درگاہ لاڈلے مشائخ کے اطراف سخت سیکوریٹی، ہندو بھکتوں کو پوجا کی اجازت 



کلبرگی(کرناٹک) (آئی اے این ایس) کرناٹک پولیس نے چہارشنبہ کے دن لاڈلے مشائخ درگاہ کے اطراف کے علاقوں میں سیکوریٹی بڑھادی کیونکہ عدالت نے آج مہاشیوراتری کے موقع پر ہندو بھکتوں کو راگھو چیتنیہ شیولنگ پوجا کی اجازت دی۔


اضلاع کلبرگی اور رائچور کے پولیس سپرنٹنڈنٹس کی نگرانی میں سیکوریٹی کے انتظامات کئے گئے۔ 1150 پولیس والے تعینات کئے گئے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو ٹالا جاسکے۔



الند ٹاؤن میں بھی سخت سیکوریٹی انتظامات کئے گئے۔ درگاہ لاڈلے مشائخ کے احاطہ میں راگھو چیتنیہ شیولنگ کی پوجا پر تنازعہ ہے۔ منگل کے دن ہائی کورٹ نے ہندو تنظیموں کی درخواست پر 26 فروری کو مہاشیوراتری کے موقع پر دن میں 2 تا 6 بجے شام شیولنگ پوجا کی اجازت دی۔


لاڈلے مشائخ نے 14 ویں صدی میں لوگوں کے دل جیتے تھے۔ درگاہ کے احاطہ میں 15 ویں صدی کے ہندو سنت راگھو چیتنیہ کی سمادھی ہے۔ سمادھی کے اوپر شیولنگ بنا ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین اختلافات کے بعد ملکیت کا جھگڑا عدالت پہنچا۔


لاڈلے مشائخ کی درگاہ پر آنے والے ہندو راگھو چیتنیہ شیولنگ کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ برس عرس اور شیوراتری ایک ہی دن ہونے کی وجہ سے عدالت نے دونوں فرقوں کو زیارت اور پوجا کی اجازت دی تھی۔ مسلمانوں کو صبح 8 بجے سے 2 بجے تک اور ہندوؤں کو 2 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت دیا گیا تھا۔


عدالت نے صرف 15 ہندوؤں کو اجازت دی تھی۔ 2022 میں شیوراتری پر ضلع کلبرگی کے الند ٹاؤن میں فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلہ میں 167 افراد بشمول 10 عورتوں کو گرفتار کیا تھا۔






بنگلہ دیش میں سیاسی اُتھل پُتھل کا دور جاری، طلبا گروپ کے ذریعہ نئی سیاسی پارٹی بنانے کی تیاری




قومی آواز بیورو


بنگلہ دیش میں سیاسی اُتھل پتھل کا دور جاری ہے۔ حالات دن بہ دن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اب طلبا اپنی سیاسی پارٹی بنانے کی تیاری میں ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگلے کچھ دنوں میں طلبا گروپ کے ذریعہ ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا جائے گا۔


میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی پارٹی بنانے کا اعلان جمعہ کو دوپہر تین بجے (بنگلہ دیش کے وقت کے مطابق) کیا جائے گا۔ 'جاتیہ ناگرک سمیتی' کے اہم انعقاد کار سرجیس عالم نے پیر کو شام میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔


ادھر فوجی سربراہ وقار الزماں نے کہا، "ملک کا نظام قانون خراب ہونے کی کچھ وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم آپس میں ہی لڑنے میں مصروف ہیں۔ اگر آپ اپنے اختلافات کو نہیں بھلاتے ہیں تو اس سے دقت ہوگی۔ ملک کی خودمختاری خطرے میں پڑ جائے گی۔ میں وارننگ دے رہا ہوں، سبھی رہنما ایک دوسرے پر الزام لگانے میں مصروف ہیں، جس سے شرارتی عناصر کو ماحول خراب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔"


واضح ہو کہ محمد یونس کی عبوری حکومت کے صلاح کار ناہید اسلام نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ناہید اسلام یونس کابینہ میں اطلاعاتی صلاح کار کے عہدہ پر تعینات تھے۔ انہوں نے منگل کو محمد یونس کو اپنا استعفیٰ نامہ سونپ دیا۔




قابل ذکر ہے کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے اہم صلاح کار محمد یونس نے پہلے ہی یہ صاف کر دیا تھا کہ انہیں انتخاب لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سوال ہے کہ ملک میں انتخاب کب ہوں گے۔ اس بات پر شبہ برقرار ہے۔ حال کے دنوں میں یونس نے کہا ہے کہ 2025 کے آخر تک انتخاب ہو سکتے ہیں۔ وہیں کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ نوجوانوں کی قیادت والی پارٹی ملک کے سیاسی پس منظر کو اہم شکل دے کر بدل سکتی ہے



رانچی: ہزاری باغ میں مذہبی جھنڈا لگانے پر تنازع، دو طبقات میں شدید جھڑپ، 20 افراد زخمی




قومی آواز بیورو


رانچی: ہزاری باغ، جھارکھنڈ کے ایچاک پرکھنڈ کے ڈومرون گاؤں میں بدھ کو دو طبقات کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی۔ دونوں فریقین کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد زخمی ہو گئے۔ مشتعل افراد نے تین موٹر سائیکلوں کو آگ بھی لگا دی۔


اطلاعات کے مطابق تنازع اس وقت شروع ہوا جب سرکاری اسکول کے دروازے پر مذہبی جھنڈا لگانے کی کوشش کی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ تقریباً دو سال قبل اسکول میں ایک طبقے نے مذہبی علامت کے ساتھ مینار نما دروازہ تعمیر کیا تھا، جس پر کچھ مقامی باشندے مسلسل اعتراض کر رہے تھے۔ اس مسئلے پر ضلع مجسٹریٹ اور پولیس سپرنٹنڈنٹ کو کئی بار درخواستیں دی گئیں لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔




بدھ کے روز جب ایک فریق کے افراد گانے بجاتے ہوئے وہاں جھنڈا لگانے پہنچے تو دوسرے فریق نے پتھراؤ شروع کر دیا، جس کے بعد دونوں طرف سے جھڑپ شروع ہو گئی۔ اس دوران تین موٹر سائیکلوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا، جس سے علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی۔


پولیس نے موقع پر پہنچ کر دونوں فریقوں کو منتشر کر دیا اور زخمیوں کو مقامی اسپتال میں داخل کرایا۔ ایچاک کے بی ڈی او اور تھانہ انچارج موقع پر موجود ہیں، اور امن و امان بحال کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔


ایک فریق کا کہنا ہے کہ اگر سرکاری اسکول میں مذہبی علامت والا مینار تعمیر کرنے سے نہیں روکا گیا، تو دوسرے فریق کو بھی وہاں جھنڈا لگانے کا حق حاصل ہے۔ انتظامیہ دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کرانے اور حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔







’نریندر مودی چین کے فائدے کے لیے کام کر رہے ہیں، اعداد و شمار اس کی گواہی دے رہے‘




قومی آواز بیورو


فروری 2025 میں چین سے ہندوستان سامانوں کی درآمدات 100 بلین ڈالر کو پار کر گئی۔ اس معاملے میں کانگریس نے مرکز کی مودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ کانگریس نے وزیر اعظم سے سوال پوچھا ہے کہ ’’پی ایم مودی، ایسے بنے گا آتم نربھر بھارت؟‘‘ یہ سوال کانگریس نے اپنے آفیشیل ’ایکس‘ ہینڈل پر ایک گرافکس پیش کرتے ہوئے پوچھا ہے۔ ساتھ ہی مزید ایک پوسٹ کیا ہے جس میں پی ایم مودی کے سامنے کچھ حقائق رکھے گئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں سے چین کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔



کانگریس نے اپنے پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’نریندر مودی چین کے فائدے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کی گواہی اعداد و شمار دیتے ہیں۔ چین 25-2024 میں ہندوستان کو تقریباً 101 ارب ڈالر کا سامان فروخت کرے گا۔ یہ سامان چین کی زمین پر تیار ہو رہے ہیں اور ہندوستان میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔ اس میں الیکٹرانک سامان، کسانوں کے لیے کھاد، دوائیوں کے لیے خام مال، فون، کمپیوٹر، پلاسٹک سے جڑے سامان اور ضرورت کی ہر چھوٹی بڑی چیزیں شامل ہیں۔‘‘ ان باتوں کو سامنے رکھنے کے بعد کانگریس نے لکھا ہے کہ ’’آپ کہہ سکتے ہیں کہ چین اپنے سامانوں کی وجہ سے ہمارے گھروں میں گھسا ہوا ہے، اور یہ سب اس لیے ہے کیونکہ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘۔ ہر سال چین سے آنے والے سامانوں کی کھیپ بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘



کانگریس نے کچھ اہم اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ’’اپریل 2024 سے جنوری 2025 تک چین سے 95 ارب ڈالر کا سامان ہندوستان آیا ہے۔ وہیں، اپریل 2023 سے جنوری 2024 تک چین سے 85 ارب ڈالر کا سامان ہندوستان آیا تھا۔ مطلب، چین سے درآمدات ایک سال میں 11 فیصد سے زیادہ بڑھ گیا۔‘‘ پوسٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’’چین سے ہندوستان سامان تو خوب خرید رہا ہے، لیکن چین کو کچھ خاص فروخت نہیں کر رہا۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کا چین کے ساتھ تجارتی کسارہ 83 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔‘‘



پی ایم مودی پر حملہ آور رخ اختیار کرتے ہوئے کانگریس کا کہنا ہے کہ ’’نریندر مودی کی چین کو ’لال آنکھ‘ دکھانے کی بات کھوکھلی تھی۔ اس کے برعکس وہ چین کو فائدہ پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ پی ایم مودی کی ملک مخالف پالیسیوں سے جہاں چین مالا مال ہوا جا رہا ہے، وہیں ہندوستان کی معیشت ڈانواڈول ہو رہی ہے۔‘‘ آخر میں کانگریس یہ بھی کہنے سے پرہیز نہیں کرتی کہ ’’مودی ہر محاذ پر فیل ہیں۔‘‘





’دباؤ، دھمکیوں اور پابندیوں میں مذاکرات بے کار‘، ایران کا امریکہ کو دو ٹوک جواب




قومی آواز بیورو


تہران: ایران نے امریکہ کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ دباؤ، دھمکیوں اور پابندیوں کے درمیان جوہری مذاکرات بے کار ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ جب تک واشنگٹن اپنے "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی کو ترک نہیں کرتا، تب تک امریکہ سے کوئی براہ راست بات چیت ممکن نہیں۔


انہوں نے یہ بیان تہران میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دیا۔ رپورٹ کے مطابق عراقچی نے منگل کو کہا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر کسی بیرونی دباؤ یا پابندیوں کے تحت مذاکرات نہیں کرے گا۔


یاد رہے کہ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے، جسے مشترکہ جامع عملی منصوبہ (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے، سے امریکہ 2018 میں یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گیا تھا اور اس نے دوبارہ ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کے نتیجے میں تہران کو معاہدے کے تحت اپنی جوہری ذمہ داریوں میں کمی کرنا پڑی۔




عراقچی نے مزید کہا، "دباؤ، دھمکیوں اور پابندیوں میں کی جانے والی کوئی بھی بات چیت بے نتیجہ ہوگی۔ ایران نے جے سی پی او اے کی بحالی کے لیے ماسکو کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔‘‘ اس معاہدے کی بحالی کے لیے 2021 میں کوششیں شروع ہوئیں، لیکن اب تک کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔


اپنی جانب سے روسی وزیر خارجہ لاوروف نے معاہدے کو بچانے کے لیے سفارتی اقدامات کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا، "ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی دھمکی یا دباؤ کے بغیر معاہدے کو بحال کرنے کی سفارتی صلاحیت اب بھی موجود ہے۔" لاوروف نے اس بحران کی ذمہ داری ایران پر ڈالنے کو مسترد کیا اور کہا، "یہ بحران ایران نے پیدا نہیں کیا۔"


دونوں وزرائے خارجہ نے خطے میں جاری تنازعات پر بھی تبادلہ خیال کیا، جن میں فلسطین کے علاقے غزہ اور شام شامل ہیں۔ ایران نے شام کی علاقائی سالمیت کے تحفظ کی حمایت کی۔


لاوروف نے عراقچی کے ساتھ مذاکرات کو "جامع، نتیجہ خیز اور تعمیری" قرار دیا۔ انہوں نے 2024 میں ایران اور روس کے درمیان دوطرفہ تجارت میں 13 فیصد اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں پیش رفت کا ذکر کیا۔




روسی سرکاری میڈیا کے مطابق، لاوروف نے ایران پر عائد یکطرفہ پابندیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں "ناقابل قبول" قرار دیا۔ دونوں فریقوں نے پابندیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے آپسی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔


لاوروف نے منگل کو تہران میں توانائی، تجارت اور علاقائی سکیورٹی سے متعلق مذاکرات کیے، جس کے بعد وہ اپنی مشرق وسطیٰ کی سفارتی مہم کو جاری رکھتے ہوئے قطر روانہ ہو گئے۔




’قصوروار سیاستدانوں کے انتخاب لڑنے پر تاحیات پابندی عائد نہیں کی جا سکتی‘، سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کا حلف نامہ




قومی آواز بیورو


سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں مرکزی حکومت سے اس معاملے میں جواب طلب کیا تھا کہ کیا قصوروار اور سزا یافتہ اراکین پارلیمنٹ و اراکین اسمبلی کے انتخاب لڑنے پر دائمی پابندی عائد کر دینی چاہیے؟ اس تعلق سے اب مرکز نے اپنا حلف نامہ داخل کر دیا ہے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ مجرمانہ معاملے میں قصوروار سیاستدانوں پر سزا مکمل کرنے کے بعد انہیں تاحیات انتخاب لڑنے پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے۔


مرکز کی جانب سے داخل کردہ حلف نامے میں جانکاری دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ نے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ قصوروار اراکین اسمبلی و اراکین پارلیمنٹ کو تاحیات انتخاب لڑنے سے منع نہیں کیا جا سکتا۔ ایوان سے کسی کو نااہل قرار دینے کی شرائط پہلے ہی واضح ہیں۔ عرضی گزار کی جانب سے داخل کی گئی عرضی میں مختلف پہلوؤں کو مبہم انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے 2016 میں داخل عرضی کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔




واضح ہو کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں حکومت کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن سے بھی جواب طلب کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ ’’اگر کسی سرکاری ملازم کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے تو وہ تاحیات ملازمت سے باہر ہو جاتا ہے، پھر قصوروار شخص پارلیمنٹ میں کیسے واپس آ سکتا ہے؟ قانون توڑنے والے قانون بنانے کا کام کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘


قابل ذکر ہے کہ وکیل اشونی اپادھیائے نے 2016 میں مفاد عامہ کی یہ عرضی (پی آئی ایل) دائر کی تھی۔ اس عرضی میں عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 8 اور 9 کے آئینی جواز کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عرضی گزار کی جانب سے کہا گیا تھا کہ سیاسی پارٹیوں کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ بے داغ شخصیت والے لوگوں کو کیوں نہیں تلاش کر پا رہی ہیں۔ دراصل موجودہ قانون کے تحت اگر مجرمانہ معاملے میں کسی کو 2 سال یا اس سے زائد کی سزا ہوتی ہے تو سزا پوری ہونے کے بعد وہ 6 سال تک انتخاب نہیں لڑ سکتا ہے۔ عرضی گزار اشونی اپادھیائے نے عرضی میں قصوروار سیاستدوانوں پر تاحیات پابندی عائد کرنے اور مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف زیر التوا معاملوں کو تیزی سے نمٹانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔






ہندوستان میں امیر مزید امیر اور متوسط و غریب طبقات مزید غریب ہوتے جا رہے، ایک رپورٹ میں انکشاف




قومی آواز بیورو


ہندوستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت میں سے ایک ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی آبادی تقریباً 1.4 ارب ہے، اور اتنی بڑی آبادی میں سے تقریباً 100 کروڑ لوگوں کی یہ حالت ہے کہ ان کے پاس اشیائے ضروریہ کے علاوہ کچھ بھی خریدنے کو پیسے نہیں ہیں۔ ’بلوم وینچرس‘ کی ایک نئی رپورٹ میں اس تعلق سے کچھ اہم انکشافات ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے والے لوگوں کی تعداد 14-13 کروڑ کے درمیان محدود ہے۔ یہ نمبر اترپردیش کی آبادی سے بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ 30 کروڑ ایسے لوگ ہیں جو دھیرے دھیرے خرچ کرنا سیکھ رہے ہیں، لیکن ان کی جیبوں میں اتنے پیسے نہیں بچ رہے کہ وہ اضافی خرچ کر سکیں۔ ڈیجیٹل پیمنٹس نے ہندوستانی لوگوں کی خریداری کو آسان تو بنا دیا ہے، لیکن لوگوں کے خرچ کرنے کی عادتوں میں اب بھی پس و پیش کی کیفیت بنی ہوئی ہے۔


رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستان میں امیروں کی تعداد میں اس تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ نہیں ہو رہا ہے جتنی تیزی سے امیروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی جو پہلے سے امیر ہیں وہ مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں، لیکن نئے امیروں کی تعداد میں خاصہ اضافہ نہیں ہو رہا۔ اس کا اثر براہ راست بازار پر پڑ رہا ہے۔ کمپنیاں اب سستی مصنوعات بنانے کے بجائے مہنگے اور پریمیم پروڈکٹس بنانے پر زور دے رہی ہیں۔ مثلاً لگژری اپارٹمنٹس کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور سستے (قابل استطاعت) گھروں کی حصہ داری گزشتہ 5 سالوں میں 40 فیصد سے کم ہو کر صرف 18 فیصد رہ گئی ہے۔ قیمتی اسمارٹ فون تو تیزی سے فروخت ہو رہے ہیں، لیکن سستے ماڈل کے خریدار کم ہو گئے ہیں۔ کولڈ پلے اور ایڈ شیران جیسے بین الاقوامی ستاروں کے مہنگے کنسرٹ ٹکٹ پلک جھپکتے ہی فروخت ہو جاتے ہیں، لیکن عام لوگوں کے لیے تفریح مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔




’بی بی سی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے بعد ہندوستان کی معیشت کی بحالی ’k- شکل‘ کی رہی ہے۔ یعنی امیروں کے لیے اچھے دن آ گئے، لیکن غریبوں کی حالت اور خراب ہو گئی۔ اس کو اس طرح سمجھیے کہ 1990 میں ہندوستان کے سرفہرست 10 فیصد لوگ 34 فیصد قومی آمدنی کے مالک تھے۔ آج وہی 10 فیصد لوگ 57.7 فیصد قومی آمدنی کے مالک ہو گئے ہیں۔ ملک کے سب سے غریب 50 فیصد لوگوں کی آمدنی 22.2 فیصد سے کم ہو کر محض 15 فیصد رہ گئی ہے۔ یعنی امیروں کے لیے دنیا اور چمکدار ہو گئی ہے جبکہ غریبوں کے لیے حالات پہلے سے مشکل ہو گئے ہیں۔


’مارسیلس انویسٹمنٹ مینیجرز‘ کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کا متوسط طبقہ بھی مشکلات میں پھنستا جا رہا ہے۔ مہنگائی میں تو اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ان کی تنخواہ میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہو رہا۔ گزشتہ 10 سالوں میں ٹیکس دینے والے متوسط طبقے کی آمدنی عملی طور پر جمود کا شکار رہی ہے۔ یعنی مہنگائی کے حساب سے دیکھیں تو ان کی تنخواہ نصف ہو گئی ہے۔ اگر آج کی بات کریں تو متوسط طبقے کی بچت گزشتہ 50 سال کی کم ترین سطح پر ہے۔ لوگوں کی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔