کیرالہ اور یوپی میں ایس آئی آر پر سپریم کورٹ کا نوٹس، اگلی سماعت 26 نومبر کو مقرر

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: کیرالہ اور اتر پردیش میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی یعنی اسپیشل انٹینسِو ریویژن (ایس آئی آر) کے خلاف بڑھتے اعتراضات کے درمیان سپریم کورٹ نے جمعہ کو ایک اہم سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالت نے کمیشن سے تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کی اگلی سماعت 26 نومبر کو ہوگی۔

درخواست گزاروں نے الزام لگایا ہے کہ ایس آئی آر ایک ایسا مبینہ طور پر خفیہ عمل ہے جس کے ذریعے ووٹروں کی شناخت اور تصدیق غیر شفاف طریقے سے کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق اس عمل میں قانونی خامیاں بھی ہیں اور اس کے انتخابی عمل پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی پس منظر میں مختلف فریقین نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔

کیرالہ حکومت، انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) اور دیگر جماعتوں نے اپنی عرضداشت میں کہا کہ ریاست میں لوکل باڈی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان 9 اور 11 دسمبر کے لیے پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اس دوران ایس آئی آر کی کارروائی جاری رکھنا انتظامی طور پر ناممکن اور انتخابی شفافیت کے خلاف ہوگا۔ درخواست گزاروں نے بتایا کہ ریاست کے تمام سرکاری اسکولوں کے اساتذہ انتخابی ڈیوٹی میں مصروف ہیں، ایسے میں ان سے ووٹر لسٹ کی تصدیق کا کام لینا کسی بھی طور ممکن نہیں۔

کیرالہ حکومت نے اپنی پٹیشن میں یہ بھی واضح کیا کہ مقامی انتخابات کے انعقاد کے لیے 1 لاکھ 76 ہزار سے زائد سرکاری و نیم سرکاری ملازمین اور 68 ہزار سکیورٹی اہلکار درکار ہیں، جب کہ ایس آئی آر کے لیے مزید 25,668 افسران کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہی تربیت یافتہ عملہ ہے جو انتخابات کے لیے ضروری ہے۔

حکومت کے مطابق کیرالہ پنچایت راج ایکٹ، 1994 اور کیرالہ میونسپلٹی ایکٹ، 1994 ریاست کو پابند کرتے ہیں کہ ایل ایس جی آئی انتخابات 21 دسمبر سے پہلے مکمل کیے جائیں۔ اس لیے ایس آئی آر کا جاری رہنا پورے انتخابی نظام پر دباؤ بڑھا دے گا۔

اتر پردیش میں جاری اسی عمل کو کانگریس کے بارابنکی سے رکن پارلیمان تنوج پونیا نے چیلنج کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایس آئی آر نہ صرف ووٹر لسٹ کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ اس سے انتخابی غیر جانبداری پر بھی سوال کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے دلیل دی کہ ووٹروں کی خفیہ طور پر شناخت اور تصدیق کا عمل ایک جمہوری عمل کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے۔

سپریم کورٹ نے تنوج پونیا کی درخواست پر بھی الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب مانگا ہے۔ عدالت نے اشارہ دیا کہ یہ معاملہ دو بڑی ریاستوں سے جڑا ہے، لہٰذا ایک جامع اور باقاعدہ مؤقف پیش کیا جانا ضروری ہے۔ عدالت نے تمام متعلقہ فریقین کو 26 نومبر کی اگلی سماعت تک اپنی جوابدہیاں مکمل کرنے کی ہدایت دی ہے۔

یہ سماعت اس لیے بھی اہم ہے کہ ووٹر لسٹ میں شفافیت، انتخابی تیاریوں کی رفتار اور ووٹروں کے حقوق سے متعلق کئی بڑے سوالات جڑے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات آئندہ دنوں میں ایس آئی آر کے مستقبل کا رخ متعین کریں گی۔


نیپال میں ’جین زی’ پھر سراپا احتجاج، سیمارا علاقہ میں کشیدگی کے بعد کرفیو نافذ

قومی آواز بیورو

کھٹمنڈو: نیپال کے سیمارا شہر میں جینریشن زیڈ (جین زی) کے پُرامن احتجاج کے دوران اچانک بھڑکے تشدد نے حالات کو شدید کشیدہ بنا دیا، جس کے بعد مقامی انتظامیہ نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا۔ نیپالی میڈیا کے مطابق جینریشن زیڈ کے نوجوان رات تقریباً دس بجے احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے، لیکن کچھ ہی دیر بعد سی پی این۔یو ایم ایل کے کارکنوں کے ساتھ ان کی تلخ کلامی جھڑپ میں بدل گئی اور ماحول پرتشدد ہو گیا۔

اطلاعات کے مطابق سی پی این۔یو ایم ایل سے وابستہ یوتھ ایسوسی ایشن نے بارا کے پروا نی پور میں ایک اویئرنیس پروگرام رکھا تھا، جس میں پارٹی کے مرکزی رہنما شنکر پوکھرل اور مہیش بسنیّت سمیت دیگر لیڈران کی آمد متوقع تھی۔ اسی دوران جینریشن زیڈ کے نوجوان پُرامن احتجاج کے لیے جمع ہوئے، مگر دونوں گروپوں کے آمنے سامنے آتے ہی صورتحال اچانک بگڑ گئی۔

جِتپو سیمارا سب میٹروپولیٹن سٹی کے میئر راجن پوڈیل نے نیپالی میڈیا کو بتایا کہ جینریشن زیڈ کے نمائندے سمراٹ اُپادھیائے اور ان کے ساتھی احتجاج کی قیادت کر رہے تھے۔ میئر کے مطابق "نوجوان پُرامن طور پر جمع ہوئے تھے لیکن تشدد بھڑک گیا، جس کے نتیجے میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔" انہوں نے مزید کہا کہ پولیس موقع پر موجود تھی مگر جھڑپ کو فوری طور پر روکنے میں ناکام رہی۔

تشدد کے بعد مقامی لوگوں میں بے چینی بڑھ گئی اور بڑتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر انتظامیہ نے کرفیو کا اعلان کر دیا۔ بارا کے ضلعی انتظامی دفتر نے نوٹس جاری کرتے ہوئے بتایا کہ کرفیو کے دوران بھی ضروری خدمات جیسے ایمبولینس، فائر بریگیڈ، صحت اہلکاروں کی گاڑیاں، میڈیا، سیاحوں کی گاڑیاں، انسانی حقوق اور سفارتی مشنز کی گاڑیاں آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں گی۔ اسی طرح ہائی وے ٹکٹ رکھنے والے مسافروں کو بھی سفر کی اجازت ہوگی۔

تشدد کے بعد کشیدہ ماحول کے پیش نظر سی پی این۔یو ایم ایل کے رہنما شنکر پوکھرل، مہیش بسنیّت اور دیگر لیڈران، جو سیمارا آنے والے تھے، ٹرِبھون انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ہی واپس لوٹ گئے اور اپنے پروگرام ملتوی کر دیے۔ پارٹی نے صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب سی پی این۔ایم سی کی جِتپورسیمارا سب میٹرو کمیٹی نے کہا کہ احتجاج کے دوران ہونے والا تشدد افسوسناک ہے۔ کمیٹی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کی پارٹی کے کارکن کسی بھی طرح جھڑپ کا حصہ تھے۔ بیان میں کہا گیا کہ "تشدد کے وقت پولیس موجود تھی، مگر حالات قابو سے باہر ہو گئے۔"

سیمارا میں اب بھی فضا کشیدہ ہے اور سیکیورٹی فورسز صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ نوجوان رہنما سمراٹ اُپادھیائے اور دیگر نے واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ مقامی شہری امن و امان کی فوری بحالی چاہتے ہیں۔



ایران کی تیل تجارت پر امریکی کریک ڈاؤن، ہندوستانی کمپنی بھی پابندیوں کی زد میں

قومی آواز بیورو

واشنگٹن: امریکہ نے ایران کے تیل تجارت کے نیٹ ورک پر سخت کارروائی کرتے ہوئے نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن کی زد میں اس بار ایک ہندوستانی کمپنی اور اس کے دو کاروباری ڈائریکٹر بھی آئے ہیں۔ امریکی ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے مطابق یہ اقدام ایران کی اُن سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہے جن کے ذریعے فوج اور اس سے وابستہ گروہوں کو مالی مدد پہنچتی ہے۔

ٹریژری ڈپارٹمنٹ نے بتایا کہ آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول (او ایف اے سی) نے متعدد فرنٹ کمپنیوں اور شپنگ فیسلیٹیٹرز کے ایک ایسے نیٹ ورک کو نشانہ بنایا ہے جو ایرانی خام تیل کی فروخت کے ذریعے ایران کی مسلح افواج کے لیے آمدنی پیدا کرتے تھے۔ امریکی مؤقف کے مطابق اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ میں پسپائی کے بعد ایران کی فوج اپنے کمزور بجٹ کو سہارا دینے کے لیے تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی پر زیادہ انحصار کر رہی ہے۔

ٹریژری سیکریٹری اسکاٹ بیسنٹ نے بیان میں کہا کہ “آج کی کارروائی ایران کی حکومت کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور دہشت گرد پراکسیز کو فراہم کی جانے والی مالی معاونت کو روکنے کے لیے جاری امریکی مہم کا حصہ ہے۔ ایران کے ریونیو میں کمی اس کے جوہری عزائم کو محدود کرنے کے لیے ضروری ہے۔”

امریکی محکمہ نے چھ ایسے ویسلز کو بھی پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے جنہیں ایرانی خام تیل کو عالمی منڈی تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے ایران کی مبینہ "شیڈو فلیٹ" پر دباؤ بڑھے گا جس کا استعمال امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں بھی 170 سے زائد تیل بردار جہازوں پر پابندیاں لگائی جا چکی ہیں، جس کے نتیجے میں ایران کی برآمدی لاگت میں اضافہ اور فی بیرل آمدنی میں کمی واقع ہوئی تھی۔

اس بار ایران کی معروف ایئرلائن ’مہان ایئر‘ کو بھی سزا دی گئی ہے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ کمپنی مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے زیرِ سرپرستی گروہوں کو اسلحہ اور سپلائی پہنچانے کے لیے پاسدارانِ انقلاب-قدس فورس کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے۔ اسی طرح "سپہر انرجی جہان نما پارس" نامی ایرانی کمپنی بھی پابندیوں کی زد میں آئی ہے۔

اسی نیٹ ورک کا حصہ بتاتے ہوئے امریکی ٹریژری نے ہندوستانی کمپنی آر این شپ مینجمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ الزام کے مطابق اس کمپنی نے سپہر انرجی جہان نما پارس کی جانب سے ایرانی تیل لے جانے والے جہاز چلائے، جبکہ یہ ایرانی فوج سے منسلک ایک پہلے سے بلیک لسٹ کمپنی ہے۔

کمپنی کے دو ہندوستانی ڈائریکٹر جیر حُسین اقبال حسین سعید اور ذوالفقار حسین رضوی سعید کو بھی اس نیٹ ورک میں مبینہ شمولیت کے الزام پر نشانہ بنایا گیا ہے۔

آر این شپ مینجمنٹ اب یو اے ای، پاناما، جرمنی، یونان اور گامبیا کی ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہو گئی ہے جن پر ایران کی فوجی سرگرمیوں کو مادی مدد فراہم کرنے کا الزام ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی تیل برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں رکاوٹ ڈالنا اس کی فوجی صلاحیتوں کو محدود کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔


جنگی اخراجات کے سبب اسرائیلی فوج میں بحران، سیکڑوں استعفوں کا سلسلہ

قومی آواز بیورو

اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے فوج میں بڑی تعداد میں استعفوں کے انکشاف کے بعد فوری رد عمل دیتے ہوئے اپنی عدالتی سماعت مختصر کرنے کی درخواست کی۔ اس درخواست کی وجہ ہنگامی سیکیورٹی صورت حال بتائی گئی۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ دونوں نے جنوبی شام کا دورہ کیا جہاں انہوں نے سیکیورٹی صورت حال کا جائزہ لیا۔ اس دوران نیتن یاہو نے ایسے بیانات بھی جاری کرائے جن کا مقصد داخلی فوجی بحران سے توجہ ہٹانا معلوم ہوتا ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت سامنے آیا جب وزارت خزانہ کی جانب سے جنگی اخراجات پورے کرنے کے لیے مالی کٹوتیوں اور فوجی اہل کاروں کی مراعات میں کمی نے فوج کے اندر شدید بے چینی پیدا کر دی۔ ان فیصلوں کے بعد 600 سے زیادہ فوجی افسران اور اہل کار نے جن میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسر بھی شامل ہیں نے استعفے دے دیے۔

اسی دوران اسرائیلی داخلہ سیکورٹی کے ادارے شاباک نے شام میں اسلحہ اسمگلنگ میں ملوث ایک خفیہ نیٹ ورک کی گرفتاری کا اعلان کیا جس میں چھ اسرائیلی فوجی بھی شامل تھے۔ یہ گرفتاری نیتن یاہو کے دورے کے ساتھ منظر عام پر آئی جسے کچھ حلقے حکومتی کارکردگی دکھانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

نیتن یاہو نے شام میں فوجی مقامات کا دورہ کیا اور شمالی محاذ کے کمانڈروں سے بریفنگ لی۔ انہوں نے فوجی اہل کاروں کی تعریف کی اور کہا کہ موجودہ صورت حال کسی بھی وقت بڑے خطرے میں بدل سکتی ہے اس لیے فوج کی تیاری ضروری ہے۔ تاہم اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) میں ماحول مختلف تھا جہاں 600 سے زائد فوجی استعفوں پر شدید بحث ہوئی۔ رپورٹوں کے مطابق فوج میں مستقل سروس کرنے والے اہل کاروں کی مراعات کم ہونے اور غزہ کی جنگ کے طویل عرصے تک جاری رہنے سے نوجوان افسران کی بڑی تعداد مستقل ملازمت چھوڑنا چاہتی ہے۔

ایک حالیہ سروے میں 21 سے 30 سال کے 62 فی صد افسران نے مستقل فوجی خدمت جاری رکھنے میں عدم دل چسپی ظاہر کی اور میجر رینک کے 60 فی صد افسران نے بھی یہی موقف اختیار کیا۔ فوجی نمائندوں نے بتایا کہ 300 اہل کار فوری رخصت پر جانا چاہتے ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد کی اضافی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ فوجی قیادت نے خبردار کیا کہ اگر مراعات ختم ہوئیں تو بحران مزید گہرا ہوگا۔ کئی سابق اعلیٰ فوجی حکام نے بھی صورت حال پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ یہ رجحان جنگی محاذ پر فوجی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے۔ فوج کا مطالبہ ہے کہ آئندہ سال کے لیے 144 ارب شیکل کا بجٹ منظور کیا جائے ورنہ مستقبل کی جنگوں کے نتائج متاثر ہوں گے۔

فوج اور وزارت دفاع نے اگلے سال کے لیے متعدد ضروریات بھی پیش کیں جن میں اسرائیل میں جدید دفاعی ٹیکنالوجی کو فروغ دینا، زمینی فوج خصوصاً ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں میں بھاری سرمایہ کاری، فوجی روٹس اور سپلائی کے لیے مکمل مقامی پیداوار اور روبوٹک سسٹمز کا وسیع استعمال جن میں بغیر پائلٹ طیارے لاجسٹک روبوٹس اور ریموٹ کنٹرول انجینئرنگ آلات شامل ہیں۔

فوجی ماہرین کے مطابق اس تمام منصوبہ بندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل آئندہ دو برس تک مزید جنگی حالات کے لیے تیار رہنا چاہتا ہے۔ تاہم اندرونی بحران خصوصاً افسران کی جانب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی استعفوں کی لہر اسرائیلی فوج اور سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ (بشکریہ نیوز پورٹل ’العربیہ ڈاٹ نیٹ، اردو‘)


ہندوستان اور بنگلہ دیش کے قومی سلامتی مشیروں کی اہم ملاقات

یو این آئی

قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے ہندوستان کے دورے پر آئے ہوئے بنگلہ دیش کے قومی سلامتی کے مشیر خلیل الرحمٰن کے ساتھ جمعرات کو دونوں ممالک کے سلامتی کے منظرنامے پر تفصیل سے تبادلۂ خیال کیا۔ جناب خلیل الرحمٰن ساتویں کولمبو سیکیورٹی کانفرنس میں شرکت کے لئے ہندوستان آئے ہیں۔کانفرنس کے علاوہ، اجیت ڈوبھال اور خلیل الرحمٰن کے درمیان سلامتی سے متعلق مختلف امور پر تبادلۂ خیال ہوا۔ انہوں نے دو طرفہ اور علاقائی سلامتی کو متاثر کرنے والے متعدد اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔

ذرائع کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے خفیہ معلومات کے تبادلے، سرحدی انتظام، اور دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور سرحد پار جرائم سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کو مضبوط کرنے کے عزم کی توثیق کی۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ دونوں فریقوں نے تقریباً 4,000 کلومیٹر طویل ہند۔بنگلہ دیش سرحد پر آپریشنل ہم آہنگی کو بہتر بنانے کے طریقوں پر غور کیا، جس میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور سرحدی علاقوں میں رہنے والی آبادی کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی۔


برطانیہ نے تارکین وطن سے متعلق بنائی سخت پالیسی، ہندوستانیوں پر پڑے گا منفی اثر!

قومی آواز بیورو

کچھ سال قبل کی بات ہے، برطانیہ میں رہنے والی پاکستانی تارک وطن کی بیٹی شبانہ محمود ’فری فلسطین‘ کے پوسٹر لے کر اسرائیل مخالف ریلیوں میں شامل ہوتی تھیں۔ وہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی سخت ناقد تھیں۔ لیکن آج شبانہ محمود ایک بالکل مختلف خاتون ہیں۔ وہ اب برطانیہ کی حکمراں سینٹر لیفٹ لیبر پارٹی کی ہوم سکریٹری (ہندوستان میں وزیر داخلہ کے مساوی) ہیں۔ انہوں نے 17 نومبر کو پارلیمنٹ میں حکومت کی نئی سخت پناہ کی پالیسی کا بھرپور دفاع کیا۔ یہ پالیسی پناہ گزینوں کی حیثیت کو عارضی بناتی ہے، اپیل کے عمل کو محدود کر دیا گیا ہے اور سرکاری فنڈنگ ختم کر دی گئی ہے۔ یہ پالیسی ان ممالک پر ویزا پابندیوں کی دھمکی دیتی ہے جو اپنے شہریوں کو واپس نہیں لیتے۔

شبانہ محمود کے اس منصوبہ پر ان کی پارٹی کے ہی رہنماؤں نے تنقید کی ہے۔ اسے ڈسٹوپیئن، شرمناک اور اخلاقی طور پر غلط قرار دیا ہے۔ جبکہ دائیں بازو کے سیاست دانوں اور کارکنوں نے کھل کر ان کی تعریف کی ہے جو کہ برطانیہ کی پہلی مسلم ہوم سکریٹری کے لیے غیر معمولی ہے۔ کچھ دائیں بازو کے رہنماؤں نے انہیں بہادر، مضبوط اور یہاں تک کہ ’بلیو‘ (کنزرویٹو پارٹی کا رنگ) بھی کہا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما کیمی بیڈینوک نے کہا کہ یہ قدم محمود کا شروعاتی قدم ہے جو کہ کافی مثبت ہے۔

واضح رہے کہ برطانوی حکومت کے نئے منصوبے 2019 میں ڈنمارک میں نافذ کیے گئے منصوبوں جیسے ہیں۔ ان منصوبوں کے تحت مہاجرین 20 سال تک برطانیہ میں رہنے کے بعد ہی مستقل طور پر آباد ہو سکتے ہیں۔ ان کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جائے گا اور اگر ان کے آبائی ممالک کو محفوظ سمجھا جاتا ہے تو انہیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال یہ مدت 5 سال ہے۔ موجودہ پناہ کے نظام میں کئی بار اپیل کرنے کی اجازت ہے جسے محمود ختم کرنا چاہتی ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے قوانین میں ترمیم کر کے خاندانی زندگی یا غیر انسانی سلوک پر مبنی پناہ کے دعوے کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ حکومت اے آئی کا استعمال کر کے پناہ کا مطالبہ کرنے والوں کی عمر کی تصدیق کرے گی، خاص طور پر وہ لوگ جو نابالغ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ جعلی دستاویزات کے استعمال کو روکنے کے لیے ہندوستان کے آدھار کارڈ کی طرح ڈیجیٹل شناختی کارڈ بھی نافذ کرنا چاہتی ہیں۔

برطانوی ہوم سکریٹری ایک قانونی التزام بھی ہٹانے جا رہی ہیں، جس کے تحت مہاجرین کو ٹیکس دہندگان سے مالی امداد ملتی تھی۔ جن لوگوں کے پاس جائیداد ہے، انہیں اب اپنے رہنے کے اخراجات خود پورے کرنے ہوں گے۔ یہ ڈنمارک کے ماڈل کی طرح ہے، جہاں ضرورت پڑنے پر افسران کو مہاجرین کے اثاثے ضبط کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ برطانیہ میں ہجرت کئی دہائیوں پرانا مسئلہ ہے لیکن حالیہ برسوں میں فرانس سے انگلش چینل عبور کرنے والی چھوٹی کشتیوں میں آنے والے تارکین وطن نے سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ رواں سال کے پہلے نصف میں 43000 افراد اس خطرناک راستے سے پہنچے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے۔ ان مہاجرین میں سے زیادہ تر افغانستان، ایران، اریٹیریا، سوڈان اور شام سے آئے تھے۔

اگر ہندوستانیوں کی بات کی جائے تو بہت کم ایسے ہیں جو چھوٹی کشتی کے راستے سے برطانیہ پہنچے ہیں۔ زیادہ تر ہندوستانی طالب علم یا ورک ویزا پر آتے ہیں۔ برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہندوستانیوں کی تعداد تقریباً ایک فیصد ہے جب کہ پاکستانیوں کے لیے یہ تعداد 10 گنا زیادہ ہے۔ برطانیہ کی صحت کی خدمات تقریباً پوری طرح ہندوستانی ڈاکٹروں اور نرسوں پر منحصر ہے۔ ہائی اسکلڈ ویزا کے لیے بھی ہندوستانی سرفہرست ہیں۔ جیسے جیسے تارکین وطن کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ضروری خدمات کو متاثر کرتی ہے، حکومت اب قانونی امیگریشن پر بھی سختی کر رہی ہے۔ حکمراں لیبر پارٹی سمیت مین اسٹریم پارٹیاں دائیں بازو کی ریفارم یو کے پارٹی کے جیسی پالیسیاں اپنا رہی ہیں۔

شبانہ محمود مستقل رہائش گاہ (آئی ایل آر) کے لیے درخواست کی مدت 5 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ ریفارم یو کے پارٹی تو آئی ایل آر ہی ختم کرنا چاہتی ہے، تاکہ اس کی غیر موجودگی میں تارکین وطن کی سرکاری خدمات تک رسائی ختم ہو جائے۔ برطانیہ میں 430000 غیر یورپی تارکین وطن ہیں جن میں سب سے زیادہ ہندوستانی ہیں۔ برطانیہ