شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے بنگلہ دیش کی درخواست پر فیصلہ مناسب وقت پر کیا جائے گا: ہندوستان



یو این آئی


ہندوستان نے کہا ہے کہ اسے بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست موصول ہوئی ہے اور اس پر مناسب وقت پر فیصلہ کیا جائے گا۔ بدھ کو ایک بریفنگ میں شیخ حسینہ کی حوالگی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے تصدیق کی کہ ہندوستان کو بنگلہ دیش سے شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست موصول ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ اس کا مطالعہ کیا جا رہا ہے اور وقت آنے پر فیصلہ کیا جائے گا۔


قابل ذکر ہے کہ شیخ حسینہ نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہندوستان میں پناہ لے رکھی ہے۔بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے محترمہ حسینہ کو موت کی سزا سنائی ہے۔ اس کے بعد بنگلہ دیش نے ہندوستان کی حوالگی کی درخواست کی ہے۔




ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ بنگلہ دیش کے قومی سلامتی کے مشیر نے حالیہ دورہ ہند کے دوران اپنے ہندستانی ہم منصب کو دورہ بنگلہ دیش کی دعوت دی تھی تاہم ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔





شیخ حسینہ کے بیٹے اور بیٹی کے خلاف بھی عدالت کی سخت کارروائی، ملی 5-5 سال قید کی سزا


قومی آواز بیورو


آج بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ڈھاکہ کی عدالت نے بدعنوانی سے منسلک 3 معاملوں میں تاریخی فیصلہ سنایا۔ سزا کا اعلان نہ صرف شیخ حسینہ کے لیے کیا گیا، بلکہ ان کے بیٹے صجیب واجد اور بیٹی صائمہ واجد کے لیے بھی کیا گیا۔ خصوصی جج-5 محمد عبداللہ المامون کی عدالت نے شیخ حسینہ کو زمین گھوٹالہ سے منسلک 3 معاملوں میں مجموعی طور پر 21 سال قید کی سزا سنائی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب حسینہ پر سنگین حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے معاملے بھی چل رہے ہیں۔ وہ اس وقت بنگلہ دیش سے فرار ہیں اور ہندوستان میں پناہ لیے ہوئی ہیں۔


عدالت نے جن 3 معاملوں میں فیصلہ سنایا ہے، ان میں شیخ حسینہ پر الزام ہے کہ انھوں نے ڈھاکہ کے پورباچل علاقہ میں سرکاری پلاٹ اپنی فیملی کے حق میں ناجائز طور سے الاٹ کروائے۔ ہر ایک معاملے میں عدالت نے انھیں 7-7 سال جیل کی سزا سنائی ہے۔ 3 دیگر معاملے بھی ہیں، جن سے متعلق فیصلہ یکم دسمبر کو آئے گا۔




جن 3 معاملوں میں شیخ حسینہ کو سزا سنائی گئی ہے، انہی معاملوں میں ان کے بیٹے صجیب واجد جوئے اور بیٹی صائمہ واجد پُتول کو بھی عدالت نے سخت سزا سنائی ہے۔ صجیب واجد کو 5 سال قید کی سزا سنائے جانے کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ ٹکا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ صائمہ کو صرف 5 سال قید کی سزا ملی ہے، یعنی انھیں کوئی جرمانہ ادا نہیں کرنا ہوگا۔ یہ سبھی معاملے انسداد بدعنوانی کمیشن (اے سی سی) کے ذریعہ رواں سال جنوری میں شروع ہوئی جانچ سے منسلک ہیں۔ حالانکہ حسینہ اور ان کی فیملی نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ سبھی الزامات سیاسی رنجش کے سبب ہونے والی کارروائی ہیں۔



واضح رہے کہ حال ہی میں ڈھاکہ کے انٹریشنل کرائم ٹریبونل (آئی سی ٹی) نے شیخ حسینہ کو جولائی 2024 کی طلبا تحریک کے دوران پرتشدد استحصال کے لیے انسانیت مخالف جرم میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ عدالت کے مطابق اس وقت ہوئے سرکاری مظالم میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ شیخ حسینہ اور ان کی فیملی کی اب کوئی قانونی ٹیم ان معاملوں میں عدالت میں موجود نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ملک چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔






جکارتہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور دہلی چوتھے نمبر پر



قومی آواز بیورو


انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ نے دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر بنا۔ اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ، ورلڈ اربنائزیشن پراسپیکٹس 2025 کے مطابق تقریباً 42 ملین کی آبادی کے ساتھ جکارتہ اب جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر پہنچ گیا ہے، جو کینیڈا جیسے ملک کی کل آبادی کے برابر ہے۔


رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکہ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں کی آبادی تقریباً 37 ملین ہے۔ دریں اثنا، ٹوکیو، جو ایک طویل عرصے تک سرفہرست مقام پر فائز تھا، اب کھسک کر تیسرے نمبر پر آ گیا ہے، اور ہندوستان کا قومی دارالحکومت دہلی اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔




اقوام متحدہ کی رپورٹ اس لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ 2018 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں جکارتہ صرف 11 ملین کی آبادی کے ساتھ 33 ویں نمبر پر تھا جب کہ اس وقت ٹوکیو کو دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر سمجھا جاتا تھا جس کی آبادی تقریباً 37 ملین تھی۔


درحقیقت یہ بڑی تبدیلی اقوام متحدہ کی طرف سے اپنائے گئے نئے حساب کتاب کے طریقہ کار میں ایک بڑی تبدیلی کے بعد آئی ہے۔ اس سے قبل، اقوام متحدہ کی شہری آبادی کے اعداد و شمار بنیادی طور پر حکومتی ریکارڈ اور متعلقہ ممالک کے قومی اعدادوشمار پر مبنی تھے۔ تاہم مسئلہ یہ تھا کہ ہر ملک نے اپنی اپنی سہولت کے مطابق شہر کی حدود کا تعین کیا۔ کچھ ممالک صرف میونسپل علاقوں کو شہروں کے طور پر سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرے پورے میٹروپولیٹن علاقے کو سمجھتے ہیں۔ اس سے عالمی موازنہ میں تفاوت پیدا ہوا۔




اس کمی کو دور کرنے کے لیے، 2025 میں، اقوام متحدہ نے تمام ممالک کے لیے شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں کی درجہ بندی کے لیے یکساں معیار نافذ کیا۔ نئے طریقہ کار میں اس بات پر غور کیا گیا کہ شہر کی وسعت ان علاقوں کو شامل کرنے کے لیے ہوئی ہے جہاں لوگ کام کرتے ہیں، رہتے ہیں اور شہر کے اندر روزمرہ کی زندگی میں مشغول ہوتے ہیں۔


اس نئے طریقہ کار نے جکارتہ کو سر فہرست کر دیا۔ جکارتہ جاوا جزیرے کے شمال مغربی ساحل کے ساتھ پھیلا ہوا ہے اور کئی گنجان آباد علاقوں کو گھیرے ہوئے ہے جو دراصل شہر کا حصہ ہیں، لیکن انڈونیشیا کی سرکاری مردم شماری نے ان علاقوں کو طویل عرصے تک جکارتہ میٹروپولیٹن علاقے کا حصہ نہیں سمجھا۔ نئے طریقہ کار میں ان تمام علاقوں کو شامل کیا گیا، جس کے نتیجے میں جکارتہ کی آبادی میں تیزی سے اضافہ 30 ملین تک پہنچ گیا۔





آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم نے ایس آئی آر پر اٹھائے سنگین سوال، بی ایل او کی خود کشی پر الیکشن کمیشن کو لکھا خط



قومی آواز بیورو


اترپردیش سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں ووٹر لسٹ کی ایس آئی آر مہم کو لے کر جاری سیاسی ہنگامے کے درمیان آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم نے بھی سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ آل انڈیا راشٹریہ شکشک مہا سنگھ (اے بی آر ایس ایم) نے ایس آئی آر کی میعاد میں توسیع کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنے کم وقت میں ایس آئی آر کا کام پورا ہونا مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس عمل کے دوران موت کا شکار ہوئے بی ایل اوز کے لواحقین کو ایک کروڑ روپے معاوضہ اور خاندان کے ایک فرد کو سرکاری نوکری دینے کا مطالبہ کیا گیا۔


الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں آر ایس ایس سے وابستہ اساتذہ کی تنظیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے لوگوں کو ایس آئی آر کے بارے میں بھی آگاہ نہیں کیا ہے جس کی وجہ بی ایل او اور ووٹر دونوں کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس دوران مقررہ وقت اور وسائل کی کمی اور عہدیداران کے رویے کا حوالہ دیتے ہوئے بی ایل او کا کام کرنے والے اساتذہ کے انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔



تنظیم کی جانب سے کئی سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس طرح کا طرز عمل جمہوری اداروں میں اخلاقی معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ فیڈریشن نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر ایس آئی آر کے عمل کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے۔ خط کے ذریعہ نصف درج مطالبات بھی کئے گئے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ایس آئی آر کی آخری تاریخ کو بڑھایا جائے تاکہ یہ کام بغیر دباؤ کے درست اور معیار کے ساتھ مکمل کیا جا سکے۔


اس کے علاوہ ایس آئی آر کے دباؤ کی وجہ سے جن بی ایل او اساتذہ کا اچانک انتقال یا خودکشی ہوئی ہے، ان کے لواحقین کو ایک کروڑ روپے کا ایکس گریشیا معاوضہ اور ایک وارث کو سرکاری نوکری دی جائے۔ جن بی ایل او نے کام کے دباؤ میں آکر خودکشی کی ہے یا بیمار ہوئے ہیں ان کے معاملوں کی اعلیٰ سطحی جانچ ہو اورقصوروار افسران کے خلاف کارروائی ہو۔ اسی طرح افسران کو واضح ہدایات دی جائیں کہ وہ کسی بھی قسم کی دھمکی، استحصال، توہین آمیز زبان کااستعمال یا تعزیری کارروائی سے باز رہیں۔




یہ خط 24 نومبر کو بھیجا گیا ہے جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بار تکنیکی اور انتظامی مسائل کی وجہ سے بی ایل اوز کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بی ایل او انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن سے کہا گیا ہے کہ بی ایل او کے طور پر کام کرنے والے اساتذہ تکنیکی سہولیات کی کمی اور افسروں کے دباؤ اور ہراساں کیے جانے کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔






مہاراشٹر: ناندیڑ کی ووٹر لسٹ میں فرضی اندراجات، کانگریس نے پھر لگایا ’ووٹ چوری‘ کا الزام



قومی آواز بیورو


مہاراشٹر کے ناندیڑ میں ووٹر لسٹ کی شفافیت پر ایک بار پھر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ مقامی بلدیاتی انتخابات کے پیشِ نظر ووٹر لسٹ میں منظم طریقے سے فرضی اندراجات کیے گئے، جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا تھا۔ پارٹی کے مطابق یہ معاملہ محض بے ضابطگی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا عمل ہے جس سے ’ووٹ چوری‘ کی کوشش صاف ظاہر ہوتی ہے۔


کانگریس کا ردعمل اس وقت سامنے آیا جب ’دی کوئنٹ‘ کی ایک تفصیلی رپورٹ میں ناندیڑ واگھالا میونسپل کارپوریشن کے وارڈ نمبر 5 میں بڑے پیمانے پر مشکوک اندراجات کا انکشاف کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اس وارڈ میں کل 23661 ووٹر درج ہیں مگر ان میں سے 3500 سے زیادہ ووٹر ایسے پتوں پر رجسٹرڈ پائے گئے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ووٹر لسٹ میں ان کے پتے کے خانے میں ’0‘ ’NA‘ اور ’–‘ جیسی علامتیں لکھی ہوئی تھیں، جو فرضی اندراج کی جانب واضح اشارہ ہیں۔




مزید تشویش ناک انکشاف یہ ہوا کہ 600 سے زائد ووٹر دو نیٹ (این ای ای ٹی) کوچنگ سینٹروں کے پتے پر درج تھے۔ جب اداروں کے انتظامیہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ متعلقہ طلبہ نہ تو کبھی وہاں مقیم رہے اور نہ ہی ادارے کے احاطے میں رہائش کا کوئی انتظام تھا۔ چند طلبہ کبھی کبھار آس پاس کرایے کے کمروں میں رہتے تھے مگر وہ بھی اب وہاں سے منتقل ہو چکے ہیں۔


کانگریس نے کہا کہ یہ تفصیلات ثابت کرتی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے دوران ووٹر لسٹ میں جان بوجھ کر فرضی نام جوڑے گئے۔ پارٹی کے مطابق یہ معاملہ انتخابی نظام کی ساکھ پر براہِ راست حملہ ہے اور ریاستی حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ پارٹی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایسے شواہد ملک کے مختلف حصوں سے سامنے آ رہے ہیں اور راہل گاندھی متعدد بار اس طرح کی ’ووٹ چوری‘ کے سلسلے کو اجاگر کر چکے ہیں۔


کانگریس کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ان انکشافات پر فوری کارروائی کرنی چاہئے مگر ادارہ مسلسل خاموش ہے۔ پارٹی نے الزام لگایا کہ کمیشن کی یہ خاموشی اتفاق نہیں بلکہ حکومت کے ساتھ ملی بھگت کا نتیجہ ہے، جس سے عوام کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔





’میرے پاس ایک نہیں، 6 زمینیں ہیں‘، ترنمول رکن اسمبلی ہمایوں کبیر بابری مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے پرعزم


قومی آواز بیورو


مغربی بنگال کے ترنمول رکن اسمبلی ہمایوں کبیر ریاست میں 6 دسمبر کو بابری مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے پرعزم نظر آ رہے ہیں۔ بھرت پور سے ترنمول کانگریس کے رکن اسمبلی ہمایوں کا کہنا ہے کہ 6 دسمبر کو مرشد آباد کے بیلڈانگا میں بابری مسجد کی بنیاد رکھی جائے گی۔ وہاں ایک اسٹیج ہوگا جس پر 400 لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ رکن اسمبلی نے مزید کہا کہ اسٹیج کہاں ہوگا، یہ میں آپ کو 4 دسمبر کو بتاؤں گا۔



ہمایوں کبیر کا کہنا ہے کہ ابھی یہ طے نہیں ہوا ہے کہ بیلڈانگا میں زمین کے کس حصہ پر بابری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا، لیکن یہ افواہ تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے کہ زمین متنازعہ ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ زمین ہمایوں کبیر کی نہیں ہے، پھر کس طرح سنگ بنیاد رکھنے کا فیصلہ لیا گیا۔ اس بارے میں ہمایوں کبیر کا کہنا ہے کہ ’’مجھے نہیں پتہ کہ زمین کس نے دی اور کس نے نہیں؟‘‘ انھوں میڈیا سے یہ سوال بھی کیا کہ ’’آپ کو کس نے بتایا کہ جس زمین پر تنازعہ ہو رہا ہے، اس پر بابری مسجد بن رہی ہے۔‘‘


ہمایوں کبیر کا کہنا ہے کہ ’’میرے پاس ایک نہیں، 6 زمینیں تیار ہیں۔ میں نے کوئی زمین نہیں دیکھی ہے اور نہ کسی کو بتایا ہے۔ اگر کوئی میرا سر کاٹنے آئے گا تو اس کے لیے صحیح انتظام کیا جائے گا۔‘‘ دراصل بی جے پی اور کچھ ہندوتوا تنظیمیں ہمایوں کبیر کے اعلان سے سخت ناراض ہیں۔ ہندو مہاسبھا نے تو مبینہ طور پر ایک قبر بھی کھود رکھی ہے اور ہمایوں کو زندہ یا مردہ لانے پر ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔