روسی صدر ولادیمیر پوتن دورے پر پہنچیں گے ہندوستان، وزیر اعظم مودی سے کریں گے ملاقات


قومی آواز بیورو


نئی دہلی: روسی صدر ولادیمیر پوتن آئندہ مہینے دو روزہ سرکاری دورے پر ہندوستان پہنچیں گے۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق صدر پوتن 4 اور 5 دسمبر کو ہونے والے 23ویں ہند-روس سالانہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ یہ دورہ سفارتی سطح پر دونوں ممالک کے گہرے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا اہم موقع سمجھا جا رہا ہے۔


وزارتِ خارجہ نے بتایا کہ روسی صدر اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی سے خصوصی ملاقات کریں گے، جس میں دو طرفہ تعاون کے مختلف پہلوؤں اور کئی جاری شراکت داریوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، ہندوستان کی صدر دروپدی مرمو روسی صدر کے اعزاز میں عشائیہ دیں گی، جو دونوں ممالک کے تعلقات کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔


ہندوستان اور روس کے درمیان دہائیوں پر محیط دوستانہ اور اعتماد پر مبنی تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک نے دفاع، توانائی، تجارت، خلا اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط تعاون قائم کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں نے اپنی دوستی کو اقتصادی اور تجارتی میدان میں بھی وسعت دینے پر زور دیا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ اسی سمت میں بڑھایا گیا قدم ہے۔




ولادیمیر پوتن کا یہ دورہ اس لیے بھی اہم سمجھا جا رہا ہے کہ اس میں ’اسپیشل اینڈ پریولیجڈ اسٹریٹجک پارٹنرشپ‘ کے تحت تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے وسیع تر حکمتِ عملی طے کی جائے گی۔ دونوں فریق باہمی مفاد کے علاقائی و عالمی امور پر بھی گفتگو کریں گے، جن میں سکیورٹی، توانائی اور جغرافیائی سیاسی صورتحال کا جائزہ شامل ہے۔


رپورٹ میں ذرائع کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کا معاملہ بھی بات چیت کا مرکزی موضوع بن سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے اس تنازع کے حل کے لیے 28 نکاتی منصوبہ پیش کیا گیا ہے، جسے حالیہ مذاکرات میں کم کرکے 19 نکات تک لایا گیا ہے۔


وہیں، پوتن نے واضح کیا ہے کہ جنگ بندی اسی صورت ممکن ہے جب یوکرین ان علاقوں سے اپنی فوج واپس بلائے جن پر روس اپنا حق جتاتا ہے۔ پوتن نے خبردار کیا ہے کہ اگر یوکرین ایسا نہیں کرتا تو روس فوجی طاقت کے ذریعے صورتحال واضح کر دے گا۔


اس دورے سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ ہند-روس تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہوں گے اور دونوں ممالک مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مزید مضبوط تعاون کی بنیاد رکھیں گے۔






ٹرمپ کا جنوبی افریقہ کو جی-20 اجلاس سے خارج کرنے کا اعلان، جے رام رمیش کا وزیر اعظم مودی پر طنز


قومی آواز بیورو


امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس اعلان نے عالمی سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے کہ آئندہ جی-20 سمٹ، جو امریکہ میں منعقد ہوگا، اس میں جنوبی افریقہ کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جنوبی افریقہ کو 2026 کے اجلاس کا دعوت نامہ بھی نہیں بھیجا جائے گا۔ اس فیصلے نے نہ صرف افریقہ بلکہ جی-20 کے مستقل اراکین کے مابین بھی نئی بحث کو جنم دیا ہے۔


ٹرمپ کے اعلان پر انڈین نیشنل کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے غلط روایت اور جغرافیائی سیاست کو کمزور کرنے والی حرکت قرار دیا۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر وہ خود کو ’گلوبل ساؤتھ‘ اور خصوصاً ’افریقہ کا چیمپئن‘ سمجھتے ہیں تو پھر انہیں اس معاملے پر اپنے ’اچھے دوست‘ کی پالیسی پر سوال اٹھانا چاہیے۔


جے رام رمیش نے اپنے بیان میں یاد دلایا کہ جنوبی افریقہ جی-20 کا حصہ کسی رعایت کے طور پر نہیں بلکہ اپنی معاشی حیثیت کے باعث ہے۔ وہ جی-20 کے پہلے ہی اجلاس، جو واشنگٹن ڈی سی میں صدر جارج ڈبلیو بش کی صدارت میں منعقد ہوا تھا، سے ایک مستقل رکن ہے اور ہر اجلاس میں اہم کردار ادا کرتا آیا ہے۔


انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنوبی افریقہ اور ہندوستان کے درمیان تعلقات محض سفارتی یا معاشی نوعیت کے نہیں، بلکہ تاریخی اور جدوجہدِ آزادی سے جڑے ہوئے ہیں۔ جے رام رمیش نے مہاتما گاندھی کے جنوبی افریقہ میں گزرے برسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے نسل پرستی اور رنگ کے امتیاز کے خلاف عالمی مہم میں ہمیشہ صفِ اول میں رہ کر جنوبی افریقہ کا ساتھ دیا۔




کانگریس رہنما نے واضح کیا کہ ہندوستان اور جنوبی افریقہ نہ صرف برکس (بی آئی سی ایس) کے بنیادی ارکان میں شامل ہیں بلکہ آئی بی ایس اے اور بیسک (بی اے ایس آئی سی) گروپ کا بھی حصہ ہیں، اس لیے امریکہ کی جانب سے جنوبی افریقہ کو باہر کرنا عالمی اقتصادی گفتگو کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔


جے رام رمیش نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیر اعظم مودی خود کو افریقہ اور گلوبل ساؤتھ کا محافظ کہتے ہیں اور ٹرمپ کو اپنا قریبی دوست بھی قرار دیتے ہیں۔ کیا وزیر اعظم اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کریں گے اور جنوبی افریقہ کے جائز حق کا دفاع کریں گے، یا پھر خاموش رہیں گے؟‘‘


خیال رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا الزام ہے کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام کسانوں کے ساتھ مبینہ زیادتیوں اور داخلی سیاسی عدم استحکام کے باعث وہ اسے جی-20 کے پلیٹ فارم پر اعتماد کے قابل نہیں سمجھتے لیکن عالمی ماہرین اس مؤقف کو سفارت کاری کی جگہ داخلی سیاست سے جوڑتے ہیں۔





نیپال کے نئے بینک نوٹ پر متنازع سرحدی علاقوں کی نقشہ بندی، ہندوستان سے تناؤ بڑھنے کا خدشہ



قومی آواز بیورو


کھٹمنڈو: نیپال کے مرکزی بینک نے 100 روپے مالیت کے نئے نوٹ جاری کئے ہیں، جن پر ان علاقوں کی نقشہ بندی شامل ہے جن پر ہندوستان اور نیپال دونوں دعویٰ رکھتے ہیں۔ ان متنازع سرحدی علاقوں، کالاپانی، لپولیکھ اور لمپیادھورا کو پہلی مرتبہ بینک نوٹ پر اس انداز سے دکھایا گیا ہے، جسے ماہرین دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئے سفارتی تناؤ کی علامت قرار دے رہے ہیں۔


رپورٹ کے مطابق، نیپال نے تقریباً 5 برس قبل اپنا سیاسی نقشہ تبدیل کرتے ہوئے ان تینوں علاقوں کو باضابطہ طور پر ملک کی سرحدوں میں شامل کر لیا تھا۔ اُس وقت پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم منظور کی تھی، جس کے ذریعے ان علاقوں کو نیپال کی زمین قرار دیا گیا۔ اس قدم پر ہندوستان نے سخت اعتراض ظاہر کیا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں قابلِ ذکر تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ اب اسی ترمیم شدہ نقشے کو پہلی بار قومی کرنسی پر جگہ دی گئی ہے۔




نیپال راسٹر بینک (این آر بی) کے ترجمان گرو پرساد پاؤڈیل کے مطابق 100 روپے کے نوٹ پر نقشہ حکومت کے فیصلے کے مطابق اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’چائنا بینک نوٹ پرنٹنگ اینڈ منٹنگ کارپوریشن نے 100 روپے کے تین سو ملین نوٹ فراہم کیے ہیں، جنہیں اب جاری کر دیا گیا ہے۔‘‘


سنہ 2020 میں ہندوستان نے اپنا نیا نقشہ جاری کیا تھا جس میں ان سرحدی علاقوں کو شامل دکھایا گیا تھا۔ اس کے بعد نیپال نے بھی جوابی قدم اٹھاتے ہوئے اپنا نقشہ شائع کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان کئی ادوار کی بات چیت کے باوجود یہ تنازع حل نہیں ہو سکا اور سرحدی حدبندی کا مسئلہ مسلسل ایک حساس معاملہ بنا ہوا ہے۔


خیال رہے کہ کالاپانی، لپولیکھ اور لمپیادھورا نیپال کی شمال مغربی سرحد اور ہندوستان کی ریاست اتراکھنڈ کے بیچ واقع ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کرنسی نوٹ پر نقشہ شامل کرنے سے مذاکرات کے عمل میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ نیپال راسٹر بینک 5، 10، 20، 50، 100، 500 اور 1000 روپے کے نوٹ جاری کرتا ہے لیکن نقشہ صرف 100 روپے کے نوٹ پر موجود ہوتا ہے۔ تازہ تبدیلی اسی ایک نوٹ تک محدود ہے۔






بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو بدعنوانی کے الزام میں اکیس سال قید کی سزا


قومی آواز بیورو


بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے جمعرات کو معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو بدعنوانی کے جرم میں اکیس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اس سے صرف ایک ہفتہ قبل انہیں انسانیت کے خلاف جرائم کے سلسلے میں سزائے موت دی گئی ہے۔ اٹھتر سالہ حسینہ اس وقت ہندوستان میں مقیم ہیں اور انہوں نے بنگلہ دیش واپسی کے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔


انہوں نے گزشتہ سال طلبہ کی زیرِ قیادت بغاوت کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا گیا تھا جو بالآخر انہیں اقتدار سے بے دخل کر دینے کی وجہ بن گیا۔ اسی بنا پر انہیں 17 نومبر کو انسانیت کے خلاف جرائم پر پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن انسدادِ بدعنوانی کمیشن (اے سی سی) نے سابق رہنما کے خلاف دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک مضافاتی علاقے میں منافع بخش پلاٹوں پر قبضے کے سلسلے میں تین دیگر مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔




جج عبداللہ المامون نے فیصلہ دیا کہ حسینہ واجد کا طرزِ عمل "مسلسل بدعنوانی کی ذہنیت ظاہر کرتا ہے جس کی بنیادیں استحقاق، بے لگام طاقت اور عوامی املاک کی لالچ میں ہیں۔ سرکاری زمین کو ایک نجی اثاثہ سمجھ کر انہوں نے اپنی لالچی نظر ریاستی وسائل پر رکھی اور خود کو اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے سرکاری طریقہ کار میں ہیرا پھیری کی۔"


امریکہ میں مقیم حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد اور بیٹی صائمہ واجد جو اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ عہدیدار کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں، کو پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ حسینہ کی مطلق العنان حکمرانی کے خلاف طلبہ کی قیادت میں کئی ہفتوں تک احتجاج ہوا جس کے بعد وہ پانچ اگست 2024 کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بنگلہ دیش سے بھارت فرار ہو گئیں۔




حسینہ کی معزولی کے بعد سے بنگلہ دیش سیاسی بحران کا شکار ہے اور تشدد کی ایک لہر نے فروری 2026 میں ہونے والے انتخابات کی مہم کو متأثر کیا ہے۔ حسینہ نے انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں عدالتی فیصلے اور سزائے موت کو "متعصبانہ اور سیاسی محرکات پر مبنی" قرار دیا ہے۔ کرپشن کے تین دیگر مقدمات بھی زیرِ سماعت ہیں جو ان کے اور ان کی بہن شیخ ریحانہ اور ان کے بچوں بشمول برطانوی رکن پارلیمنٹ ٹیولپ صدیق کے خلاف ہیں۔ (بشکریہ نیوز پورٹل ’العربیہ ڈاٹ نیٹ، اردو‘)






بہار اسمبلی انتخابات میں بڑی دھاندلی ہوئی، ’ووٹ چوری‘ سے الیکشن جیتا گیا: کانگریس



یو این آئی


بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج کے سلسلے میں جمعرات کے روز یہاں کانگریس کی اعلیٰ سطحی جائزہ میٹنگ ہوئی، جس میں تفصیلی بحث کے بعد حقائق کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ انتخابات میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے اور ’ووٹ چوری‘ کر کے الیکشن جیتا گیا ہے، جس کے خلاف پارٹی کی جدوجہد جاری رہے گی۔


کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپل نے میٹنگ کے بعد دیر رات یہاں ایک بیان میں کہا کہ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے اور لوک سبھا میں قائدِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی کی قیادت میں تقریباً چار گھنٹے تک پارٹی امیدواروں اور دیگر سینئر رہنماؤں کی جائزہ میٹنگ ہوئی، جس میں یہ واضح رائے بنی کہ بہار کے انتخابی نتائج اصل عوامی مینڈیٹ نہیں، بلکہ ایک منصوبہ بند اور گھڑا ہوا نتیجہ ہے۔




انہوں نے بتایا کہ کیسے الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی (ایس آئی آر) کے نام پر مخصوص ووٹروں کے نام ہٹائے اور مشتبہ نام شامل کیے۔ پارٹی نے الزام لگایا کہ الیکشن میں وزیراعلیٰ مہیلا روزگار یوجنا (ایم ایم آر وائی) کے تحت کھلے عام نقد رشوت دی گئی اور پولنگ مراکز پر بھی اسی طرح ووٹروں کو متاثر کیا گیا۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ تمام حلقوں میں ایسا پیٹرن سامنے آیا ہے، جسے کوئی بھی آزاد الیکشن کمیشن کبھی نظر انداز نہیں کرے گا۔


کے سی وینوگوپل نے کہا کہ ’’یہ مسائل منظم انتخابی بدعنوانی اور ضابطہ اخلاق کی کھلے عام خلاف ورزی کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جو الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہوئے اور بی جے پی کی انتخابی دھاندلی میں ایسی سرگرمیاں پوری شدت سے جاری رہیں۔ بہار میں جو ہوا وہ جمہوریت پر براہِ راست حملے سے کم نہیں ہے۔ کانگریس اس چُرائے گئے مینڈیٹ کو نئی معمول کی صورتِ حال کے طور پر قبول نہیں کرے گی اور جمہوریت کے تحفظ کی لڑائی جاری رکھے گی، عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘





پوتن تحریری ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں کہ وہ یورپ پر کبھی حملہ نہیں کریں گے


قومی آواز بیورو


امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو کسی بھی قیمت پر ختم کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ یورپ یوکرین کے تنازع سے دستبردار ہونے کے لیے روس پر بھی شدید دباؤ ڈال رہا ہے۔ دریں اثنا، یورپ اور روس کے تعلقات مسلسل خراب ہو رہے ہیں۔ یہاں تک اطلاعات تھیں کہ روسی صدر پوتن یورپ کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ کر سکتے ہیں۔


لیکن اب روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ ان کا کبھی یورپ پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ پوتن نے کہا کہ وہ تحریری طور پر ضمانت دے سکتے ہیں کہ وہ یورپ پر کبھی حملہ نہیں کریں گے۔کرغزستان پہنچنے والے پوتن نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یورپی رہنما محض اپنے لوگوں میں ایک بھرم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں یا محض اسلحے کی صنعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کر رہے ہوں ۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ سراسر بکواس ہے۔



پوتن نے کہا کہ اگر یورپی ممالک چاہیں تو وہ کاغذ پر ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں کہ وہ ناٹو یا یورپ پر حملہ نہیں کریں گے۔ ایک صحافی نے ٹرمپ کے 28 نکاتی امن منصوبے کا ذکر کیا، جس میں روس سے یورپ پر حملہ نہ کرنے کی تحریری ضمانت کا مطالبہ پوتن سے کیا گیا تھا۔ پوتن نے جسے مضحکہ خیز قرار دیا۔


انہوں نے کہا کہ روس کا یورپ پر حملے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ہم یورپ کے خلاف جارحانہ منصوبوں کا تصور بھی نہیں کرتے۔ یہ دھوکہ بازوں کی طرف سے پھیلائی گئی ایک داستان ہے جو عوام میں خوف کو اپنی ریٹنگ بڑھانے اور اسلحے کی صنعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ شاید یورپی رہنما محض اپنی عوام کے لیے ایک جھوٹا بھرم پیدا کرنا چاہتے ہیں، یا شاید وہ صرف اسلحے کی صنعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔لیکن ہمارے نقطہ نظر سے، یہ سراسر بکواس ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم کاغذ پر ضمانت دے سکتے ہیں کہ روس یورپ پر حملہ نہیں کرے گا۔ لیکن یہ شق ہمیں مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔