یو پی ایس سی ملک کی تعمیر کا ایک اہم ستون ہے جو میرٹ اور دیانت پر مبنی ہے: لوک سبھا اسپیکر
نئی دہلی ، 26 نومبر (یو این آئی) آج لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے یونین پبلک سروس کمیشن ( یوپی ایس سی ) کو ملک کی تعمیر کا ایک اہم ستون قرار دیا جو میرٹ اور دیانت پر مبنی ہے نئی دہلی میں یوپی ایس سی کے شتابدی سمیلن کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر نے کمیشن کے 100 سالہ سفر کو ہندستان کے جمہوری اور انتظامی ارتقاء میں ایک اہم باب قرار دیا اپنے اہم خطاب میں جناب برلا نے کہا کہ یہ ادارہ جومیرٹ، شفافیت اور اخلاقی اقدار پر قائم ہے، لاکھوں ہندوستانی نوجوانوں کو عوامی خدمت کے لیے وقف ہونے کی ترغیب دیتا رہا ہے۔ اسپیکر نے یہ بھی اجاگر کیا کہ جیسے جیسے ہندستان 2047 تک ایک ترقی یافتہ اور مجموعی شمولیت پرمبنی ملک کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے، یوپی ایس سی کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ ڈیجیٹل دور، مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور تیزی سے بدلتی عالمی صورتِ حال کے پیشِ نظر، یوپی ایس سی نے اپنے عمل میں اصلاحات کی ہیں اور اپنے سلیکشن کی کارروائیوں کو مزید جدید، سائنسی اور شفاف بنا کر اچھے حکمرانی کے نئے معیار قائم کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یوپی ایس سی نے مختلف سماجی اور جغرافیائی پس منظر سے آنے والے باصلاحیت افراد کو برابر مواقع فراہم کر کے ہندستان کے شاندار جمہوری ڈھانچے کو میرٹ، ایمانداری اور شفافیت کے ذریعے مضبوط کیا ہے۔اسپیکر نے مزید کہا کہ یہ صدی کاطویل شاندار سفر صرف انتظامی تاریخ نہیں بلکہ یوپی ایس سی کےحکمرانی، ترقی اور عوامی خدمات کی فراہمی میں منفرد کردار کی ایک لازوال داستان ہے۔ اس سے ہندستان کے انتظامی نظام میں عوام کا اعتماد مزید مضبوط ہوا ہے۔
جاری۔ یو این آئی۔ م
آر ایس ایس نے آئین کو مغربی نظریات پر مبنی کہا تھا: ملکارجن کھڑگے
نئی دہلی، 26 نومبر (یو این آئی) کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے ٰیوم آئین کے موقع پر آر ایس ایس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سنگھ نے پہلے آئین کو 'مغربی اقدار پر مبنی' قرار دیا اور آئین ساز ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا پتلا جلایا تھا انہوں نے کہا کہ امبیڈکر، نہرو اور راجیندر پرساد نے مساوات اور سیکولر اقدار پر مبنی ہندوستان کا تصور پیش کیا تھا، آج وہ شناخت خطرے میں ہے کانگریس صدرملکارجن کھڑگے نے الزام لگایا کہ آر ایس ایس نے تاریخ میں آئین، ترنگے اور آزادی کی جدوجہد کی مخالفت کی تھی، لیکن آج سیاسی مجبوری کے باعث وہی لوگ آئین کی حمایت کا دکھاوا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس اداروں کو کمزور کر رہے ہیں اور آئین کے احترام کا دعویٰ محض دکھاوا ہے۔
ملک میں اگر کوئی فرقہ پرست طاقتوں سے لڑ سکتا ہے تو وہ ہے کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی: عمران مسعود
نئی دہلی: گزشتہ شب مٹیا محل اسمبلی حلقہ کے تحت آنے والے چاندنی محل وارڈ 76 میں کانگریس امیدوار کنور شہزاد احمد کی حمایت میں ایک جلسہ کا انعقاد سوئی والان چوک پر کیا گیا۔ اس کی صدارت کانگریس کے سینئر لیڈر مرزا جاوید علی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض چاندنی چوک ضلع صدر محمد عثمان نے بحسن و خوبی ادا کیے۔ جلسہ میں مہمان مقرر کے طور پر سہارن پور سے کانگریس ممبر پارلیمنٹ عمران مسعود نے شرکت کی۔
کانگریس ممبر مارلیمنٹ عمران مسعود نے قابل سماعت تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک میں جس طرح کی سیاست ہو رہی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ جس منصوبہ بند طریقہ سے سازشیں چل رہی ہیں اس سے ہمیں اگر مقابلہ کرنا ہے تو متحد ہو کر موثر فیصلے لینے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کی آزادی کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے پھانسی کے پھندوں کو چوما تھا اور جن لوگوں نے معافی نامہ لکھے وہ آج ہم سے سوال پوچھ رہے ہیں، اس سے زیادہ شرم کی بات نہیں ہو سکتی۔
عمران مسعود نے حال ہی میں ہوئے بہار الیکشن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بہار میں ہر کس و ناکس نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ وہاں کس طرح کھلے عام جمہوریت کی لوٹ ہوئی۔ ووٹ چوری کی اس لڑائی کو اگر کوئی لیڈر لڑ سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف راہل گاندھی ہے۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی گریز نہیں جو میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ عام آدمی پارٹی کانگریس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا کام کرتی ہے۔ اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے عمران مسعود نے کہا کہ یہ ضمنی الیکشن صرف وارڈ کا الیکشن نہیں ہے، یہ الیکشن ملک میں پھیل رہی فرقہ واریت، آئین کا تحفظ اور عوام کے حق کے لیے ہے۔ انہیں چھوٹے چھوٹے الیکشن سے ہمارا پیغام ملک بھر میں جائے گا اور فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوں گے۔
کانگریس ممبر پارلیمنٹ نے چاندنی محل وارڈ 76 کے عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں صرف کونسلر کے الیکشن میں کامیابی کے لیے نہیں آیا ہوں، میں یہاں آپ کو بیدار کرنے آیا ہوں، اس سیاست سے جو ملک میں ہمارے خلاف ہو رہی ہے اور اگر آپ اس نفرت کی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں تو چاندنی محل سے ایک پیغام پورے ملک میں پہنچا دو کہ اب ہم بٹنے کا کام نہیں کریں گے ہم سب متحد ہیں۔
عمران مسعود نے کہا کہ جب ہم فرقہ پرستوں کے نشانہ پر آتے ہیں تو اس میں کسی کی ذات یا برادری نہیں دیکھی جاتی بلکہ نام دیکھا جاتا ہے۔ تاہم جو لوگ برادری کو متحد ہونے کی بات کرتے ہیں، اصل میں وہ اپنے وجود کو تہس نہس کرنے کا کام کر تے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے خلاف ووٹ کو تقسیم کرنے کی ایک پوری مہم چلائی گئی، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ووٹ دینے کی ضرورت ہے۔ راجستھان میں ضمنی الیکشن ہوا، اس میں کانگریس پارٹی کامیاب ہوئی اور ایک موثر پیغام ریاست بھر میں گیا کہ اب بدلاؤ ہوگا۔
عمران مسعود نے دہلی کی شیلا حکومت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی راجدھانی دہلی کو جس حکومت اور ہم سب کی پیاری آنجہانی شیلا دیکشت نے کانگریس کے جس ویژن کے ساتھ بنایا، سنوار اور عالمی شہر کا درجہ دلوایا تھا، آج اس کی حالت کیا ہے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ لوگ دہلی میں رہتے ہو، کچھ لوگ آئے، بڑے بڑے خواب دکھائے، ان کی باتوں میں آ کر آپ نے کانگریس کو بھلا دیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دہلی میں مسائل کے آج انبار لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں بیدار کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آج کتابوں سے ہماری سنہری تاریخ کو بدلا جا رہا ہے اور جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے۔ ہماری نئی نسل مستقبل میں پوچھے گی کہ جب یہ سب ہو رہا تھا آپ کیا کر رہے تھے؟ اسی لیے ہمیں متحد ہو کر اس لیڈر کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں جو اس نا انصافی کے خلاف لڑ رہا ہے، یعنی ہمیں راہل گاندھی کو مضبوطی دینی ہے۔
اپنی تقریر کے آخر میں عمران مسعود نے کہا کہ کانگریس کا ایک ایک سپاہی عوام کی خدمت کا بھرپور جذبہ رکھتا ہے۔ اس میں ایک کنور شہزاد بھی ہے۔ جب عالمی وبا آئی تو نوجوان کانگریس لیڈر کنور شہزاد نے اپنے کاندھوں پر آکسیجن سلنڈر رکھ کر لوگوں کی زندگیاں بچانے کا کام کیا۔ عوام کی خدمت سے متعلق اس سے بڑی مثال نہیں ہو سکتی، اور جو اپنی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لوگوں کا کام ک
’آج ملک آئین اور منوواد کے دوراہے پر کھڑا ہے‘، وزیر اعظم مودی کے خط پر پرکاش امبیڈکر کا ردعمل
قومی آواز بیورو
ونچت بہوجن اگھاڑی کے سربراہ پرکاش امبیڈکر نے بدھ (26 نومبر) کو یوم آئین کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کے خط پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک اس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے 2 راستے گزرتے ہیں۔ اس میں ایک آئین کا راستہ ہے اور دوسرا منوواد کا۔ اس کی وضاحت بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے 54-1953 میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں کر دی تھی۔ پرکاش امبیڈکر نے کہا کہ ’’جب تک یہ تنازعہ ختم نہیں ہوگا، ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ 75 سال بعد بھی وہی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ جو لوگ آئین کی حمایت کرتے ہیں، ان کی الگ دلیل ہے اور جو آئین کی مخالفت میں ہیں وہ مذہب کا سہارا لے کر اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔‘‘
پرکاش امبیڈکر نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ دونوں نے ایودھیا میں ایک نیا پرچم دکھا کر سیاسی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ 1950 میں سردار پٹیل نے انہیں ترنگا لہرانے کے لیے مجبور کیا تھا۔ آج جو پرچم ایودھیا میں لہرایا گیا، اس سے ملک کی ترقی نہیں ہوگی بلکہ وہ لوگوں کو تقسیم کرنے کی علامت بن جائے گا۔
پرکاش امبیڈکر نے آر ایس ایس کے متعلق کہا کہ ’’جو تنظیم یو اے پی اے کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہے، چندہ اور ہتھیار جیسی سرگرمیاں خفیہ طور پر انجام دیتی ہیں، انہیں دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔ وہی اصول آر ایس ایس پر بھی نافذ ہونا چاہیے۔ ملک کے گنپتی منڈل چیریٹیبل تک کمشنر کے پاس رجسٹر ہوتے ہیں تو یہ کیوں نہیں؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ آر ایس ایس بڑا ہے اور ملک چھوٹا۔ یہی منووادی سوچ ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جب تک آر ایس ایس کو رجسٹر نہیں کیا جائے گا تب تک ملک میں تنازعہ جاری رہے گا اور لوگ مذہب کے نام پر گمراہ ہوتے رہیں گے۔
پرکاش امبیڈکر کے مطابق 1969 سے 1971 تک کانگریس حکومت نے بنگلہ دیشیوں کو سیاسی اور سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر پناہ دی تھی، لیکن اب مرکزی حکومت انہیں خطرہ بتا کر باہر کرنا چاہتی ہے۔ یہ حکومت کا خطرناک کھیل ہے، جسے ہندوستانی لوگ ابھی سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آپریشن سندور کے وقت بھی کوئی ملک ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا تھا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی ناقابل اعتبار ہے، اس لیے وہ ممالک جو ہندوستان کی مدد کرتے تھے وہ بھی اب اعتبار نہیں کرتے ہیں۔
’کیا مغربی بنگال میں ایس آئی آر کی وجہ سے 23 بی ایل او کی موت ہوئی؟‘ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے طلب کیا جواب
قومی آواز بیورو
سپریم کورٹ نے بدھ (26 نومبر) کو تمل ناڈو، کیرالہ، مغربی بنگال، پڈوچیری اور بہار میں جاری ایس آئی آر کو چیلنج دینے والی تمام عرضیوں پر ایک ساتھ سماعت کی۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ نے الیکشن کمیشن کو یکم دسمبر تک جواب داخل کرنے کی سخت ہدایت دی ہے۔ کیرالہ معاملہ کی اگلی سماعت 2 دسمبر کو ہوگی، بقیہ تمام معاملوں کی اگلی سماعت 9 دسمبر کو ہوگی۔ مغربی بنگال میں بی ایل او کی اموات معاملے میں الیکشن کمیشن سے یکم دسمبر تک جواب طلب کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظر ثانی (ایس آئی آر) کو لے کر اب تک کئی ریاستوں میں بی ایل او کی اموات کے معاملے سامنے آ چکے ہیں۔ صرف مغربی بنگال میں 23 بی ایل او اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ چونکہ کیرالہ میں بھی بی ایل او کی موت کا معاملہ سامنے آیا ہے، اس لیے الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ سے کہا کہ کیرالہ ریاستی الیکشن کمیشن کو بھی جواب داخل کرنے دیں۔ جواب میں سی جے آئی نے کہا کہ ٹھیک ہے، ریاستی الیکشن کمیشن کے ذریعہ یکم دسمبر تک جواب داخل کیا جائے۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے کہا کہ سیاسی پارٹیاں جان بوجھ کر مصیبت کھڑی کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جب کپل سبل نے کہا کہ بی ایل او کو 50 فارم اپلوڈ کرنے کی اجازت ہے، تو الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش سینئر وکیل راکیش دویدی نے کہا کہ یہ سیاسی پارٹیاں ڈر و خوف پیدا کر رہی ہیں۔ جواب میں کپل سبل نے کہا کہ ’’نہیں یہ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ہے۔ یہ آپ کی ہدایات ہیں اور کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کے بارے میں نہیں۔‘‘
اس درمیان سی جے آئی نے کہا کہ تمل ناڈو سے متعلق ایس آئی آر کے معاملہ پر سماعت پیر کے روز ہوگی۔ کیرالہ ایس آئی آر کا معاملہ کچھ مختلف ہے، کیونکہ یہ بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے ایس آئی آر کو ملتوی کرنے کا ہے۔ سینئر وکیل راکیش دویدی نے کہا کہ مدراس ہائی کورٹ میں یہ عرضی پہلے ہی داخل کی جا چکی ہے۔ ریاستی الیکشن کمیشن نے کہا کہ انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن اور ریاستی الیکشن کمیشن آپس میں مل کر کام کر رہے ہیں۔ 99 فیصد ووٹرس کو فارم دستیاب کرائے جا چکے ہیں، 50 فیصد سے زائد ڈیجیٹل ہو چکے ہیں۔ سی جے آئی نے کہا کہ کیرالہ ایس آئی آر کے لیے الگ سے اسٹیٹس رپورٹ داخل کریں۔
اے ڈی آر کی جانب سے پیش وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ ایس آئی آر عمل بہت جلدبازی میں کیا جا رہا ہے۔ کئی بی ایل او خودکشی کر رہے ہیں اور ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ آسام میں فارم کی ضرورت نہیں ہے اور یہ بقیہ ہندوستان سے الگ ہے۔ براہ کرم ہماری گزارش سنیں، ہم الیکشن کمیشن کے اپنے مینوئل پر بھروسہ کر رہے ہیں۔
سی جے آئی نے ہدایت میں درج کیا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ جوابی حلف نامہ یکم دسمبر کو یا اس سے پہلے داخل کیا جائے۔ تمل ناڈو میں ایس آئی آر معاملہ میں پیش ہوئے تمام وکلاء کو اس کی سافٹ کاپی فراہم کی جائے۔ اس کا جواب 3 دسمبر یا اس سے قبل داخل کیا جائے۔ معاملہ کو 4 دسمبر کے لیے درج کیا جائے۔
دہلی میں آلودگی سے سبھی بے حال، ’ایس آئی آر‘ معاملہ میں سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل کی طبیعت بگڑی
قومی آواز بیورو
ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں اس وقت آلودگی انتہا درجہ تک پہنچ چکی ہے۔ بڑی تعداد میں بچے اور بوڑھے ہانپتے اور کھانستے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس فضائی آلودگی کی وجہ سے دہلی کے اسکول پانچویں درجہ تک ہائبرڈ موڈ میں چل رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ بچوں کی صحت کا خیال کرتے ہوئے آلودگی کم ہونے تک مکمل طور پر اسکولوں کو بند کر آن لائن پڑھائی ہونی چاہیے۔ اس درمیان سپریم کورٹ میں ’ایس آئی آر‘ معاملہ پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔ خرابیٔ طبیعت کی وجہ آلودگی ہی بتائی جا رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن کے وکیل راکیش دویدی کی عدالت عظمیٰ میں طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ انھوں نے ایس آئی آر کی سماعت چھوڑ کر جانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’’مجھے ورچوئل پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔‘‘ چیف جسٹس آف انڈیا سوریہ کانت نے بھی دہلی میں بڑھی ہوئی آلودگی پر اپنی فکر ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’دن میں آلودگی بہت ہوتی ہے، اس لیے میں شام کو ٹہلتا ہوں۔‘‘ جواب میں عدالت میں موجود ایڈووکیٹ کپل سبل نے کہا کہ ’’شام کو بھی اے کیو آئی 400 سے 450 رہتا ہے، جو خطرناک ہے۔‘‘ اس درمیان عدالت نے ہوا میں موجود زہر کو دیکھتے ہوئے اسکولوں کو بند کیے جانے پر غور کرنے کے مقصد سے وزارت تعلیم کے ڈائریکٹر کو طلب کیا ہے۔
سی جے آئی سوریہ کانت کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی صحت سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ سابق ججوں میں سے ایک کو ابھی اسٹروک ہوا ہے۔ بہرحال، خرابیٔ صحت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل راکیش دویدی کو عدالت سے جانے کی اجازت دے دی۔ سینئر ایڈووکیٹ دویدی نے بتایا کہ ’’مجھے کنجیشن (انجماد خون) کا مسئلہ ہو رہا ہے۔‘‘ بعد ازاں چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ ورچوئل پیش ہونے پر اگر میں کوئی فیصلہ لوں گا تو سب سے پہلے بار کو اعتماد میں لوں گا۔ ہم پیش آ رہے مسائل کے بارے میں بار کو مطلع کریں گے۔ اگر ہمیں کوئی تجویز ملتی ہے تو ہم کچھ کریں گے۔ سی جے آئی نے یہ بھی کہا کہ ’’میں شام کو عہدیداروں سے ملوں گا اور کچھ قدم اٹھاؤں گا۔‘‘
0 تبصرے