دہشت گردی کی مالی معاونت کی جانچ: ای ڈی نے الفلاح یونیورسٹی سے وابستہ کئی مقامات پر چھاپے مارے
نئی دہلی، 18 نومبر (یو این آئی) دہلی دھماکہ معاملے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے ہریانہ کے فرید آباد میں واقع الفلاح یونیورسٹی اور دہلی کے اوکھلا میں واقع اس کے دفتر سمیت 25 سے زیادہ مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔
یہ کارروائی دہلی میں لال قلعے کے قریب ہوئے دھماکے سے منسلک منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی بڑے پیمانے پر کی جانے والی تحقیقات کا حصہ ہے۔ اس دھماکے میں 15 افراد کی موت ہوگئی تھی۔
ای ڈی کی ٹیموں نے منگل کی صبح 5:15 بجے شروع ہوئے ایک آپریشن میں الفلاح یونیورسٹی کے اوکھلا دفتر سمیت دہلی-این سی آر کے مختلف مقامات پر چھاپے مارے۔ جانچ کا مقصد اُس مالیاتی نیٹ ورک کا سراغ لگانا ہے جس نے دھماکہ کرنے والوں کی مدد کی تھی۔
یہ معاملہ اُس وقت سامنے آیا جب الفلاح یونیورسٹی سے وابستہ ایک ڈاکٹر، ڈاکٹر عمر نبی کی شناخت اُس آئی 20 کار کے ڈرائیور کے طور پر ہوئی جس میں دھماکہ ہوا تھا۔ ابتدا میں یونیورسٹی نےخود کوڈاکٹر عمر نبی سے الگ کر لیا تھا، لیکن بعد ازاں دہلی کرائم برانچ اور ہریانہ پولیس کی تفتیش میں ادارے کے اندر بڑے پیمانے پر مالی دھوکہ دہی کا انکشاف ہوا۔ اس کے بعد ای ڈی نے مداخلت کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کی جانچ شروع کی۔
اس کارروائی نے مالی دھوکہ دہی کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا ہے۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ الفلاح گروپ سے منسلک کم از کم نو فرضی کمپنیاں ایک ہی پتے پر رجسٹرڈ ہیں اور سبھی تفتیش کے دائرے میں ہیں۔
ای ڈی کے ایک سینئر افسر نے کہا،’’الفلاح ٹرسٹ اور اس سے وابستہ اداروں کے کردار پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ ہم اُن اہم افسران کی جانچ کر رہے ہیں جو مالیات اور انتظامیہ کی نگرانی کرتے ہیں۔‘‘
تحقیقات میں یونیورسٹی کے یو جی سی (یو جی سی)اور این اے اے سی(این اے اے سی)سے منظوری کے دعوؤں میں ابتدائی طور پر تضاد پایا گیا۔ ان پہلوؤں کی متعلقہ انضباطی اتھارٹیز سے تصدیق کی جا رہی ہے۔ پولیس کی ایف آئی آر کی بنیاد پر ای ڈی کی جانچ اب صرف دہشت گردی سے متعلق تفتیش نہیں رہی بلکہ یہ ایک پیچیدہ مالیاتی دھوکہ دہی اور منی لانڈرنگ کے معاملے کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو ادارے کے مالی جرائم اور دھماکے کے ملزمین کی سرگرمیوں کے درمیان گہرے رابطے کی نشاندہی کرتی ہے۔
یو این آئی - م ک
این آئی اے نے دوسری گرفتاری کی، دہلی دھماکے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے روابط کا پتہ چلا
نئی دہلی/چنڈی گڑھ، 17 نومبر (یو این آئی) انسداد دہشت گردی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے پیر کو دہلی لال قلعہ دھماکے کے معاملے میں ایک کشمیری باشندے کی دوسری گرفتاری کی تفتیش کاروں نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ یہ دھماکہ پاکستان میں مقیم دہشت گرد تنظیموں اور بنگلہ دیش میں مقیم انتہا پسند نیٹ ورکس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی وجہ سے ہواتھا تاریخی قلعہ کے قریب ہونے والے دھماکے کے ایک ہفتہ بعد جس میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور 32 دیگر زخمی ہوئے، دھماکے کی تحقیقات کرنے والی متعدد مرکزی اور ریاستی حکومتی ایجنسیوں نے اپنا دائرہ وسیع کر دیا ہے اور ملک بھر میں سکیورٹی الرٹ کے درمیان اہم مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا ہے۔
این آئی اے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی کی ایک ٹیم نے جسیر بلال وانی عرف دانش کو جموں و کشمیر کے سری نگر سے گرفتار کیا ہے۔
اہلکار نے کہا کہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ جسیر نے خوفناک کار بم دھماکے سے قبل مبینہ طور پر ڈرون میں تبدیلی اور راکٹ بنانے کی کوشش کے ذریعے دہشت گردانہ حملے کرنے کے لیے تکنیکی مدد فراہم کی تھی۔
اہلکار نے بتایا کہ ملزم، جموں و کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے قاضی گنڈ کا رہنے والا، حملے کے پیچھے ایک سرگرم شریک سازش کار تھا اور اس نے دہشت گرد عمر النبی کے ساتھ مل کر اس دہشت گردانہ قتل عام کی منصوبہ بندی کی تھی۔
دریں اثنا، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اب یقین ہے کہ دھماکے کے پیچھے کوئی ایک تنظیم یا ماسٹر مائنڈ نہیں، بلکہ برصغیر کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی دونوں جانب پھیلے دہشت گرد گروہوں، لاجسٹک مراکز، محفوظ ٹھکانوں اور نظریاتی نیٹ ورکس کا ایک جال اس سازش میں سرگرم عمل ہے۔
ایجنسی ذرائع نے پہلے کہا تھا کہ سازش کرنے والوں کا حتمی مقصد دارالحکومت میں متعدد دھماکے کرنا تھا۔
غزہ جنگ بندی منصوبہ سامنے آتے ہی اسرائیل کو ملی خوشخبری، ملٹری ایکسپورٹ سے پابندی ہٹی
قومی آواز بیورو
غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہوئی پیش رفت کے بعد جرمنی نے اسرائیل کے تعلق سے ایک اہم فیصلہ کیا ہے۔ جرمنی نے اسرائیل پر فوجی ساز و سامان فروخت کرنے سے متعلق عائد پابندی کو ہٹا لیا ہے۔ جرمن حکومت نے پیر کے روز اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو فوجی آلات کی برآمدات پر عائد اپنی پابندیاں ہٹا رہی ہے۔ یہ اعلان اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہونے کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔
حماس اور غزہ کے درمیان شروع ہوئے تنازعہ کے بعد چانسلر فریڈرک میرج نے اگست کے شروع میں کہا تھا کہ برلن اسرائیل کو کسی بھی ایسے فوجی ساز و سامان کے برآمد کی اجازت نہیں دے گا جو غزہ میں استعمال ہوسکتا ہو۔ یہ فیصلہ اسرائیلی کابینہ کے غزہ سٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے اقدام کے جواب میں لیا گیا تھا۔
میرج کے ترجمان سیباسچن ہیلے نے بتایا کہ یہ پابندیاں 24 نومبر سے ہٹا دی جائیں گی۔ ہیلے نے باقاعدہ سرکاری پریس بریفنگ میں کہا کہ ’’10 اکتوبر سے غزہ میں جنگ بندی نافذ ہے اور صورتحال مستحکم ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم امید کرتے ہیں تمام فریق اُن معاہدوں پر عمل کریں گے جن پر اتفاق کیا گیا ہے، جس میں جنگ بندی برقرار رکھنا، بڑے پیمانے پر انسانی امداد فراہم کرنا اور عمل کو منظم انداز میں جاری رکھنا شامل ہے۔‘‘ ہیلے نے کہا کہ پابندیاں ہٹنے کے بعد جرمنی فوجی برآمدات کا الگ الگ بنیاد پر جائزہ لے گا، جیسا کہ ایسے معاملات میں اس کی عمومی پالیسی ہے۔
اگرچہ اسرائیل اور جرمنی کے درمیان تعلقات مضبوط ہیں اور جرمنی اسرائیل کا بڑا اتحادی سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود جرمنی اُن ممالک میں شامل ہوگیا تھا جنہوں نے اسرائیل کا اتحادی ہونے کے باوجود برآمدات روک دی تھیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گِدیون سار نے پیر کو اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ وہ دیگر حکومتوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ جرمنی کی طرح فیصلہ کریں۔
قابل ذکر ہے کہ اسرائیل اپنی فوجی ضروریات کا تقریباً 70 فیصد حصہ امریکہ سے حاصل کرتا ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ برآمد کرنے والا ملک ہے۔ جرمنی اسرائیل کا دوسرا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ اٹلی تیسرے نمبر پر ہے، جو اسرائیل کی فوجی ضروریات کا ایک فیصد سے بھی کم فراہم کرتا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، 2019 سے 2023 کے درمیان اسرائیل کی مجموعی دفاعی درآمدات کا 30 فیصد حصہ جرمنی نے فراہم کیا تھا۔ جرمنی کی جانب سے برآمد کیے گئے فوجی آلات میں زیادہ تر بحری ساز و سامان شامل تھا۔
رواں سال بی ایس ایف نے پاکستان کے 255 ڈرون تباہ کیے، سینئر افسر نے دی جانکاری
قومی آواز بیورو
ہندوستانی فوج لگاتار پاکستان کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنانے میں مصروف ہے۔ رواں سال بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) نے نشیلی اشیا اور اسلحوں کی اسمگلنگ کے لیے پاکستان سے آئے 255 ڈرون مار گرائے ہیں۔ بی ایس ایف (پنجاب فرنٹیر) کے ایک سینئر افسر نے پیر کے روز یہ جانکاری دی۔ افسر نے کہا کہ آئندہ دنوں میں کہرے کے موسم کو دیکھتے ہوئے سرحد پار سے اسمگلنگ کی سرگرمیوں پر روک لگانے کے لیے نگرانی بڑھا دی گئی ہے۔ بی ایس ایف یہ یقینی بنانے میں لگی ہے کہ ہندوستانی سرحد آسمان سے لے کر زمین تک محفوظ رہے۔
قابل ذکر ہے کہ پاکستان بڑھتی ٹھنڈ اور کہرے کی مدد لے کر سرحد پر اسمگلنگ جیسی سرگرمیاں بڑھا سکتا ہے۔ امرتسر میں میڈیا سے بات چیت میں بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل اتل پھلجیلے نے کہا کہ کہرے کے موسم میں کم دوری تک دکھائی دیتا ہے، جس کا فائدہ اسمگلر ڈرون کے ذریعہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسمگلر اکثر سردیوں میں کہرے کا فائدہ اٹھا کر ہندوستانی سرحد میں اسمگلنگ کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
اتل نے بتایا کہ ہم نے اس مسئلہ کا حل نکالنے کے لیے ضروری انتظامات کر لیے ہیں۔ کہرے کے دوران خصوصی نگرانی کرنے والی مشینوں کا استعمال کیا جائے گا اور ہم ندی والے علاقوں کی سخت نگرانی بنائے رکھیں گے، جس سے ہماری مجموعی نگرانی کا انتظام اچھا رہے گا۔
واضح رہے کہ پہلگام حملہ کے جواب میں ہندوستانی فوج کی طرف سے کیے گئے ’آپریشن سندور‘ میں سرحد سے ملحق کئی دہشت گرد ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ خبروں کے مطابق ہندوستان کی اس کارروائی میں تقریباً 100 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔ آپریشن سندور نے پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تھی۔ اب دہشت گرد ڈرون کی مدد سے اسمگلنگ کی کوشش کر سکتے ہیں اور کئی مواقع پر فوج نے ڈرون کو تباہ بھی کیا ہے۔
سعودی عرب پر خوب مہربان ہو رہے امریکی صدر ٹرمپ، مہمان نوازی سے پہلے ہی ولی عہد کو پیش کیا تحفہ!
قومی آواز بیورو
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان جلد ہی امریکہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔ ولی عہد کے اس دورہ سے پہلے ہی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی سرکاری آمد سے قبل واشنگٹن سعودی عرب کو ایف-35 جنگی طیارے فروخت کرے گا۔ جب وہائٹ ہاؤس سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ ریاض کو ان طیاروں کی فروخت سے متعلق اجازت دے گا، تو ٹرمپ نے کہا کہ ہاں، ہم ایسا کریں گے۔ ہم ایف-35 فروخت کریں گے۔ وہ ہمارے بہترین ساتھی رہے ہیں۔
ٹرمپ کی یہ منظوری ’نیویارک ٹائمز‘ کی اس رپورٹ کے باوجود سامنے آئی ہے، جس میں امریکی حکام نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ معاہدہ آگے بڑھا تو چین کو اس جدید جنگی طیارے کی ٹیکنالوجی تک رسائی مل سکتی ہے۔ امریکہ نے اب تک صرف اپنے قریبی اتحادیوں، جن میں یورپ کے چند ممالک شامل ہیں، کو ہی ایف-35 جنگی طیارے فروخت کرنے کی اجازت دی ہے۔ سعودی عرب طویل عرصہ سے ان طیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے 2019 میں ترکی کو ایف-35 پروگرام سے باہر کر دیا تھا، کیونکہ ترکی کی جانب سے روس کا ایئر ڈیفنس سسٹم خریدنے کے بعد یہ خدشہ پیدا ہوا تھا کہ ماسکو اس طیارے کی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
بہرحال، سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ دورہ 18 برسوں میں پہلا امریکی دورہ ہوگا۔ اس سے قبل صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے 600 ارب ڈالر پر مشتمل کچھ وعدے کیے تھے۔ اب امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ محمد بن سلمان کے دورۂ امریکہ میں واشنگٹن اور ریاض کے درمیان کئی اہم معاملات زیرِ بحث آئیں گے۔ طویل عرصہ سے دونوں ممالک کے درمیان یہ مفاہمت رہی ہے کہ سعودی عرب فائدہ مند قیمتوں پر تیل فراہم کرے اور بدلے میں امریکہ سیکیورٹی فراہم کرے۔
*www.bhatkalnews.com*
*Shams Science Exhibition*
*شمس کیمپس میں منعقد ہوگا اپنی نوعیت کا ایک منفرد سائنس ایگزیبیشن*
بھٹکل نیوز، بھٹکل:
آج مورخہ 18 نومبر 2025، منگل کو شمس پی یو کالج، جامعہ آباد روڈ بھٹکل میں آئندہ منعقد ہونے والے 2nd Bhatkal Science Exhibition سائنس ایگزیبیشن کے سلسلے میں ایک اہم پریس میٹ منعقد کی گئی، جس میں بھٹکل کے متعدد صحافیوں نے شرکت کی۔
پریس میٹ سے خطاب کرتے ہوئے کالج کے ذمہ داران خصوصا پرنسپل لیاقت علی اور جناب محمد رضا ما نوی صاحب نے بتایا کہ سائنس میلہ 20 نومبر 2025 کو شمس پی یو کالج اور A.J. Academy Raichur کے مشترکہ تعاون سے منعقد کیا جائے گا۔ اس ایگزیبیشن میں مختلف اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ اپنے سائنسی ماڈلز، تحقیقی پروجیکٹس اور جدید ٹیکنالوجی سے متعلق نمائشیں پیش کریں گے۔
ذمہ داران نے مزید کہا کہ اس سائنسی میلے کا مقصد طلبہ میں تخلیقی رجحانات، تحقیقی سوچ اور سائنسی شعور کو فروغ دینا ہے۔ پروگرام میں “سائنس اینڈ انویشن” کے عنوان سے مختلف سرگرمیوں، ڈیمونسٹریشنز اور ماڈل پریزنٹیشنز کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
پریس میٹ کے دوران میڈیا نمائندوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انتظامیہ نے بتایا کہ
یہ ایگزیبیشن سائنس اور سماجی مسائل کا ایک حسین امتزاج ہوگا۔اس ایگزیبیشن میں جملہ 46 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ امسال سائنس فیر میں طلبہ کے درمیان مقابلہ بھی رکھا گیا ہے اور بہترین سائنس ماڈل پیش کرنے والے طلبہ کو خصوصی انعامات دیے جائیں گے۔ کالج پرنسپل جناب لیاقت علی صاحب نے یہ واضح کیا کہ یہ سائنس ایگزیبیشن دیگر ایگزیبیشن کی طرح سے روایتی انداز میں نہیں ہوگا بلکہ اس ایگزیبیشن کے ذریعے سے طلباء کی سائنسی اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ ہوگا جس کے لیے وہ دو مہینوں سے مسلسل کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
پریس میٹ کے اختتام پر شمس پی یو کالج نے تمام صحافی حضرات کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ مقامی میڈیا اس تعلیمی اور سائنسی سرگرمی کو بھرپور انداز میں عوام تک پہنچائے گا۔
— رپورٹ: بھٹکل نیوز ایڈیٹر ڈیسک
*18/11/2025*
0 تبصرے