کانگریس نے 18 نومبر کو ’ایس آئی آر‘ والی 12 ریاستوں کے اعلیٰ عہدیداروں کی میٹنگ طلب کی



قومی آواز بیورو


بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج اور ووٹ چوری کے معاملے کے دوران کانگریس نے 18 نومبر کو ان 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے انچارجوں، ریاستی یونٹ کے سربراہوں، کانگریس قانون ساز پارٹی کے لیڈران اور سکریٹریوں کی ایک جائزہ میٹنگ بلائی ہے، جہاں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظر ثانی (ایس آئی آر) کا عمل جاری ہے۔



واضح ہو کہ بہار اسمبلی انتخاب کے حالیہ نتائج میں بی جے پی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) نے 202 سیٹوں پر جیت حاصل کی۔ جبکہ کانگریس کی قیادت والے عظیم اتحاد کو صرف 35 سیٹیں آئیں۔ حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی اور کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے سمیت پارٹی کے سرکردہ لیڈران کی ہفتہ (15 نومبر) کو ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج کا جائزہ لیا گیا ساتھ ہی الیکشن کمیشن (ای سی) کے کردار پر بھی سوال اٹھایا گیا۔




کانگریس پارٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کے انچارجوں، ریاستی کانگریس کمیٹی کے سربراہوں، کانگریس قانون ساز پارٹی (سی ایل پی) کے لیڈران اور ان 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے سکریٹریوں کی ایک جائزہ میٹنگ 18 نومبر کو اندرا بھون میں منعقد ہوگی۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے ہفتہ کے روز کہا کہ 9 ریاستوں اور 3 مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 5.99 کروڑ ووٹرس میں سے 95 فیصد کو ایس آئی آر عمل کے تحت فارم فراہم کرائے جا چکے ہیں۔


اس درمیان اپنے روزانہ ایس آئی آر بلیٹن میں، الیکشن کمیشن نے کہا کہ 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں - چھتیس گڑھ، گوا، گجرات، کیرالہ، مدھیہ پردیش، راجستھان، تمل ناڈو، اتر پردیش، مغربی بنگال، پڈوچیری، انڈمان اور نکوبار جزائر اور لکشدیپ میں 48.67 کروڑ سے زیادہ فارم تقسیم کیے گئے ہیں۔ ان میں سے تمل ناڈو، پڈوچیری، کیرالہ اور مغربی بنگال میں 2026 میں انتخابات ہوں گے۔






بہار کے انتخابی نتائج پر ادھو ٹھاکرے کا طنز- ’کیا تیجسوی کی ریلیوں میں اے آئی سے بھیڑ اکٹھی ہوئی تھی؟‘



قومی آواز بیورو


بہار میں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی جیت پر شیوسینا (یو بی ٹی) کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کا پہلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے این ڈی اے کی جیت پر طنز کستے ہوئے کہا کہ آخر اس جیت کا راز کیا ہے؟ ویسے جو جیتا وہی سکندر کہلاتا ہے، لیکن اس جیت کا راز اب تک کوئی سمجھ نہیں پایا ہے۔ کئی بار سمجھانے کی کوشش کی گئی، اس کے بعد بھی این ڈی اے کی اس جیت پر ایک طرح سے سوال کھڑے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔



ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ بہار میں آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کی ریلیوں میں لوگوں کی بھاری بھیڑ نظر آتی تھی۔ لیکن بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج بالکل اس کے برعکس رہے۔ ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا تیجسوی یادو کی ریلیوں میں آنے والے لوگوں کی بھیڑ واقعی ’اے آئی‘ سے بنائی گئی تھی؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہاں لوگ روزانہ مشکلوں کا سامنا کرتے ہیں، لیکن اتنی جلدی اپنا ارادہ نہیں بدل سکتے ہیں۔




شیوسینا (یو بی ٹی) کے سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم صرف بہار میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں الیکشن کمیشن سے سوال کر رہے ہیں۔ ان کے طریقۂ کار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے مرکزی حکومت سے بھی مسلسل سوال پوچھے جا رہے ہیں۔ ہم نے حال ہی میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے، الیکشن کمیشن کے افسران کے سامنے اپنا احتجاج بھی درج کرایا، لیکن اب تک ہمیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ کیا اس عمل کو جمہوری تصور کیا جانا چاہیے؟


ادھو ٹھاکرے کے مطابق بہار اسمبلی انتخاب کے دوران این ڈی اے کی ریلیوں میں کرسیاں خالی رہیں، پھر بھی انہوں نے حکومت بنا لی۔ یہ واقعی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 10 ہزار روپے دینا ایک بات ہے، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے۔ عوام اتنی آسانی سے اپنا ارادہ نہیں بدلتی ہے۔ مہاراشٹر میں بھی بڑے پیمانے پر ووٹنگ کے بعد انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ سب سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا تھا۔ بہار میں اسی طرح کا کھیل کھیلا گیا ہے۔






امریکہ غزہ کا انتظام فلسطینیوں کے ہاتھ میں دے گا: امریکی مندوب



قومی آواز بیورو


امریکی مندوب مائیک والٹز نے اقوامِ متحدہ میں سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کو اپنائے اور واضح کیا کہ امریکی قرار داد واشنگٹن کے امن کے عزم کی تجدید ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پیر کے دن امریکی قرار داد پر ووٹ دے گی، جو ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے سے متعلق ہے۔


والٹز نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا کہ امریکی قرار داد سے غزہ کی حکومت فلسطینی عوام کے ہاتھ میں ہوگی، نہ کہ حماس کے عسکری ونگ کے ہاتھ میں ہوگی۔والٹز نے غزہ میں امن کونسل کے کام کے حوالے سے کہا کہ یہ عبوری مدت ہوگی اور تجویز کردہ کونسل تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ قرار داد کے تحت یہ کونسل اس وقت اپنے فرائض انجام دے گی جب اتھارٹی اپنے اصلاحی وعدے پورے کرے گی اور ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کی حمایت بھی کرے گی۔




برطانیہ نے بھی امریکی قرار داد کی مکمل حمایت کی اور اپنے مشن کے بیان میں کہا کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ متحد ہے۔ برطانوی محکمہ خارجہ نے امکان ظاہر کیا کہ امریکی قرار داد منظور ہو جائے گی، جس میں غزہ میں ایک بین الاقوامی فورس کے قیام کی تجویز شامل ہے۔


روس کے مشن نے اقوامِ متحدہ میں کہا کہ اس نے امریکی صدر کے غزہ منصوبے کے متبادل کے طور پر اپنی قرار داد پیش کی ہے اور وضاحت کی کہ امریکی منصوبہ بنیادی حل طلب نکات، خاص طور پر دو ریاستی حل، کو نظر انداز کرتا ہے۔




روسی مشن نے کہا کہ ان کی قرار داد امریکی تجویز سے متصادم نہیں، بلکہ اسے اقوامِ متحدہ کے منظور شدہ فیصلوں کے مطابق ڈھالنے اور بین الاقوامی ثالثی کے کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے، جس نے جنگ بندی میں مدد کی۔


برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امریکی فوج غزہ کو طویل مدت میں دو حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ پہلا حصہ "سبز" ہوگا، جہاں تعمیر نو کی کارروائی شروع ہوگی اور دوسرا "سرخ" حصہ فلسطینیوں کے ہاتھ میں رہے گا۔دی گارڈین کے مطابق غیر ملکی افواج "سبز" علاقے میں اسرائیلی فوج کے ساتھ تعینات ہوں گی، جو غزہ کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ یہ عمل وقت طلب اور آسان نہیں ہوگا۔ (بشکریہ نیوز پورٹل ’العربیہ ڈاٹ نیٹ، اردو‘)







ٹرمپ نے پندرہ ہزار فوجی تعینات کئے، وینزویلا پر کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے



قومی آواز بیورو


امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے جنوبی امریکی ملک وینزویلا کے ساتھ تنازع کی خبریں شروع سے ہی گردش کر رہی ہیں۔ دریں اثنا، ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ انہوں نے وینزویلا میں اس ہفتے کئی اعلیٰ سطحی بریفنگ اور خطے میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کے نمائش کے بعد کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سی این این نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ حکام نے رواں ہفتے ٹرمپ کو وینزویلا میں فوجی کارروائیوں کے آپشنز سے آگاہ کیا جس کا مقصد نکولس مادورو کو اقتدار سے ہٹانا ہے۔


سی این این کے مطابق امریکی فوج نے پینٹاگون کی طرف سے نامزد کردہ آپریشن سدرن اسپیئر کے تحت ایک درجن سے زائد جنگی جہاز اور 15000 فوجی کیریبین کے علاقے میں تعینات کیے ہیں۔ وہ حملے کے حتمی احکامات کے منتظر ہیں۔ ٹرمپ نے جمعہ کے روز اشارہ کیا کہ وہ تارکین وطن اور منشیات کے بہاؤ کو کم کرنے اور حکومت کی تبدیلی کے امکان کے لیے اپنی کوششوں کے قریب جا رہے ہیں۔




ایئر فورس ون میں سوار صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے اپنا ذہن بنا لیا ہے، وہ آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ کیا ہو گا لیکن انہوں نے کسی حد تک اپنا ذہن بنا لیا ہے۔ سی این این کے مطابق، حکام کے ایک چھوٹے سے گروپ، بشمول وزیر دفاع اور چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے بدھ کے روز صدر کو وینزویلا پر حملے کے بارے میں آگاہ کیا۔


ایک امریکی اہلکار کے مطابق وزیر خارجہ مارکو روبیو اور دیگر اعلیٰ حکام نے جمعرات کو ٹرمپ سے سچویشن روم میں ملاقات کی۔ سی این این کے مطابق، ان ملاقاتوں میں وینزویلا کے فوجی اڈوں، سرکاری تنصیبات اور منشیات کی اسمگلنگ کے راستوں پر فضائی حملوں سے لے کر صدر نکولس مادورو کو براہ راست نشانہ بنانے کے آپشنز شامل تھے۔




سی این این کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ کو کیریبین کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے جس سے صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔ 15,000 سے زیادہ فوجیوں کی تعیناتی، ایک درجن سے زیادہ جنگی جہاز، کروزر، ڈسٹرائر، حملہ آور بحری جہاز، اور ایک حملہ آبدوز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ نہ صرف دباؤ کی حکمت عملی پر غور کر رہا ہے بلکہ ممکنہ فوجی آپریشن کی حقیقی تیاریوں پر بھی غور کر رہا ہے۔وینزویلا نے بھی فوجی ہتھیاروں، سازوسامان اور فوجیوں کی بڑے پیمانے پر تعیناتی کی ہے۔






’اگر انتخاب مکمل طور پر آزادانہ اور منصفانہ ہوتے تو مزید سیٹوں پر فتح حاصل ہوتی‘، بہار انتخابی نتائج پر مایاوتی کا ردعمل



قومی آواز بیورو


بہار اسمبلی انتخابی نتائج کے متعلق بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی سربراہ مایاوتی کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے بہار انتخاب کی شفافیت پر سوال اٹھایا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر انہوں نے لکھا کہ ’’بہار اسمبلی کے حال ہی میں ختم ہوئے عام انتخاب میں کیمور ضلع کی رام گڑھ اسمبلی سیٹ نمبر 203 پر بی ایس پی کے امیدوار ستیش کمار سنگھ یادو کو جیت دلانے کے لیے پارٹی کے تمام اراکین کو مبارکباد اور ان کا تہ دل سے شکریہ۔‘‘ واضح رہے کہ بی ایس پی امیدوار ستیش کمار سنگھ یادو کو 72698 ووٹ ملے تھے اور دوسرے نمبر پر رہے بی جے پی اکے امیدوار اشوک کمار سنگھ 72659 ووٹ ملے تھے، جیت و ہار میں صرف 30 ووٹوں کا فرق تھا۔



مایاوتی نے پوسٹ میں آگے لکھا کہ ’’حالانکہ ووٹوں کی گنتی بار بار کرانے کے بہانے سے وہاں کی انتظامیہ اور تمام اپوزیشن پارٹیوں کے ذریعہ بی ایس پی کے امیدوار کو شکست دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن پارٹی کے بہادر کارکنان کی وجہ سے مخالفین کی یہ سازش کامیاب نہ ہو سکی۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ ’’اتنا ہی نہیں بلکہ بہار کے اس خطہ کی دیگر سیٹوں پر بھی مخالفین کو کانٹے کی ٹکر دینے کے باوجود بی ایس پی امیدوار جیت حاصل نہیں کر پائے۔ جبکہ فیڈ بیک کے مطابق اگر انتخاب مکمل طور پر آزادانہ اور منصفانہ ہوتے تو بی ایس پی یقینی طور پر مزید کئی سیٹیں جیت لیتی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ سے پارٹی کے لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مستقبل میں مزید تیاری کے ساتھ کام کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘




مایاوتی نے پوسٹ کے اخیر میں لکھا کہ بہار اسمبلی کے رواں انتخاب میں اپنے خون پسینے اور پوری محنت و لگن سے انتخاب لڑنے کے لیے بی ایس پی کے تمام چھوٹ بڑے عہدیداران، کارکنان اور خیر خواہوں کا تہ دل سے شکریہ۔ ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ میں اپنے تمام کارکنان و لیڈران سے اپیل کرتی ہوں کہ بہار میں پورے خلوص سے کام کرتے رہیں۔ تاکہ بہار قابل احترام ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور کانشی رام جی کے خوابوں ’سب کی خوشی اور سب کی بھلائی‘ کی سرزمین بن سکے۔






نیشنل پریس ڈے: ’میڈیا جمہوریت کی آخری دفاعی صف ہے‘، وزیر اعلیٰ تمل ناڈو ایم کے اسٹالن کا پیغام



قومی آواز بیورو


چنئی: نیشنل پریس ڈے کے موقع پر وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اتوار کے روز میڈیا کی آزادی کو جمہوریت کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں صحافت کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے یہ بات سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک سخت لہجے میں لکھی گئی اپنی پوسٹ میں کہی، جس میں انہوں نے میڈیا کو ’جمہوریت کی آخری دفاعی صف‘ قرار دیا۔


انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے حالیہ سیاسی ماحول میں کئی ایسے ادارے موجود ہیں جنہیں، ان کے مطابق، مرکز کی حکومت نے یا تو کمزور کر دیا ہے یا ان پر عملی طور پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ایسے حالات میں آزاد میڈیا کا وجود نہ صرف ضروری ہے بلکہ ناگزیر ہو جاتا ہے، کیونکہ یہی وہ قوت ہے جو اقتدار کے دباؤ کے باوجود جمہوری اقدار کو زندہ رکھتی ہے۔


وزیر اعلیٰ اسٹالن نے ان صحافیوں کی دل سے ستائش کی جو دھمکیوں، سیاسی دباؤ، قانونی ہتھکنڈوں اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوششوں کے باوجود عوامی اہمیت کے مسائل پر بلا جھجک رپورٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافت کی یہی بے خوف روش جمہوریت کی روح کو قائم رکھتی ہے اور عوام کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کرتی ہے۔


اپنی پوسٹ میں اسٹالن نے اس بات پر زور دیا کہ صحافت کا کام اکثر نہایت چیلنج بھری صورتِ حال میں انجام پاتا ہے۔ زمینی حقائق تک رسائی، طاقتور حلقوں کی ناراضگی مول لینے کا خطرہ، اور مختلف طرح کی معاشرتی و سیاسی رکاوٹیں صحافیوں کے راستے میں مستقل حائل رہتی ہیں۔ اس کے باوجود، وہ اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے حکمرانی میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔




انہوں نے کہا کہ اگر میڈیا کی نگرانی، جانچ پڑتال اور سوال پوچھنے کی روایت کمزور پڑ جائے تو جمہوری نظام کی کارکردگی پر شدید منفی اثرات پڑیں گے۔ اسی لیے ایک آزاد، متحرک اور زندہ میڈیا صرف ایک نظریاتی ضرورت نہیں بلکہ عملی تقاضہ ہے، کیونکہ یہی عوام کو وہ معلومات فراہم کرتا ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنی سیاسی اور سماجی رائے قائم کرتے ہیں۔


وزیر اعلیٰ اسٹالن نے متنبہ کیا کہ پریس کی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق، یہ آزادی ہر قیمت پر محفوظ رکھی جانی چاہیے، کیونکہ یہی آئین کی روح کو زندہ رکھنے اور شہریوں کو باخبر رکھنے کا واحد راستہ ہے۔