بہار انتخابات کے غیر فطری نتائج؛ ووٹر فہرست، نقد اسکیموں اور کارپوریٹ اثرات کے خطرناک مضمرات

قومی آواز بیورو

بہار کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ملک کی سیاسی فضا میں ایک غیر معمولی بحث کو جنم دیا ہے۔ عام توقعات اور تقریباً تمام ایگزٹ پولز کے اندازوں کے برعکس سامنے آنے والے اس نتیجے نے سیاسی تجزیہ کاروں، حقوقِ رائے دہی کے ماہرین اور جمہوری عمل پر نظر رکھنے والوں کو حیرت اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ نتیجہ انتخابی عمل کے بنیادی ڈھانچے میں ایسی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے جن کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔

یہ صورتحال ایک حد تک 2010 کے یادگار انتخابی نتائج کی یاد دلاتی ہے جب اُس وقت کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کے اتحاد نے اسمبلی میں 206 نشستیں حاصل کر لی تھیں اور آر جے ڈی محض 22 نشستوں تک محدود ہو گئی تھی۔ مگر وہ ایک بالکل مختلف سیاسی ماحول کا دور تھا—اس وقت نہ مودی عہد کا عروج تھا اور نہ مرکز اور ریاست میں اس قدر یک طرفہ طاقت کا توازن۔ دوسری طرف 2020 کے انتخابات میں حکومت معمولی فرق سے بچی تھی اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اپنا عددی اکثریتی مقام کھونا پڑا تھا۔ ایسے حالات میں 2025 کے بہار انتخابات کا نتیجہ فطری سیاسی رخ کے خلاف جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جو غیر معمولی عوامل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

انتخابی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے دو بڑے حکومتی اقدامات خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔ پہلا، ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی یعنی ایس آئی آر مہم۔ اس کے نتیجے میں تقریباً 69 لاکھ نام حذف کیے گئے جبکہ 25 لاکھ سے زائد نئے نام شامل کیے گئے۔ حیران کن طور پر ایس آئی آر کے مکمل ہونے اور انتخابی اعلان کے بعد بھی تین لاکھ سے زیادہ ووٹروں کا اضافہ ہوا، جس نے انتخابی توازن کو مزید بدل ڈالا۔ بیشتر حلقوں میں ہونے والی یہ تبدیلیاں 2020 میں اپوزیشن کی برتری سے کہیں زیادہ تھیں اور ان کا اثر محدود حلقوں تک نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر محسوس کیا گیا۔

ووٹر فہرست میں تبدیلیوں نے صرف رائے دہی پر اثر نہیں ڈالا بلکہ شہری حقوق، فوائد اور شناخت کے حوالے سے خوف اور بے یقینی کو بھی بڑھایا۔ اس بار بہار نے اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ ووٹنگ فیصد ریکارڈ کیا، جس میں باہر رہنے والے مخصوص حمایتی ووٹروں کی منظم منتقلی اور خصوصی ٹرینوں کی فراہمی جیسے اقدامات نے اہم کردار ادا کیا۔ انتظامیہ کی جانب سے کھلے جانبدارانہ رویے اور منظم انداز میں ہونے والی حکومت نواز ووٹنگ کی اجازت نے انتخابی شفافیت پر مزید سوالات اٹھا دیے۔

دوسرا اہم پہلو انتخابی مہم کے دوران اور اس سے پہلے بڑی سطح پر نقد اسکیموں اور براہِ راست مالی مراعات کا اعلان اور تقسیم ہے۔ بڑھتے عوامی غصے کو کم کرنے کے لیے تین بڑے اقدامات سامنے لائے گئے: بزرگ اور معذوری پنشن کو 400 سے بڑھا کر 1100 روپے ماہانہ کرنا، 125 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کرنا اور سب سے نمایاں 1.5 کروڑ خواتین کو 10 ہزار روپے کی یک مشت ادائیگی۔ یہ اقدام صرف انتخابی فائدے کے لیے تھا یا سماجی بہبود کے لیے یہ سوال اب بھی معلق ہے، مگر اس کے سیاسی اثرات نمایاں ہیں۔

نام نہاد ’مکھیہ منتری مہیلا روزگار اسکیم‘ کا آغاز بھی انتخابی شیڈول سے کچھ روز قبل ہوا اور اس کے تحت رقوم کی تقسیم انتخابی مدت کے دوران بھی جاری رہی۔ مرکزی وزیر داخلہ نے اسے قرض کے طور پر دی گئی رقم قرار دیا مگر خواتین میں بڑھتے مائیکرو فنانس جبر کے سبب نتیش کمار نے وضاحت کی کہ یہ قرض نہیں بلکہ بلاواپسی رقم ہے۔ اس کے ساتھ ہی 1,80,000 ’جیویکا رضاکاروں‘ کو انتخابی عملے میں شامل کرنے کا انکشاف مزید سوالات پیدا کرتا ہے۔

اسی تناظر میں ایک اور معاملہ ’پیر پینتی اڈانی بجلی معاہدہ‘ میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہا۔ اس معاہدے کے تحت محض ایک روپیہ سالانہ لیز پر 1050 ایکڑ زمین اور مہنگے نرخوں پر بجلی خرید کی ضمانت دی گئی۔ سابق مرکزی وزیر توانائی آر کے سنگھ نے اسے 620 ارب روپے کا گھوٹالہ قرار دے کر سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کیا، جس کے فوراً بعد وہ پارٹی سے نکال دیے گئے۔ اس واقعے نے کارپوریٹ مفادات، انتخابی سرمایہ کاری اور سیاسی مراعات کے باہمی رشتے پر سنگین سوالات کھڑے کیے۔

اسی پس منظر میں کارپوریٹ سرپرستی میں چلنے والی انتخابی مہم اور تشہیر کے ماڈل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔


امریکہ، روس اور چین کی غیر موجودگی میں اس بار سربراہی اجلاس کا مرکز ہندوستان رہا

قومی آواز بیورو

جنوبی افریقہ میں جاری G-20 سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے مختلف ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ جوہانسبرگ میں جی ۔20 سربراہی اجلاس میں جنوبی افریقہ کے صدر رامافوسا نے ہاتھ جوڑ کر ان کا استقبال کیا۔ اس کے بعد اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ہاتھ جوڑ کر اور نمستے کے ساتھ  وزیر اعظم مودی کا استقبال کیا۔

میلونی کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی ممالک کے سیاست دانوں سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا سے ملاقات کی۔ سلوا نے  وزیر اعظم مودی کی پیٹھ پر تھپکی دے کر گرمجوشی سے گلے لگایا۔ وزیر اعظم  مودی نے بھی یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان کو گلے لگا کر خوش آمدید کہا۔ وزیر اعظم مودی نے جی 20 سربراہی اجلاس سے خطاب کیا۔

اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ملاقات کے دوران ہندوستان اور اٹلی کے درمیان دو طرفہ تعلقات پر زور دیا۔ سلامتی، تجارت، ٹیکنالوجی اور توانائی سے متعلق امور پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ یوکرین کے بحران، موسمیاتی تبدیلی اور عالمی تجارت پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس سے پہلے، وزیر اعظم  مودی نے جون 2025 میں کینیڈا کے کناناسکس میں 51 ویں G7 سربراہی اجلاس کے دوران اٹلی کے وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی۔ وہیں، دونوں رہنماؤں نے ہندوستان اور اٹلی کے درمیان تعاون اور تعلقات کو مضبوط بنانے کا عہد کیا۔ ستمبر میں، وزیر اعظم  مودی نے اٹلی کے وزیر اعظم کو ایک غیر معمولی سیاست دان قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ، روسی صدر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ  G-20 سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم  مودی کئی عالمی رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں ۔یہ G-20 سربراہی اجلاس  ہندوستان کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہ 2023 میں ہندوستان کی صدارت میں تھا کہ افریقہ کو G-20 کے ایک حصے کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب افریقہ میں G-20 سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ امریکہ، روس اور چین کی غیر موجودگی میں، ہندوستان اس سربراہی اجلاس میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا  ہے۔




’یوکرین پوری طاقت کے ساتھ جنگ جاری رکھ سکتا ہے‘، امریکی امن منصوبے کے درمیان ٹرمپ کا حیران کن بیان

قومی آواز بیورو

ایسے وقت میں جب امریکی صدر سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں عالمی امن کی باتیں کر رہی ہیں، ڈونالڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صاف کہا کہ امریکہ کی جانب سے کیف کو بھیجی گئی امن تجویز حتمی پیشکش نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یوکرین چاہے تو پوری طاقت کے ساتھ لڑائی جاری رکھ سکتا ہے۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکہ ہر حال میں اس تنازع کو ختم کر وائے گا اور توقع ہے کہ یوکرین 27 نومبر تک جواب دے گا۔ اسی بات چیت میں ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ 2022 میں صدر ہوتے تو روس یوکرین جنگ کبھی شروع ہی نہیں ہوتی۔

اس سلسلے میں امریکی سیاست میں اس وقت بڑی ہلچل ہوئی جب ریپبلکن سینیٹر مائیک راؤنڈز نے بتایا کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سینیٹرز کو آگاہ کیا کہ امریکہ کی طرف سے تیار کردہ 28 نکاتی امن منصوبہ درحقیقت روس سے موصول ہونے والے مواد پر مبنی ہے۔ حالانکہ امریکی محکمہ خارجہ نے اس دعوے پر عوامی سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ دریں اثنا امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یوکرین کے نمائندے جنیوا میں اس مسودے پر نظرثانی اوربات چیت کرنے والے ہیں۔

ادھر یوکرین کے صدر ولادیمیرزیلنسکی نے امریکی تجویز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کییف اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے آنے والا مسودہ روس کے مفادات کے قریب نظر آتا ہے اور یوکرین پر اسے قبول کرنے کے لیے دباؤبڑھتا جا رہا ہے۔ زیلنسکی نے کہا کہ ملک کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملک اپنے وقار کو بچائے یا ایک بڑے اتحادی کو کھونے کا خطرہ مول لے۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور بات چیت کی مکمل ذمہ داری اپنے چیف آف سٹاف اینڈری یرماک کو سونپی ہے۔

جی 20 میں شامل یورپی ممالک نے امریکی منصوبے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ مسودہ باہمی بات چیت کی بنیاد کے طور پر کام کر سکتا ہے، لیکن کئی اہم نکات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کسی بھی ملک کی سرحدیں زبردستی تبدیل نہیں کی جانی چاہئیں اور اگر یوکرین اپنی موجودہ پوزیشن کو ترک کرتا ہے تووہ مستقبل کے لئے غیرمحفوظ ہوجائے گا۔

افشا ہونے والے امریکی مسودے میں مبینہ طور پر مشرقی ڈونیٹسک کے کچھ حصوں سے یوکرین کا انخلا، روس کے زیر کنٹرول علاقوں کو تسلیم کرنے اور کھیرسان اور زپوری زہیا میں جنگی خطوط کو مستحکم کرنے جیسی تجاویز شامل ہیں۔ اس کے ساتھ یوکرین کی فوج کے حجم کو محدود کرنے اور پڑوسی ملک پولینڈ میں یورپی لڑاکا طیاروں کی تعیناتی کی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ مزید برآں مسودے میں روس پر اقتصادی پابندیوں کو بتدریج کم کرنے اور مستقبل میں جی7 میں اس کی واپسی کا راستہ کھولنے کی تجویز بھی شامل ہے۔



امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا دعویٰ، ٹیرف کی دھمکی سے 8 میں سے 5 جنگیں رکیں!

قومی آواز بیورو

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جنہوں نے اس سال دنیا بھر میں ہلچل مچانے والے ٹیرف عائد کیے ہیں، اپنے اقدامات کا مسلسل دفاع کر رہے ہیں۔ شدید تنقید کے درمیان وہ بارہا دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ ان کی ٹیرف پالیسی نہ صرف امریکی معیشت کو مضبوط کر رہی ہے بلکہ بین الاقوامی تنازعات کو روکنے میں بھی معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اب ٹرمپ نے ایک اور سنسنی خیز دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اب تک 8 جنگوں کو روکا ہے جن میں سے 5 کو ٹیرف کے ڈر سے روکا گیا۔

ٹرمپ نے کہا کہ ٹیرف کی وجہ سے نہ صرف امریکی خزانے میں اربوں ڈالر آئے ہیں بلکہ یہ بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک موثر ہتھیار بھی بن چکا ہے۔ اتوار کو اپنے سوشل میڈیا ’ٹروتھ سوشل‘ پر پوسٹ کرتے ہوئے امریکی صدر نے لکھا کہ ٹیرف کی دھمکیوں سے بڑی مقدار میں غیر ملکی پیسہ اور سرمایہ کاری ملک میں واپس آئی ہے۔ ان کے مطابق انہی انتباہات سے دنیا کی 8 ممکنہ جنگوں میں سے 5 کو روکا جاسکا ہے۔ ٹرمپ اکثر یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے عالمی سطح پر کئی تنازعات کو ختم کرایا ہے، جس میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوئی جنگ بندی بھی شامل ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اس وقت 350 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی دے کر کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ٹیرف امریکی معیشت اور قومی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔ ان کے مطابق امریکی اسٹاک مارکیٹ صرف گزشتہ 9 مہینوں میں 9 بار بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حالانکہ ان کی ٹیرف پالیسی کو دنیا بھر میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے عالمی تجارت میں عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی طرف سے ہندوستان پر بھی 50 فیصد تک کے اونچے ٹیرف لگائے گئے ہیں جن میں سے 25 فیصد ٹیرف روس سے ہندوستان کی خام تیل کی خریداری کو وجہ بتاتے ہوئے لگایا گیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے عائد کیے گئے اونچے ٹیرف نے براہ راست ہندوستان کے زیورات، جھینگا برآمدات اور کئی دیگر اشیاء کو متاثر کیا ہے۔ تاہم حکومت ہند نے متاثرہ علاقوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے مختلف امدادی پیکجوں کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان نے چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے اور درآمدات اور برآمدات کے لیے امریکہ کا متبادل تلاش کرنے کی سمت میں بھی کام تیز کر دیا ہے۔



چیف جسٹس بی آر گوئی کی مدتِ کار مکمل، بولے ’ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سرکاری عہدہ قبول نہیں کروں گا‘

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: ہندوستان کے 52ویں چیف جسٹس (سی جے آئی) بی آر گوئی نے اپنا مقررہ دورانیہ مکمل کر لیا ہے اور اتوار کو وہ باقاعدہ طور پر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ سبکدوشی سے عین قبل منعقد ہونے والی الوداعی تقریب میں انہوں نے مختلف اہم سوالات، عدلیہ کے بارے میں پھیلی غلط فہمیوں اور مستقبل کے منصوبوں پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کسی بھی طرح کے سرکاری عہدے کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کے مطابق انصاف کی ذمہ داری نبھانے کے بعد سرکاری منصب لینا مناسب روایت نہیں ہے اور وہ اس اصول پر قائم رہیں گے۔

اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بی آر گوئی نے بتایا کہ وہ پہلے دس دن آرام کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کے بعد اپنی آئندہ سمت کا تعین کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سماجی خدمت ان کے خون میں شامل ہے اور وہ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں فلاحی سرگرمیوں کے لیے وقت نکالنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق پسماندہ خطوں میں بنیادی سہولتوں، تعلیم اور انصاف تک رسائی جیسے شعبوں میں بہت کام کیے جانے کی ضرورت ہے اور وہ اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

آزادیٔ عدلیہ کے حساس موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ اگر کوئی جج حکومت کے حق میں فیصلہ دے تو اسے غیر آزاد قرار دے دیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدالتی فیصلے قانون اور دستور کی بنیاد پر لیے جاتے ہیں اور کسی بھی فیصلے کو سیاسی زاویے سے جانچنا مناسب نہیں۔ ان کے مطابق عدلیہ کی آزادی ایک بنیادی قدر ہے اور وہ اس کے تحفظ کے لیے ہمیشہ پرعزم رہے ہیں۔

چیف جسٹس بی آر گوئی نے ایس سی اور ایس ٹی ریزرویشن میں کریمی لیئر نافذ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ حقیقی مستحقین تک خصوصی رعایت پہنچ سکے اور وہ طبقات جو اب بھی سماجی اور معاشی طور پر شدید پسماندگی کا شکار ہیں، انہیں سب سے زیادہ فائدہ ملے۔ ان کے مطابق اس بحث کو جذبات کے بجائے حقائق اور اعداد کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔

سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ آج ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے، کیونکہ اکثر ایسی باتیں بھی ان کے نام سے منسوب کر دی جاتی ہیں جو انہوں نے کہی ہی نہیں ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ صرف عدلیہ تک محدود نہیں بلکہ حکومت، آئینی اداروں اور عوامی شخصیات سب اس سے متاثر ہو رہی ہیں۔


’بی جے پی حکومت نے اقلیتی نشستوں کی حد بندی من مانی طور پر کی‘، اشوک گہلوت کا ردعمل

قومی آواز بیورو

راجستھان کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت ان دنوں اپنے آبائی ضلع جودھ پور کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ اتوار کو جودھ پور سرکٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات چیت کے دوران گہلوت نے کئی سیاسی مسائل پر کھل کر بیان دیا۔ میونسپل کارپوریشن اور بلدیاتی انتخاب کے متعلق کی گئی حد بندی پر بی جے پی حکومت پر جم کر حملہ بولا ہے۔ انہوں نے حد بندی کو مکمل طور پر من مانی اور متعصبانہ کارروائی قرار دیا۔ حد بندی کے ذریعہ اقلیتوں کے ساتھ حکومت کا رویہ متعصبانہ ہے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں راجستھان کانگریس نے ضلعی صدور کا اعلان کیا ہے۔ اشوک گہلوت نے تمام نو منتخب صدور کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ تنظیم کو مضبوط کرنے کے لیے متحد رہنا ہی جیت کا راستہ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کانگریس کارکنان اگر متحد ہو کر کام کریں، تو آنے والے وقت میں شاندار نتائج سامنے آئیں گے۔ اس دوران اشوگ گہلوت نے بھجن لال شرما کی حکومت پر سخت حملہ بولا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بار ریاست میں ہوئی حد بندی مکمل طور پر من مانی اور جانبدارانہ ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ نے ریاستی حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس بار جو حد بندی کی گئی ہے، اس میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اقلیتوں کے نشستوں کو کس طرح سے متاثر کیا جائے۔ یہ حد بندی ان کی دادا گیری کی ایک مثال ہے، حکومت نے اپنی مرضی سے مکمل حد بندی کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں اس طرح کا کھیل عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کانگریس اس مسئلہ پر عوام کے درمیان جائے گی اور حکومت کی غلط پالیسیوں کو بے نقاب کرے گی۔

واضح رہے کہ اپنے آبائی ضلع میں قیام کے دوران اشوک گہلوت کئی پروگراموں میں شامل ہوں گے۔ ساتھ ہی جودھ پور ضلع کے کانگریس کارکنان سے ملاقات کر مستقبل کی حکمت عملی پر تبادلۂ خیال کریں گے۔ قابل ذکر ہے کہ انتا ضمنی اسمبلی انتخاب میں شاندار جیت کے بعد کانگریس لیڈران اور کارکنان کافی پرجوش نظر آ رہے ہیں۔