ٹماٹر پر پھر چھایا مہنگائی کا بخار، چنڈی گڑھ میں 112 اور کرناٹک میں 40 فیصد تک بڑھ گئی قیمت
قومی آواز بیورو
ٹماٹر کی قیمتیں ایک بار پھر تیزی کے ساتھ بڑھنے لگی ہیں۔ ملک بھر میں گزشتہ 15 دنوں کے اندر ٹماٹر کی قیمت میں 50 فیصد تک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ کئی شہروں میں تو اس کی قیمت دوگنی تک پہنچ گئیہے۔ اس مہنگائی کی بڑی وجہ اکتوبر میں ہوئی تیز بارش ہے، جس نے کئی ریاستوں میں ٹماٹر کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا اور بازار میں سپلائی کم ہو گئی۔
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک ماہ میں خوردہ قیمتوں میں 25 فیصد سے لے کر 100 فیصد تک کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ وزارت برائے صارفین کے مطابق 19 نومبر کو ٹماٹر کی آل انڈیا اوسط قیمت 46 روپے فی کلو تک پہنچ گئی، جبکہ ایک ماہ قبل یہ 36 روپے فی کلو تھی۔ یعنی اوسط قیمتوں میں تقریباً 27 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ سب سے زیادہ اثر چنڈی گڑھ پر پڑا جہاں قیمت 112 فیصد تک بڑھ گئی۔ آندھرا پردیش، ہماچل پردیش اور کرناٹک میں بھی ٹماٹر کی قیمت میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ کئی شہروں میں اچھے معیار والے ٹماٹر 60 روپے سے 80 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہے ہیں۔
کاروباریوں کا کہنا ہے کہ فی الحال راحت کی امید کم ہی نظر آ رہی ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ شادی سیزن اور نئے سال کی وجہ سے ٹماٹر کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ بارش سے فصلوں کو ہوئے نقصان کے سبب سپلائی گھٹی ہے، اس لیے مہنگائی یقینی ہے۔ کرناٹک، مہاراشٹر اور گجرات سے آنے والے ٹرکوں کی تعداد گزشتہ ایک ہفتہ میں تقریباً نصف رہ گئی ہے، جس سے بازار میں دستیابی کم ہو گئی ہے۔ مہاراشٹر، جو ٹماٹر کی بڑی سپلائی دیتا ہے، وہاں نومبر میں ہول سیل قیمت 45 فیصد بڑھی ہے، جبکہ راجدھانی دہلی میں ہول سیل کی قیمتوں میں 26 فیصد کا اضافہ درج ہوا۔
ستمبر-اکتوبر میں ٹماٹر، پیاز اور آلو کی قیمت گرنے سے ریٹیل مہنگائی 0.25 فیصد، یعنی 2013 کے بعد سب سے ذیلی سطح پر پہنچ گئی تھی۔ اکتوبر میں ٹماٹر کی مہنگائی منفی 42.9 فیصد تھی، یعنی قیمت کم تھی۔ لیکن نومبر میں حالات پورے طرح بدل گئے ہیں۔ فی الحال بارش سے خراب فصل اور تہوار و شادی سیزن کی طلب مل کر ٹماٹر کو مزید مہنگا بنا رہے ہیں۔ آنے والے ہفتوں میں بھی قیمتوں میں کمی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
انل امبانی گروپ کی 1400 کروڑ روپے مالیت کی جائدادیں ضبط، ای ڈی کی کارروائی
قومی آواز بیورو
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے انل امبانی کی سربراہی والے انل دھیروبھائی امبانی گروپ (ای ڈی اے جی) کے خلاف کارروائی تیز کرتے ہوئے 1400 کروڑ روپے مالیت کی نئی غیر منقولہ جائدادوں کو ضبط کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس تازہ کارروائی کے بعد ای ڈی کے ذریعے ضبط کی گئی مجموعی جائدادوں کی مالیت بڑھ کر تقریباً 9,000 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔
ای ڈی کی کارروائی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مرکزی ایجنسی فیما کی جانچ کے سلسلے میں انل امبانی کو کئی مرتبہ سمن بھیج چکی ہے لیکن وہ اب تک ایجنسی کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں۔ انہیں 17 نومبر کو دہلی واقع ای ڈی ہیڈکوارٹر میں پیش ہونا تھا، جہاں جےپور–رِینگس ہائی وے پروجیکٹ سے متعلق فیما معاملے میں ان سے دوسری مرتبہ پوچھ گچھ طے تھی۔ تاہم، انل امبانی نے حاضری سے گریز کرتے ہوئے ورچوئل پیشی کی درخواست دی، جسے ای ڈی نے نامنظور کر دیا۔
اس سے پہلے 14 نومبر کو بھی انہیں طلب کیا گیا تھا لیکن وہ اس سمن کے باوجود ای ڈی کے سامنے حاضر نہیں ہوئے۔ ایجنسی کے مطابق وہ فیما قانون کے تحت ان کا بیان قلم بند کرنا چاہتی ہے۔ یہ جانچ اس الزام کے بعد شروع ہوئی تھی کہ 2010 میں ریلائنس انفرا کو دیے گئے ایک ہائی وے پروجیکٹ کے 40 کروڑ روپے مبینہ طور پر سورت کی فرضی کمپنیوں کے ذریعے دبئی منتقل کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ اسی سال اگست میں ای ڈی نے مبینہ 17000 کروڑ روپے کے قرض دھوکہ دہی کیس میں انل امبانی سے تقریباً نو گھنٹے تک پوچھ گچھ کی تھی۔ ایجنسی نے تب بھی ان پر مالی بے ضابطگیوں اور قرض کی رقم کے غلط استعمال سے متعلق اہم سوالات اٹھائے تھے۔
حالیہ کارروائی سے پہلے ای ڈی نے پیر کے روز نوی ممبئی میں واقع دھیروبھائی امبانی نالج سٹی کی 132 ایکڑ سے زیادہ زمین، جس کی قیمت 4462.81 کروڑ روپے بتائی گئی ہے، کو منی لانڈرنگ روک تھام ایکٹ کے تحت عبوری طور پر ضبط کیا تھا۔ یہ زمین ریلائنس گروپ کے مختلف منصوبوں سے متعلق تھی اور ایجنسی کے مطابق ان جائدادوں کا رابطہ ان معاملات سے ہے جن کی وہ تفتیش کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ ای ڈی نے اس سے پہلے ریلائنس کمیونیکیشنز لمیٹڈ (آر کام)، ریلائنس کمرشل فنانس اور ریلائنس ہوم فنانس کے بینک دھوکہ دہی سے جڑے معاملات میں 3083 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی 42 جائدادیں بھی ضبط کی تھیں۔ ان کارروائیوں کے بعد ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس نے ریلائنس گروپ سے متعلق متعدد مالی بے ضابطگیوں کے سلسلے میں اپنی جانچ کو مزید مضبوط بنایا ہے۔
ای ڈی کا موقف ہے کہ انل امبانی کی بار بار عدم حاضری سے تفتیش متاثر ہو رہی ہے، جبکہ گروپ کے مالی معاملات سے متعلق کئی اہم پہلو سامنے آ رہے ہیں جن پر ان کا براہِ راست جواب ضروری ہے۔ ایجنسی نے واضح کیا ہے کہ جب تک انل امبانی خود پیش ہو کر اپنا بیان نہیں دیتے، کارروائی اور سخت ہو سکتی ہے۔
نتیش کمار 10 ویں مرتبہ بنے بہار کے وزیر اعلیٰ، عارف محمد خان نے دلایا حلف
قومی آواز بیورو
پٹنہ: نتیش کمار نے بہار کے وزیر اعلیٰ کے طور پر دسویں مرتبہ حلف لے لیا ہے۔ پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں منعقد اس شاندار تقریبِ حلف برداری میں ریاست کے گورنر عارف محمد خان نے انہیں عہدہ اور رازداری کا حلف دلایا۔ اس موقع پر وزیراعظم نریندر مودی، مرکزی وزرائے اعلیٰ اور این ڈی اے کی حکمرانی والی ریاستوں کے متعدد وزرائے اعلیٰ بھی موجود تھے۔
گاندھی میدان میں تقریب کا آغاز قومی ترانے سے ہوا۔ اس کے بعد گورنر کے پرنسپل سکریٹری رابرٹ ایل چانگتھو نے حکم نامہ پڑھ کر سنایا، جس کے مطابق آئین کے آرٹیکل 164(1) کے تحت گورنر نے نتیش کمار کو وزیراعلیٰ نامزد کیا ہے۔ گورنر نے وزیراعلیٰ کی تجویز پر دیگر وزرا کی تقرری کی منظوری بھی دی۔
حلف لینے کے بعد نتیش کمار نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور مختصر گفتگو کی۔ اس کے بعد نائب وزرائے اعلیٰ کے عہدے کے لیے سمراٹ چودھری اور وجے کمار سنہا نے حلف اٹھایا، جنہیں نتیش کابینہ میں اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔
تقریب میں گورنر آرِف محمد خان نے پانچ سے چھ افراد کے گروپ کی شکل میں وزرا کو اسٹیج پر بلا کر حلف دلایا۔ جن وزرا نے حلف لیا ان میں وجے کمار چودھری، وجیندر پرساد یادو، شرون کمار، منگل پانڈے، دلیپ جائسوال، اشوک چودھری، لیشی سنگھ، مدن سہنی، نتن نبین، رام کرپال یادو، سنتوش کمار سومن، سنیل کمار، محمد زماں خان، سنجے سنگھ ٹائیگر، ارون شنکر پرساد، سریندر مہتا، نارائن پرساد، رما نشاد، لکشندر کمار روشن، شریئسی سنگھ، پرمود کمار، سنجے کمار، سنجے کمار سنگھ اور دیپک پرکاش شامل تھے۔
حلف برداری کی تقریب میں آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ این چندر بابو نائیڈو، مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس، گجرات کے وزیراعلیٰ بھوپندر پٹیل، اترپردیش کے یوگی آدتیہ ناتھ، آسام کے ہمنتا بسوا سرما، ناگالینڈ کے نیفیو ریو، راجستھان کے بھجن لال شرما، مدھیہ پردیش کے موہن یادو، اتراکھنڈ کے پشکر سنگھ دھامی، دہلی کی ریکھا گپتا، ہریانہ کے نائب سنگھ سینی اور اڈیشہ کے وزیراعلیٰ موہن چرن ماجھی بھی موجود تھے۔ این ڈی اے کے اتحادی جماعتوں کے سربراہان، اراکینِ اسمبلی اور بڑی تعداد میں کارکنان بھی موجود تھے
امریکی رپورٹ میں پاکستان کو ’برتر‘ قرار دینے پر جے رام رمیش برہم، کہا- ’سفارت کاری کو شدید دھچکا لگا‘
قومی آواز بیورو
کانگریس کے سینئر رہنما اور رکنِ پارلیمنٹ جے رام رمیش نے امریکی کانگریس کو پیش کی گئی یو ایس۔چائنا اکنامک اینڈ سکیورٹی ریویو کمیشن کی تازہ ترین سالانہ رپورٹ پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اپنی ایکس پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ ہندوستان کے لیے بالکل ناقابل قبول بھی ہے۔ ان کے مطابق اس دستاویز نے ہندوستان کی سفارت کاری کو ایک اور ’سنگین جھٹکا‘ پہنچایا ہے۔
یہ کمیشن امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کی مشترکہ تشکیل ہے، جس میں بارہ آزاد ارکان شامل ہیں۔ کمیشن کی 2025 کی سالانہ رپورٹ تقریباً 800 صفحات پر مشتمل ہے۔ جے رام رمیش نے خاص طور پر رپورٹ کے صفحات 108 اور 109 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان حصوں میں کئی تشویش ناک دعوے کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں اپریل 2025 میں پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے، جسے پاکستان کی پشت پناہی میں انجام دیا گیا تھا، کو بغاوت پر مبنی حملہ کہا گیا ہے۔ جے رام رمیش کے مطابق یہ نہ صرف حقیقت کے برخلاف ہے بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی مسلسل کوششوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
اسی طرح رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 4 روزہ جھڑپ میں پاکستان نے ہندوستان پر فوجی برتری حاصل کی۔ کمیشن نے مزید کہا کہ پاکستان کی اس کامیابی نے چین کے ہتھیاروں کی صلاحیت کو نمایاں کرنے میں مدد کی اور یہ کہ پاکستانی فضائیہ نے چینی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہندوستان کے تین لڑاکا طیارے مار گرائے۔ فرانسیسی انٹیلی جنس نے اس دعوے کو چین کی غلط معلومات پھیلانے کی مہم قرار دیا ہے جس کا مقصد رافیل طیاروں کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا۔
جے رام رمیش نے اپنی پوسٹ میں یاد دلایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی 60 مرتبہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے ’آپریشن سندور‘ کو رکوا دیا تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب بیرونی حلقوں میں ایسے دعوے کیے جا رہے ہیں تو وزیراعظم نریندر مودی مکمل خاموشی کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں؟
کانگریس لیڈر نے وزارتِ خارجہ پر بھی زور دیا کہ وہ اس رپورٹ پر باضابطہ اعتراض درج کرائے، کیونکہ ان کے مطابق یہ ہندوستان کے مؤقف، اس کی سلامتی اور علاقائی حقائق کی سنگین غلط ترجمانی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین نے 2025 میں پاکستان کے ساتھ اپنی فوجی شراکت داری کو وسعت دی، جس سے ہندوستان کے ساتھ اس کے پہلے سے موجود تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ مزید یہ کہ کمیشن کا ماننا ہے کہ چین نے اسی ماحول میں اپنے دفاعی نظام کی جانچ کے لیے پاکستان کے بحران کو ’’موقعاتی طور پر‘‘ استعمال کیا۔
ایپسٹین فائلیں عام کرنے کے بل پر ٹرمپ کے دستخط، 30 دن میں تمام ریکارڈ جاری کرنے کا حکم
قومی آواز بیورو
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جیفری ایپسٹین سے متعلق تمام سرکاری فائلیں عام کرنے کے لیے منظور کیے گئے بل پر باقاعدہ دستخط کر دیے ہیں۔ ٹرمپ نے اس فیصلے کا اعلان بدھ کے روز اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر کیا اور کہا کہ وہ اس معاملے میں مکمل شفافیت کے حامی ہیں۔
منظور شدہ بل کے تحت امریکی وزارتِ انصاف کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایپسٹین کیس کی تحقیقات سے متعلق تمام دستاویزات، رپورٹس اور متعلقہ مواد 30 دن کے اندر ایسی شکل میں جاری کرے جو سرچ اور ڈاؤن لوڈ کیے جانے کے قابل ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ ریکارڈ کو کسی بھی قسم کی تاخیر کے بغیر عام شہریوں، محققین اور میڈیا کے لیے دستیاب کرنا ہوگا۔
جیفری ایپسٹین، جنہیں جنسی استحصال اور کم عمر لڑکیوں کی اسمگلنگ کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا، سنہ 2019 میں جیل میں مردہ پائے گئے تھے۔ ان کی موت کو سرکاری طور پر خودکشی قرار دیا گیا لیکن کیس کے کئی پہلو آج بھی تنازع اور بحث کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ماضی میں ان فائلوں کو عام کرنے کی مخالفت کی تھی، تاہم ایپسٹین کیس کے متاثرین اور ریپبلکن پارٹی کے اپنے ہی اراکین کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد انہوں نے اپنا مؤقف تبدیل کر لیا۔ گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے پارٹی اراکین سے اپیل کی تھی کہ وہ اس بل کی حمایت میں ووٹ دیں، کیونکہ ہمارے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ اس بل کو کانگریس کے دونوں ایوانوں میں غیر معمولی حمایت ملی۔
ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز میں 427-1 کے بھاری اکثریتی ووٹ سے بل منظور ہوا، جبکہ سینیٹ نے اسے بلا کسی رسمی ووٹنگ کے اتفاقِ رائے سے پاس کر دیا۔ اس طرح فائلوں کی مکمل ڈی کلاسیفکیشن اب قانونی طور پر لازم ہو گئی ہے۔
ٹرمپ نے بدھ کو ایک اور پوسٹ میں ڈیموکریٹک رہنماؤں پر شدید تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ کئی معروف ڈیموکریٹس کے ایپسٹین سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق، ’’اب ممکن ہے کہ ان تعلقات کی اصل حقیقت جلد سامنے آ جائے، کیونکہ میں نے ایپسٹین فائلیں جاری کرنے کے بل پر دستخط کر دیے ہیں۔‘‘
اسی دوران، امریکی ایوانِ نمائندگان کی ہاؤس اوور سائیٹ کمیٹی نے حال ہی میں ایپسٹین کیس سے متعلق بیش از 20 ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات جاری کی ہیں، جن میں کچھ جگہوں پر خود صدر ٹرمپ کا نام بھی موجود ہے۔ اگرچہ ٹرمپ تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں ایپسٹین سے ان کے تعلقات دوستانہ نوعیت کے تھے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’’2000 کی دہائی کے اوائل میں‘‘ اس سے مکمل ناطہ توڑ لیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بل کے بعد امریکی سیاسی حلقوں، بالخصوص ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان اس معاملے پر کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے، کیونکہ فائلوں کے اجرا کے بعد نئے انکشافات سامنے آنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
یورپی یونین غزہ کی پٹی کے لیے تین ہزار پولیس اہل کاروں کی تربیت کا ارادہ رکھتی ہے
قومی آواز بیورو
یورپی یونین کا ارادہ ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں تین ہزار پولیس اہل کاروں کو تربیت دے گی۔ بالکل اسی طرح جیسے اس نے پہلے مقبوضہ مغربی کنارے میں کیا تھا۔ یہ بات کل ایک یورپی عہدے دار نے بتائی۔عہدے دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا کہ "غزہ میں استحکام قائم رکھنے کے لیے بڑی پولیس فورس کی ضرورت ہو گی"۔
منگل کو سلامتی کونسل نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت 10 اکتوبر کو غزہ میں جنگ بندی عمل میں آئی۔ یہ منصوبہ اسرائیل اور حماس کے درمیان دو سالہ جنگ کے بعد سامنے آیا، جس کے دوران غزہ محصور رہا۔
اس منصوبے کے تحت اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے بعد غزہ کی پٹی میں ایک بین الاقوامی فورس تعینات کی جائے گی۔ یہ فورس خاص طور پر اسرائیل اور مصر کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت، ہتھیاروں کو جمع کرنے اور غیر ریاستی مسلح گروہوں سے ہتھیار چھیننے کی ذمہ داری اٹھائے گی۔
بعد ازاں غزہ میں پائے دار سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے یورپی یونین یہ تجویز دے گی کہ ایسے پولیس اہل کاروں کو تربیت دی جائے جو حماس کے ماتحت نہیں ہیں، کیونکہ حماس پورے علاقے پر قابض ہے۔اس عہدے دار کے مطابق تقریباً سات ہزار پولیس اہل کار غزہ میں فلسطینی اتھارٹی سے تنخواہیں حاصل کر رہے ہیں، حالانکہ ان میں سے اکثر کو ریٹائر کیا جا چکا ہے یا وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں، البتہ تقریباً تین ہزار اہل کار تربیت کے قابل ہیں۔
یورپی یونین 2006 سے مغربی کنارے میں پولیس کی تربیت کے مشن کی فنڈنگ کر رہی ہے۔ اس کا بجٹ تقریباً 1.3 کروڑ یورو (تقریباً 1.5 کروڑ ڈالر) ہے۔ یورپی یونین کے وزراء خارجہ اس تجویز پر جمعرات کو برسلز میں اجلاس میں غور کریں گے۔ اسی دن فلسطین کے لیے عطیہ دہندگان ممالک کی کانفرنس بھی برسلز میں منعقد ہو گی، جس میں تقریباً ساٹھ وفود شریک ہوں گے۔ ان میں عرب ممالک بھی شامل ہیں مگر اسرائیل کی شرکت نہیں ہو گی۔
کانفرنس کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی جو بین الاقوامی دباؤ کا شکار ہے، اصلاحات کرنے کے حوالے سے اپنا موقف پیش کر سکے۔ یورپی یونین فلسطینی اتھارٹی کا سب سے بڑا مالی مدد گار ہے، مگر وہ اپنے تعاون کو اصلاحات کے نفاذ سے مشروط رکھتی ہے۔ یونین انھیں ضروری سمجھتی ہے تاکہ فلسطینی اتھارٹی دو ریاستی حل کے دائرے میں اپنا کردار مکمل طور پر ادا کر سکے۔ اس عہدے دار کے مطابق یہ کانفرنس اصلاحات میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کا موقع بھی فراہم کرے گی۔ (بشکریہ نیوز پورٹل ’العربیہ ڈاٹ نیٹ، اردو‘)
روس کے حملوں سے یوکرین لرز اٹھا، ڈرون اور میزائل حملوں میں اب تک 25 افراد ہلاک ہو چکے ہیں
قومی آواز بیورو
گزشتہ 24 گھنٹوں میں روس نے یوکرین پر 524 فضائی حملے کیے ہیں۔ روس نے یوکرین کے تین شہروں پر ایسی تباہ کن بمباری کی کہ پورا ملک لرز اٹھا۔ حالیہ مہینوں میں یوکرین پر روس کا یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔ پوتن نے یوکرین پر حملہ کیا لیکن نیٹو کو بمباری کا پیغام بھیجا۔ یوکرین پر یہ تباہ کن حملہ کر کے پوتن نے نیٹو کو حتمی وارننگ جاری کر دی ہے۔ اگر روسی سرحد کے قریب فوجی مشقیں بند نہ کی گئیں تو آنے والے دنوں میں عالمی جنگ یقینی ہے۔
پہلے جرمنی اور پھر فرانس نے روس کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ جنگ کے اعلان نے پوتن کو مشتعل کردیا لیکن جب نیٹو کی فوجی مشقیں روسی سرحد کے قریب شروع ہوئیں تو پوتن نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے کل رات یوکرین میں تباہی مچادی۔ پوتن نے نیٹو کو یہ پیغام بھیجا"اگر روس کو اکسایا گیا تو میں تمہیں نہیں بخشوں گا۔" پوتن نے وہی کیا جو اس نے وعدہ کیا تھا"اگر نیٹو یوکرین روس تنازعہ میں داخل ہوتا ہے، تو اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔"
یوکرین کے وزیر داخلہ ایہور کلیمینکو نے کہا کہ روس نے یوکرین کے شہروں پر دوبارہ حملہ کیا ہے۔ روس نے جان بوجھ کر رہائش، تعلیمی سہولیات اور اہم انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کا مقصد یوکرین کو زیادہ سے زیادہ شہری ہلاکتیں، زیادہ سے زیادہ تباہی اور تکلیف پہنچانا ہے۔
یوکرینی فوج کے مطابق روس نے شام 6 بجے شروع ہونے والے ڈرونز اور میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے بڑے فضائی حملے شروع کیے۔ 18 نومبر کو یہ حملے 19 نومبر کی صبح تک جاری رہے۔ روس نے یوکرین کے تین شہروں کو نشانہ بنایا۔ 48 میزائل اور 476 ڈرون استعمال ہوئے۔ روس نے یوکرین پر کئی کروز میزائل داغے۔ یہ روسی حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی روس کے خلاف بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کے لیے ترکی پہنچے ہیں۔
روس نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ فرانس سے یوکرین کو ملنے والے رافیل لڑاکا طیارے جنگ کی صورت حال کو تبدیل نہیں کریں گے۔ کیف حکومت کو جتنے بھی لڑاکا طیارے فروخت کیے جائیں، اس سے محاذ یا میدان جنگ کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ پیرس کی جانب سے کیف کو ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی جنگ کو ہوا دیتی ہے اور امن کے لیے کسی بھی طرح سے تعاون نہیں کرتی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پوتن کی افواج نے روس کے خلاف استعمال ہونے والے امریکی ہتھیار کو تباہ کیا ہے۔ مزید برآں، یوکرین کا یو ایس پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم بھی روسی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا۔ پیوٹن نے ثابت کیا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے پاس اس وقت روس کے تباہ کن ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے یوکرین روس جنگ سے دوری برقرار رکھی ہے اور یوکرین کو ٹام ہاک میزائل فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ روس کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کر رہا ہے۔ اب رپورٹس بتاتی ہیں کہ ٹرمپ خفیہ طور پر پوتن کو جنگ بندی پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے جنگ بندی کے لیے 28 نکاتی منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس 28 نکاتی منصوبے سے ٹرمپ کو امید ہے کہ جنگ بندی کے ذریعے روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہتر ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ روس کو میدان جنگ میں شکست دینا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
0 تبصرے