ہندوستان میں پناہ گزیں شیخ حسینہ کی مشکلات میں ہو سکتا ہے مزید اضافہ، یونس حکومت نے حاصل کی برطانیہ کے 2 وکلاء کی خدمات

قومی آواز بیورو

شیخ حسینہ کو ہندوستان سے لے جانے کے لیے بنگلہ دیش حکومت نے برطانیہ کے 2 مشہور وکلاء کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ حوالگی معاملے میں دونوں وکیل پوری دنیا میں کافی مشہور مانے جاتے ہیں۔ ان دونوں وکیل کے نام ٹوبی کیڈمین اور اناستاسیا میڈویوسکایا ہیں۔ یہ دونوں اتوار (23 نومبر)  کو امیرات ایئر لائنس سے ڈھاکہ پہنچے ہیں۔ واضح رہے کہ ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں رہ رہی بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ڈھاکہ میں واقع انٹرنیشنل ٹریبونل نے موت کی سزا سنائی ہے۔ عدالت سے شیخ حسینہ کو سزا ملنے کے بعد بنگلہ دیش کی عبوری حکومت شیخ حسینہ کی حوالگی سے متعلق فعال ہو گئی ہے۔

واضح رہے کہ شیخ حسینہ کو واپس بنگلہ دیش لے جانے کے لیے یونس حکومت 3 بار نئی دہلی کو خط لکھ چکی ہے، تینوں ہی بار اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ ایسے میں نئے سرے سے یونس حکومت نے حوالگی کے متعلق کام کرنے شروع کر دیے ہیں۔ وزارت خارجہ کے مشیر کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کو اگر ہمیں واپس نہیں سونپا جاتا ہے تو ہم انٹرنیشنل کورٹ جائیں گے۔ جہاں پر حوالگی کا معاملہ اٹھائیں گے۔ واضح رہے کہ 2013 میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حوالگی کے متعلق معاہدہ ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے شیخ حسینہ کو واپس لانے کے لیے برطانیہ سے 2 وکیل کو بلایا ہے۔ ان دونوں کا مقصد ہے کسی بھی قیمت پر شیخ حسینہ کو ہندوستان سے واپس لانا۔

قابل ذکر ہے کہ 16 سال سے زیادہ وقت تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہیں شیخ حسینہ کا اگست 2024 میں تختہ پلٹ ہو گیا۔ شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان نے تختہ پلٹ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تختہ پلٹ کے بعد شیخ حسینہ ہندوستان آ گئیں، جہاں انہیں پناہ ملی۔ حسینہ کے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کی تشکیل ہوئی۔ حکومت کی پہل پر شیخ حسینہ کے خلاف قتل عام کے الزام میں مقدمے درج کیے گئے۔ شیخ حسینہ پر 1400 لوگوں کے قتل کروانے کا الزام ہے۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کے ٹریبونل کورٹ نے ان کے خلاف فیصلہ سنایا ہے۔  بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ وہاں خاموشی سے نہیں بیٹھی ہوئی ہیں، بلکہ ان کی فعالیت برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں نے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔



نئے چیف جسٹس آف انڈیا سوریہ کانت نے حلف برداری کے بعد پی ایم مودی سے ملاقات کرنے پہنچے

قومی آواز بیورو

جسٹس سوریہ کانت نے 24 نومبر کو ہندوستان کے 53ویں چیف جسٹس (سی جے آئی) کا حلف لے لیا۔ راشٹرپتی بھون میں منعقد ایک تقریب کے دوران صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے انھیں عہدہ کا حلف دلایا۔ اس کے بعد انھوں نے وہاں موجود بہن اور بڑے بھائی کے پیر چھوئے۔ اس تقریب میں ان کے گھر والے خاص طور سے شامل تھے۔

حلف برداری کے بعد نئے چیف جسٹس آف انڈیا سوریہ کانت سب سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف بڑھے اور ان سے ملاقات کی۔ انھوں نے سابق سی جے آئی گوئی سے بھی ملاقات کی۔ اس تقریب میں برازیل سمیت 7 ممالک کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج بھی موجود تھے۔ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار کسی سی جے آئی کی حلف برداری میں اتنی بڑی سطح پر بین الاقوامی عدالتی نمائندوں کی موجودگی دیکھنے کو ملی۔ اس تقریب میں بھوٹان، کینیا، ملیشیا، ماریشس، نیپال اور سری لنکا کے چیف جسٹس اور ان کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔

اس دوران سابق چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی نے ایک نئی مثال قائم کی۔ حلف برداری کے بعد انھوں نے اپنی آفیشیل گاڑی راشٹرپتی بھون میں ہی اپنے جانشیں جسٹس سوریہ کانت کے لیے چھوڑ دی۔ سابق سی جے آئی گوئی کی مدت کار 23 نومبر کو ہی ختم ہو گئی تھی۔ ان کے بعد اب جسٹس سوریہ کانت یہ ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔ سی جے آئی سوریہ کانت 9 فروری 2027 کو سبکدوش ہوں گے اور ان کی مدت کار تقریباً 14 مہینے کی ہوگی۔

آج سی جے آئی سوریہ کانت نے جسٹس جوئے مالیا باغچی اور جسٹس اتل ایس چندورکر کے ساتھ عدالتی کمرہ نمبر 1 میں آفیشیل طور پر کارروائی شروع کی۔ جسٹس سوریہ کانت اب 5 ممبر والے سپریم کورٹ کالجیم کے ہیڈ بھی ہوں گے۔ 5 ممبر والا کالجیم جو سپریم کورٹ کے ججوں کو منتخب کرتا ہے اور ہائی کورٹ کے ججوں کے ٹرانسفر کا فیصلہ کرتا ہے، اس میں اب سی جے آئی سوریہ کانت اور جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس بی وی ناگرتنا، جسٹس جے کے ماہیشوری اور جسٹس ایم ایم سندریش شامل ہوں گے۔


بہت زیادہ’امیری ٹیکس‘سے پریشان 75 سالہ ہندوستانی ارب پتی چھوڑرہے برطانیہ،دبئی کو بناسکتے ہیں نیا ٹھکانہ

قومی آواز بیورو

ہندوستانی ارب پتیوں کا پوری دنیا میں بول بالا ہے،امریکہ سے لندن تک ان کے کاروبار پھیلے ہوئے ہیں۔ایسے ہی ہندوستانی نژاد اسٹیل ٹائیکون ارب پتی لکشمی نواس متل ہیں جو اب تک برطانیہ میں رہ کر کاروبار کررہے تھے اور وہاں کے سب سے امیروں کی لسٹ میں شامل تھے۔ انہوں نے اب برطانیہ(یوکے) چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے پیچھے کی بڑی وجہ ملک میں ’سپررچ ٹیکس‘ کو بتایا جارہاہے۔

نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اتوار کے روز ’دی سنڈے ٹائمس‘ کے حوالے سے یہ معلومات شیئر کی گئی تھی۔اس میں بتایا گیا ہے کہ راجستھان میں پیدا ہونے والے لکشمی نیواس متل اب برطانیہ چھوڑنے کی تیاری کررہے ہیں۔ برٹش لیبر پارٹی کی قیادت والی حکومت کی جانب سے ملک میں امیر لوگوں کے لیے جس ٹیکس میں تبدیلی کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا وہ قریب آرہا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسٹیل ٹائیکون لکشمی نیواس متل کا ٹھکانہ اب دبئی ہوسکتا ہے۔

2025 کی ’سنڈے ٹائمس رچ لسٹ‘ پر نظر ڈالیں تو آرسیلرمتل اسٹیل ورکس کے بانی لکشمی نیواس متل کے پاس تقریًا 15.4 ارب پاؤنڈ (قریب 1.90 لاکھ کروڑ روپئے) کا اثاثہ ہے اور خالص مالیت کا یہ اندازہ انہیں برطانیہ کا آٹھواں سب سے امیر انسان بناتا ہے۔ رپورٹ میں 75 سال کے ارب پتی صنعتکار کے قریبی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ بدھ کے روز چانسلر ریچر ریوس کے بجٹ سے پہلے برطانیہ چھوڑنے والے نئے ارب پتی بن گئے ہیں۔


شیخ حسینہ کی حوالگی  سے متعلق بنگلہ دیش نے پھربھیجی درخواست،ہندوستان کے ردعمل پر نظریں مرکوز

قومی آواز بیورو

بنگلہ دیش میں محمد یونس کی قیادت والی عبوری حکومت نے ایک بار پھر باضابطہ طور پر ہندوستان کو خط بھیجا ہے جس میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو ڈھاکہ کے حوالے کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ دہلی میں بنگلہ دیشی ہائی کمیشن نے یہ سفارتی نوٹ ہندوستانی وزارت خارجہ کو بھیجا ہے۔

یہ درخواست ڈھاکہ کی ایک خصوصی عدالت کی جانب سے 17 نومبر 2025 کو شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا مجرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائے جانے کے بعد سامنے آئی ہے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد یہ پہلی سرکاری درخواست ہے جس میں جس میں بنگلہ دیش نے ہندوستان سے سابق وزیراعظم کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اگست 2024 میں بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر تشدد، سیاسی بحران اور مظاہروں کی وجہ سے حسینہ کی حکومت حکومت گر گئی تھی۔ جس کے بعد وہ ڈھاکہ چھوڑ کر ہندوستان آگئیں اور تب سے وہ یہیں مقیم ہیں۔ بنگلہ دیش اب یہ دلیل دے رہا ہے کہ اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی انہیں واپس نہ بھیجنا عدالتی عمل میں رخنہ اندازی ہے۔ حسینہ تقریباً 15 ماہ سے ہندوستان میں رہ رہی ہیں۔

بنگلہ دیشی حکومت نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حوالگی کا معاہدہ نافذ ہے۔ اسی بنیاد پر ہندوستان کو شیخ حسینہ کو حوالے کردینا چاہئے۔ ڈھاکہ کا موقف ہے کہ سنگین الزامات میں سزا یافتہ لوگوں کو دوسرے ملک میں پناہ دینا عدالتی نظام کے خلاف ہے۔ بنگلہ دیش نے اس سے پہلے بھی ہندوستان کو اسی معاملے پر خط بھیجا تھا لیکن اس وقت ہندوستان کی جانب سے کوئی سرکاری جواب نہیں ملا۔

حکومت ہند نے اس بار بھی کوئی تبصرہ نہیں کیاہے۔ گزشتہ سال جب حسینہ ہندوستان آئی تھیں تب بھی ہندوستان نے ڈھاکہ کی درخواست کا باضابطہ جواب نہیں دیا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ معاملہ نہ صرف قانونی ہے، بلکہ سیاسی اور اسٹریٹجک بھی ہے کیونکہ اس سے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات پر خاصا اثر پڑ سکتا ہے۔

واضح رہے کہ ڈھاکہ کی عدالت نے 17  نومبر کے اپنے فیصلے میں شیخ حسینہ اور ان کے سابق وزیرداخلہ ، ڈھاکہ کی خصوصی عدالت نے شیخ حسینہ اور ان کے سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کو کئی سنگین الزامات میں مجرم قرار دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہا کہ اپوزیشن رہنماؤں کی غیر قانونی گرفتاری، انہیں دی گئی اذیت اور انسانیت کے خلاف جرائم میں دونوں رہنماؤں کا براہ راست کردار پاریا گیاہے۔ حسینہ اور ان کی پارٹی نے مسلسل ان الزامات کو سیاست سے متاثر بتاتے رہے ہیں۔

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ہندوستان اس معاملے پر تبھی کوئی فیصلہ لے گا جب اسے بھروسہ ہو کہ بنگلہ دیش میں ان کے مقدمے کی سماعت منصفانہ طور پر ہوئی ہے۔ اگر معاملے میں سیاسی انتقام یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے خدشات سامنے آتے ہیں تو ہندوستان حوالگی پر رضامندی نہیں دے گا اس لیے یہ معاملہ سفارتی اور قانونی دونوں محاذوں پر حساس حالت میں ہے



ایران کا رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای کو نشانہ بنانے کی کوششوں کے خلاف انتباہ

قومی آواز بیورو

ایران کی وزارت برائے انٹیلی جنس نے امریکہ اور اسرائیل سمیت غیر ملکی مخالفین کی ان کوششوں سے خبردار کیا ہے کہ رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای کو نشانہ بنایا اور اسلامی جمہوریہ کو غیر مستحکم کیا جائے۔ملک کی اِسنا نیوز ایجنسی نے ہفتے کے روز اطلاع دی کہ انٹیلی جنس کے وزیر اسماعیل خطیب نے خبردار کیا کہ "دشمن رہبرِ اعلیٰ کو نشانہ بنانے کی کوشش میں ہے، کبھی قاتلانہ حملے اور کبھی دشمنانہ حملوں کے ذریعے۔"

اگرچہ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ آیا وزیر کسی خاص واقعے کا حوالہ دے رہے تھے اور ایرانی حکام اکثر غیر ملکی سازشوں کا الزام لگاتے ہیں لیکن جون میں اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ سے قبل خامنہ ای کی جان کو لاحق خطرات کے بارے میں بیانات بہت کم تھے۔خطیب نے اسرائیل اور امریکہ کی طرف براہِ راست اشارہ دیتے ہوئے مزید کہا، "اس سمت میں عمل کرنے والے لوگ دانستہ یا نادانستہ دشمن کے دراندازی کرنے والے ایجنٹ ہیں۔"

جنگ کے دوران اسرائیل نے ایران کے اعلیٰ فوجی حکام، جوہری سائنسدانوں اور مقامات کے ساتھ ساتھ رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا جس کے بعد اہم جوہری تنصیبات پر حملوں میں امریکہ نے بھی شمولیت اختیار کر لی۔ جنگ کے دوران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے رہبرِ اعلیٰ کو قتل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو اس خدشے کے پیشِ نظر ویٹو کر دیا تھا کہ اس سے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی، ان خبروں کے بارے میں سوال پر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے انہیں مسترد کر دیا لیکن کہا کہ اس اقدام سے "تنازعہ ختم ہو جائے گا۔"

اس وقت ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ ایک "نہایت آسان ہدف" تھے اور یہ کہ "ہم انہیں قتل نہیں کر رہے، کم از کم فی الحال نہیں۔"بعد ازاں انہوں نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ انہوں نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ کو "انتہائی بدصورت اور ذلت آمیز موت" سے بچایا تھا۔

چھیاسی سالہ خامنہ ای 1989 سے ایران کے رہبرِ اعلیٰ ہیں اور تمام ریاستی امور پر ان کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے کہا تھا کہ وہ جنگ کے دوران خامنہ ای کی زندگی کے لیے خاص طور پر فکر مند تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ ملک کے ادارے "آپس میں لڑنا شروع کر دیں گے۔"

جولائی میں خامنہ ای نے کہا کہ جنگ کے دوران اسرائیل کے حملوں کا مقصد اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنا، "بدامنی کا بیج بونا اور ملکی نظام کا تختہ الٹنے کے لیے لوگوں کو سڑکوں پر لانا" تھا۔ایران اور اسرائیل کے درمیان 24 جون سے جنگ بندی برقرار ہے لیکن اسرائیل اور امریکہ دونوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر تہران نے اپنا جوہری پروگرام بحال کیا تو وہ نئے حملے کر سکتے ہیں۔ (بشکریہ نیوز پورٹل ’العربیہ ڈاٹ نیٹ، اردو‘)


جنوبی افریقہ میں جی20  کا سربراہی اجلاس کسی باضابطہ حوالگی کی رسم کے بغیر ختم ہو گیا!

قومی آواز بیورو

جنوبی افریقہ میں جاری G-20 سربراہی اجلاس باضابطہ حوالگی کے عمل کو مکمل کیے بغیر ہی ختم ہو گیا۔ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے گویل کو کسی کے حوالے نہیں کیا۔گویل ایک ہتھوڑا ہے جسے سربراہی اجلاس کے اگلے میزبان ملک کے حوالے کیا جاتا ہے۔کیونکہ اگلا میزبان امریکہ ہے اس لئے اس بار اسے امریکہ کے حوالے کیا جانا تھا لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کے سربراہی اجلاس  میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے گویل کو کسی امریکی اہلکار کے حوالے نہیں کیا گیا۔ جنوبی افریقی وزیر خارجہ نے کہا، "آج کوئی رسمی حوالگی کی تقریب نہیں ہوگی۔ اگر امریکہ چاہے تو وہ پیر کو ہماری وزارت خارجہ سے جی 20 دستاویزات لے سکتا ہے۔"

اس دوران وائٹ ہاؤس نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ڈپٹی سکریٹری نے کہا، "جنوبی افریقہ نے G-20 دستاویزات کو باضابطہ طور پر حوالے نہ کرکے غلطی کی ہے۔" درحقیقت، میزبان ملک اگلے سربراہی اجلاس کے میزبان ملک کو گویل حوالے کرتا ہے۔ یہ ایک لائیو تقریب ہے، جہاں دونوں ممالک کے رہنما آمنے سامنے ملاقات کرتے ہیں۔ اس بار اسے امریکی صدر ٹرمپ کے حوالے کیا جانا تھا لیکن انہوں نے اس سمٹ میں شرکت نہیں کی ۔

ٹرمپ نے اس حقیقت کا حوالہ دیا کہ افریقہ میں سفید فام عیسائیوں کو مارا جا رہا ہے اور ان کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں۔خبر ہے کہ  امریکہ نے ایک اہلکار کو گویل لینے کے لیے بھیجا تھا، لیکن افریقی صدر نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ گویل  کو کسی جونیئر اہلکار کے حوالے کرنے کے بجائے خالی کرسی کے حوالے کریں گے۔ افریقی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا امریکا کے ساتھ کوئی سفارتی تنازع نہیں ہے تاہم گویل ایک ایسا اعزاز ہے جو کسی جونیئر اہلکار کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔