا۔ ملاقات سے پہلے، پوتن نے یورپ پر ایسی تجاویز پیش کرنے کا الزام لگایا جو روس کے لیے "مکمل طور پر ناقابل قبول" ہیں اور ان کا مقصد ٹرمپ کے امن اقدام کو روکنا ہے۔


پوتن نے خبردار کیا کہ اگر یورپ نے روس کے ساتھ جنگ ​​کی کوشش کی تو اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گااور روس کے پاس مذاکرات کا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔روسی صدر نے یہ بھی کہا کہ اگر یوکرین نے بحیرہ اسود میں روس کے ’شیڈو فلیٹ‘ پر ڈرون حملے جاری رکھے تو روس یوکرین کے سمندری روابط کو مکمل طور پر منقطع کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔


روس اس وقت یوکرین کے تقریباً 19فیصد علاقے پر قابض ہے، جو کہ 2023 کے مقابلے میں صرف ایک فیصد زیادہ ہے۔ اگرچہ 2025 میں روس کی پیش قدمی پچھلے تین سالوں کے مقابلے میں تیز رہی ہے، لیکن وہ اب بھی پورے یوکرین پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا۔