نتیش کمار کو مبارکباد، لیکن اس جیت میں پی ایم مودی کا کوئی کردار نہیں: پپو یادو
قومی آواز بیورو
پورنیہ سے آزاد رکن پارلیمنٹ پپو یادو نے بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ’اے بی پی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے نتیش کمار کو جیت کی مبارک باد دی اور کہا کہ ’’اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کا کوئی کردار نہیں ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے وزیر اعظم کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کو راہل گاندھی کے فوبیا اور کانگریس سے فرصت نہیں ملتی ہے۔ یہ 400 پار بھی ہو رہے تھے۔ یہ گمچھا لہرا رہے تھے۔ کیا یہ وزیر اعظم کا وقار ہے؟ جو وزیر اعظم ہجرت نہیں روک پائے اور فیکٹری نہیں لگا پائے۔‘‘
پپو یادو کا کہنا ہے کہ بہار سے بنگال اور آسام بچانا ہے۔ میں بغیر کسی ذات و مذہب کی سیاست کرتا ہوں۔ مجھے سیمانچل پر مکمل بھروسہ تھا لیکن ہم اس کا اندازہ نہیں لگا پائے یہی ہماری غلطی ہو گئی۔ ہم اپنی غلطی قبول کرتے ہیں۔ راہل گاندھی کی ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کے بعد ہم ایک ماہ خاموش رہے، یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’عوام کو پیسہ ووٹ کے لیے دیا۔ نوجوان ان کے ساتھ نہیں تھے، جے ڈی یو پر بی جے پی کی نظر گدھ جیسی ہے۔ ایس آئی آر ہوا، ووٹ کاٹے گئے۔ دونوں نائب وزرائے اعلیٰ کو یکساں (تقریباً 1.22 لاکھ) ووٹ ملے۔ آج ہم اپنی غلطی قبول کریں گے۔ ہم تقسیم کی سیاست نہیں کرتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ 14 نومبر کو ووٹوں کی گنتی کے دوران بھی پپو یادو نے رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے این ڈی اے کو بھاری اکثریت ملنے کو بدقسمتی قرار دیا تھا۔ پپو یادو نے کہا تھا کہ جو ہو رہا ہے اسے ہمیں قبول کرنا ہوگا، لیکن یہ بہار کے لیے بدقسمتی کی بات ہوگی۔ میں ووٹرس سے کچھ نہیں کہہ سکتا اور میں ان کے فیصلے کا استقبال کروں گا۔
قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، این ڈی اے نے 202 سیٹیں جیتی ہیں، جب کہ مہاگٹھ بندھن کو صرف 35 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہو پائی ہے۔ مہاگٹھ بندھن میں شامل آر جے ڈی کو 25، کانگریس کو 6، بائیں بازو کی پارٹیوں کو 3، اور آئی آئی پی کو ایک سیٹ پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جبکہ مکیش سہنی کی پارٹی وی آئی پی ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
سابق مرکزی وزیر آر کے سنگھ کو بی جے پی نے بھیجا ’وجہ بتاؤ نوٹس‘، جواب میں پارٹی کی بنیادی رکنیت سے دیا استعفیٰ
قومی آواز بیورو
بہار اسمبلی انتخاب 2025 میں بھاری اکثریت سے جیت حاصل کرنے کے بعد بی جے پی نے بہار کے آرہ سے رکن پارلیمنٹ رہے راج کمار سنگھ کو ایک نوٹس بھیجا، جس میں سوال کیا گیا کہ انھیں پارٹی سے کیوں نہ نکال دیا جائے؟ ان پر پارٹی مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے اور اس سلسلے میں انھیں ’وجہ بتاؤ نوٹس‘ جاری کیا گیا ہے۔ جواب میں آر کے سنگھ نے ہفتہ (15 نومبر) کو بی جے پی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے اس تعلق سے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کو بھی خط لکھا ہے۔ دراصل سابق مرکزی وزیر کو بی جے پی کے بہار اسٹیٹ ہیڈکوارٹر کے انچارج اروند شرما کی جانب سے ہفتہ کو ایک خط جاری کیا گیا۔ خط میں کہا گیا کہ آپ کی سرگرمیاں پارٹی مخالف ہیں، یہ نضم و ضبط کے دائرے میں آتا ہے۔ پارٹی نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے، اس سے پارٹی کو نقصان ہوا ہے۔ اس لیے ہدایت کے مطابق آپ کو پارٹی سے معطل کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی آپ کو وجہ بتانی ہے کہ آپ کو پارٹی سے کیوں نہ نکالا جائے؟ اور آر کے سنگھ سے ایک ہفتہ کے اندر جواب طلب کیا گیا۔
آر کے سنگھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کو بھیجے گئے خط کو شیئر کیا۔ انہوں نے خط میں لکھا کہ ’’عزت مآب نڈا جی، مجھے کچھ لوگوں کی جانب سے ایک خط بھیجا گیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ مجھے پارٹی مخالف سرگرمیوں میں شامل ہونے کے سبب معطل کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے اور مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ مجھے پارٹی سے کیوں نہ نکالا جائے۔ لیکن اس خط میں اس بات کو واضح نہیں کیا گیا کہ میں نے ایسا کون سا پارٹی مخالف کام کیا ہے، جس کا مجھ پر الزام عائد کیا گیا ہے۔ کیونکہ مجھے میرے خلاف عائد کیے گئے الزامات کا علم نہیں ہے، اس لیے میں اس کی وجہ نہیں بتا سکتا۔‘‘
آر کے سنگھ کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ نوٹس میرے اس بیان کے لیے جاری کیا گیا ہو، جس میں میں نے مجرمانہ پس منظر والے لوگوں کو ٹکٹ نہ دینے کی بات کہی تھی۔ وہ بیان پارٹی مخالف نہیں تھا۔ میرا بیان قوم و سماج کے مفاد میں تھا اور پارٹی کو مجرمانہ سیاست سے روکنے اور بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ پارٹی میں کچھ لوگ میری اس بات سے بے چین ہو گئے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا جواب ریاست بہار کے بی جے پی انچارج کو بھیج دیا ہے اور میں بی جے پی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔
سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے کیا ایک بڑا خلاصہ، آدھار کارڈ سے نہیں ہوگی شہریت ثابت
سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے کیا ایک بڑا خلاصہ، آدھار کارڈ سے نہیں ہوگی شہریت ثابت سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے کیا ایک بڑا خلاصہ، آدھار کارڈ سے نہیں ہوگی شہریت ثابت
انتخابی نظام سے متعلق ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ بہار کی ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے دوران آدھار کارڈ کا استعمال صرف اور صرف شناخت کی توثیق کے لیے کیا جائے گا، شہریت کے ثبوت کے طور پر نہیں۔
کمیشن نے بتایا کہ 8 ستمبر کے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ آدھار کارڈ شہریت، ڈومیسائل یا تاریخِ پیدائش کا ثبوت نہیں ہے، بلکہ محض شناخت کی تصدیق کا ذریعہ ہے — جیسا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعہ 23(4) میں بیان کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نو ستمبر 2025 کو بہار کے چیف الیکٹورل آفیسر کو باقاعدہ ہدایات جاری کر دی گئی تھیں کہ ووٹر لسٹ میں نام شامل یا خارج کرتے وقت آدھار کا استعمال صرف شناخت ثابت کرنے کے لیے ہی کیا جائے۔
اسی معاملے میں ایڈووکیٹ اشونی کمار اُپادھیائے نے ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ آدھار کو صرف شناخت کی توثیق تک محدود رکھا جائے۔ کمیشن نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ یو آئی ڈی اے آئی نے اگست 2023 میں اپنے سرکاری میمورنڈم میں واضح کر دیا تھا کہ آدھار نہ تو شہریت کا ثبوت ہے، نہ رہائش کا، اور نہ ہی تاریخ پیدائش کا۔
اسی نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بمبئی ہائی کورٹ نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سات اکتوبر کو اس درخواست پر نوٹس جاری کیا تھا، اور بینچ نے واضح کیا کہ آدھار کو شہریت یا ڈومیسائل کا ثبوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ اہم وضاحت انتخابات کے شفاف اور درست عمل کو یقینی بنانے کے لیے ایک نہایت معنی خیز قدم تصور کی جا رہی ہے۔
20 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی بی جے پی کو ملیں 89 سیٹیں، پھر 23 فیصد ووٹ والی آر جے ڈی کو محض 25 کیوں؟
قومی آواز بیورو
بہار اسمبلی انتخاب کے نتیجہ نے سبھی کو حیران کر دیا ہے۔ این ڈی اے میں جہاں جشن کا ماحول ہے، وہیں مہاگٹھ بندھن میں شامل پارٹیاں حواس باختہ ہیں۔ شکست فاش کا سامنا کرنے والی مہاگٹھ بندھن کی پارٹیاں انتخابی نتائج کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ آخر کارکردگی اتنی خراب کیوں رہی! اس درمیان عوام بھی نتائج کے بعد سامنے آئے حقائق پر اپنی نظر ڈال رہے ہیں۔ انتخابی نتیجہ کے بعد ایک بڑی بات یہ سامنے آئی ہے کہ آر جے ڈی نے سب سے زیادہ 23 فیصد ووٹ شیئر حاصل کیے ہیں۔ بی جے پی اس معاملے میں دوسرے مقام پر ہے، جسے 20 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ یعنی آر جے ڈی کو بی جے پی کے مقابلے 3 فیصد زیادہ ووٹ ملے۔ اس کے باوجود آر جے ڈی کو حاصل سیٹوں کی تعداد محض 25 اور بی جے پی کو حاصل سیٹوں کی تعداد 89 ہے۔
سیٹوں میں اتنے بڑے فرق کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آر جے ڈی نے تنہا 143 اسمبلی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے، جنھوں نے مجموعی طور پر 23 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی نے صرف 101 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے، جن کا مجموعی ووٹ شیئر 20 فیصد رہا۔ یعنی آر جے ڈی کا ووٹ شیئر زیادہ ہونے کے باوجود سیٹوں کی کم تعداد اس لیے رہی، کیونکہ اس نے 42 زائد اسمبلی حلقوں کا ووٹ بھی حاصل کیا۔ حالانکہ 2020 کے اسمبلی انتخاب میں آر جے ڈی نے 144 اسمبلی حلقوں میں امیدوار اتار کر 23.11 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ یعنی پچھلی بار کے مقابلے اس بار آر جے ڈی کا ووٹ فیصد 0.11 کم ہوا ہے۔
بی جے پی کے ووٹ شیئر کی بات کریں تو پچھلی بار کے مقابلے تازہ اسمبلی انتخاب میں یہ 19.46 سے بڑھ کر 20.08 فیصد ہو گیا ہے۔ گزشتہ بار بی جے پی نے 110 اسمبلی حلقوں میں اپنے امیدوار اتارے تھے، اس کے باوجود ووٹ شیئر کم تھا۔ اس بار کم سیٹوں پر امیدوار اتارنے کے باوجود ووٹ شیئر میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کامیاب امیدواروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
’ایس آئی آر اور سرکاری خزانے کے غلط استعمال سے ہوئی مہاگٹھ بندھن کو شکست‘، سی پی آئی ایم ایل رکن اسمبلی کا سنگین الزام
قومی آواز بیورو
بہار اسمبلی انتخاب 2025 میں مہاگٹھ بندھن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مہاگٹھ بندھن کی حلیف پارٹی سی پی آئی ایم ایل، جس نے 2020 میں 12 سیٹوں پرجیت درج کی تھی، اس بار صرف 2 سیٹ ہی جیت پائی ہے۔ پٹنہ کے پالی گنج سے سی پی آئی ایم ایل رکن اسمبلی سندیپ سوربھ نے مہاگٹھ بندھن کی شکست کی سب سے بڑی وجہ ایس آئی آر اور سرکاری خزانے کے غلط استعمال کو بتایا ہے۔
’اے بی پی نیوز‘ سے بات چیت میں سندیپ سوربھ نے کہا کہ ’’انتخاب سے قبل بہار میں جس طرح ایس آئی آر ہوا، اس میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئیں ہیں۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے الزام عائد کیا کہ جتنے لوگوں کا نام حذف کیا گیا ہے، اس سے زیادہ نام حکمراں جماعت کے لیڈران نے شامل کرا دیے ہیں۔ رکن اسمبلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ کس کا نام شامل ہوا اور کس کا نام حذف ہوا، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ باہری لوگوں کا نام بڑے پیمانے پر شامل کیا گیا۔ سندیپ سوربھ کے مطابق ایس آئی آر عمل کا استعمال انتخابی فائدے کے لیے کیا گیا، جس کی وجہ سے کئی جگہوں پر ووٹ کا توازن بدل گیا۔
سندیپ سوربھ نے کہا کہ لالو-تیجسوی اور مہاگٹھ بندھن کی شکست کی دوسری بڑی وجہ سرکاری خزانے کا غلط استعمال بھی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ انتخاب سے عین قبل خواتین کے کھاتوں میں 10000 روپے بھیجے گئے۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ یہ پیسے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (مثالی ضابطہ اخلاق) نافذ ہونے کے بعد بھی پیسے بھیجے گئے، الیکشن کمیشن نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ یہ براہ راست انتخابی فائدہ حاصل کرنے کے ارادے سے اٹھایا گیا قدم تھا، جس کا نتیجہ انتخاب میں واضح طور پر نظر آیا۔
سندیپ سوربھ نے ایک اور بڑا دعویٰ کیا کہ این ڈی اے لیڈاران نے انتخاب کے دوران کھلے طور پر پیسے تقسیم کیے۔ اپوزیشن نے اس کی شکایت بھی کی، لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ رکن اسمبلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ این ڈی اے کو خود بھی امید نہیں تھی کہ انہیں اتنی سیٹیں ملیں گی، لیکن سرکاری مشینری کی مدد سے انتخاب کا پورا ماحول بدل دیا گیا۔ سی پی آئی ایم ایل رکن اسمبلی کے مطابق یہ انتخاب بہار کے جمہوری عمل کے لیے ایک اشارہ ہے کہ سرکاری وسائل کے غلط استعمال کا اثر کتنا بڑا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ مہاگٹھ بندھن کی شکست صرف سیاسی نہیں، بلکہ انتظامی عدم توازن کا نتیجہ ہے۔
’ڈبل سنچری... یہ بات ہضم نہیں ہو رہی، میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں‘، بہار کے انتخابی نتائج سے اکھلیش یادو حیران
قومی آواز بیورو
بہار اسمبلی انتخاب 2025 میں این ڈی اے 202 سیٹوں پر تاریخی فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ مہاگٹھ بندھن کے لیے انتخابی مہم میں حصہ لینے والے سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کا بہار کے انتخابی نتائج پر ردعمل سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخاب میں جیت ہار سے ہم سب سبق سیکھتے ہیں۔ ہفتہ (15 نومبر) کو بنگلورو میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’این ڈی اے نے 202 سیٹیں جیتی ہیں، ڈبل سنچری... یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ اگر 200 سیٹ آ سکتی ہے، تو جس ریاست میں زیادہ سیٹیں ہیں تو وہاں 80-70 فیصد سیٹیں جیت سکتے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ دیگر پارٹیاں بھی 90 فیصد لوگوں کے ساتھ کام کر کے ان سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔ اگر یہ بنچ مارک ہے تو اسے کراس کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
جب اکھلیش یادو سے پوچھا گیا کہ بہار کے انتخابی نتیجہ سے کیا سبق حاصل ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں لوگوں نے ہار سے سیکھا ہے اور ہار سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ جب آپ بالکل نیچے پہنچ جاتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ وہ اونچائی پر کیسے پہنچے ہیں۔ اکھلیش یادو نے یہ بھی کہا کہ ہم ہارے تھے، ہمیں یاد ہے کہ ہمیں 5 سیٹیں ملی تھیں۔ میں سرکار نہیں بنا پایا اور اس کے بعد ہم نے ان دونوں ڈبل انجن کو شکست دی، ایسی ایسی سیٹوں پر انہیں شکست ہوئی جس کے بارے میں وہ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے۔
اکھلیش یادو نے مزید کہا کہ بہار کی جیت اترپردیش کی جیت کی برابری نہیں کر سکتی ہے۔ یوپی کی جیت الگ جیت ہے، بہار کی جیت الگ جیت ہے۔ آپ بہار جیت سکتے ہیں، لیکن یوپی میں جو شکست ہوئی ہے اس کو جیت میں تبدیل کرنے میں ابھی وقت ہے، اس کے لیے ہم تیار ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن 11 جنوری 2027 کو انتخاب کی تاریخوں کا اعلان کرتا ہے تو ابھی میرے پاس 24-423 دن ہیں اور یوپی میں 403 اسمبلی سیٹ ہیں۔ ہمارے پاس تو 20 ہی روز زیادہ ہیں، ابھی سے ہمیں کام کرنا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بی جے پی کہہ رہی ہے کہ انہیں خواتین نے زیادہ ووٹ کیا ہے۔ اکھلیش یادو نے سوال کیا کہ ’’آخر کب تک وہ خواتین کو 10 ہزار روپے دیں گے۔ کب تک انہیں عزت کی زندگی دیں گے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آپ مقبول ہو سکتے ہیں، ووٹ زیادہ ملے گا۔ لیکن بی جے پی جس طرح چیزوں کو لے کر نچلی سطح تک جاتی ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ اب انہوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ انہیں خواتین سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ لیکن کب تک 10 ہزار روپے دیں گے؟ آپ عزت کی زندگی کب دیں گے؟ آپ انہیں پیسے دے رہے ہو جن کے خاندان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔
اکھلیش یادو نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہار-یوپی جیسی ریاستوں سے زیادہ تر لوگ روزگار کے لیے دوسری ریاستوں میں جاتے ہیں۔ وہ اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر جاتے ہیں، خاندان کے ساتھ خاندان کی طرح رہیں، اس کے لیے حکومت کام نہیں کر رہی ہے۔ صرف 10 ہزار دے کر ووٹ لے لیا۔ بعد میں دوسری ریاستوں کی طرح قوانین نافذ کر دیں گے، جہاں ہماری ماؤں بہنوں کو مدد نہیں مل پا رہی ہے۔ مہاراشٹر سمیت کئی ریاستوں میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔
0 تبصرے