ولکی میں بھی جشن آزادی بڑے تزک و اہتشام سے منایا گیا
ولکی ۱۵ اگشت ۲۰۲۳ء طلباء جامعہ سیدنا عمر فاروقؓ ولکی نے ستھہترویں( 77th )جشن آزادی پو رے جوش وخروش و شان کے ساتھ منایاپرچم کشائی کی تقریب مدرسہ فاطمۃالزھراء کے صحن میں صبح ۴۵:۷بجے رکھی گئ تھی مقرہ وقت پر ادارہ کے ذمہ دارراقم السطور بے تمہیدی کلمات سے جامعہ سیدنا عمر فاروق ؒ عمر شعبہ حفظ کے طالب علم ماہر ابن مختار غیب سے کروائی بعد ابتدا ئی کلمات تقریب کا مقصد یا غرض بیان کر کے اگلی کاروائی کے لئے جامعہ کہ صدر مدرس مولوی فیض کی سپرد کر دی۔۔۔مہمان خصوصی کے طور پر موجود پرچم کشائی جناب محمد حنیف صاحب کے ہاتھوں عمل میں آئی۔۔۔۔بعد طلباء جامعہ کی طرف سے آزادی ھند میں علماء اسلام کا کردار کے عنوان پر تقاریرنظمیں وغیرہ اردو انگریزی و کنڑی زبان میں پیش کی گئ کلمات شکر مولوی علی ندوی داولجی صاحب نے ادا کئےبعد بڑے ہی خونصورت و نرالے انداز میں جلوس ( ریلی)۔ مدرسہ فاطمۃالزھراء کے صحن سے نکل کر۔پرائمری اردو اسکول تک پہنچا اسکول کے صحن میں۔۔پرچم کشا ئی کے بعد پورے محلہ کے گشت کرتے ہوئے جلوس پر وقار و پورے نظم وضبط کے ساتھ قدیم ولکی جامع مسجد کے پاس جماعت کے نئے نرسری اسکول کے پاس پرجم کشا ئی کے لئے پہنچا ئی وہاں پر مولوی شہنواز و مولوی فیض سے قومی جھنڈا لہرایا گیا؛ اورسرفروشان قوم و شہیدان وطن کے لئے خراج تحسین کے بعد جلسہ و جلوس کااختتام کا اعلان کیا گیا تینوں جگہ پر آزادی کے عنوان پر خطاب مختار آحمد فخرو کا رہا بیان میں اس بات پر زور رہا کہ یہ ملک ہمارا ہے ہم اس ملک کے اصلی باشندے ہیں ہم یہاں اپنے دین(مذہب)و تہذیب کے ساتھ جیئں گےہمارے اسلاف نے اس ملک کو اپنے خون سے سینچا ہےہمیں یہاں اپنا حق چاہئے بھیک نہیں! دنیا (میڈیا کچھ کہے کتنا بدنام کرے مگر ہم کل بھی کہتے تھےآج بھی کہیں گے اور ان شاءاللہ کہتے رہینگے " سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہماراہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستان ہمارا۔۔۔گویا کہ مسلمانوں سمیت ارباب اقتدارو پورے ملک کے پاشندوں کے نام ایک پیغام تھا، درمیان میں مشروبات کا بھی خوبصورت نظم ساتھ انتظام گیا تھاریلی کی قیادت باری باری حافظ تبریز ھگلواڑی اور حسن فخرو نے کی یقینا یہ سب مناظر و لمہات اہلیان ولکی کی لئے خشگوار تاریخی و یاد گار رہینگے اخر تک ذمہ داران جماعت سمیت لوگوں کی بہت بڑی بھیڑ جمع رہی۔۔۔صحافی :- مختار احمد فخرو ولکوی
روس نے گوگل پر بھاری جرمانہ عائد کر دیا!
(روزنامہ منصف )ماسکو: روس کی عدالت نے یوکرین تنازع پر متنازع ویڈیو اور گمراہ کن معلومات اپنی سائٹ سے نہ ہٹانے پر امریکی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل پر 32 ہزار ڈالر جرمانہ عائد کر دیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق روس کی عدالت نے یوکرین تنازع پر متنازع ویڈیو اور گمراہ کن پروپیگنڈے پر مبنی معلومات نہ ہٹانے پر امریکی ٹیکنالوجی کمپنی پر تین ملین روبل یا 32 ہزار ڈالر جرمانہ عائد کر دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یو ٹیوب ویڈیو سروس، جو گوگل کی ملکیت ہے وہ روس یوکرین تنازع کے بارے میں غلط معلومات کی ویڈیوز نہ ہٹانے کی قصور وار ہے اور روس اس تنازعے کو ایک خصوصی فوجی کارروائی قرار دیتا ہے ۔روسی نیوز رپورٹس کے مطابق گوگل کو ایسی ویڈیوز نہ ہٹانے کا بھی قصوروار پایا گیا جن میں نو عمر بچوں کے لیے ممنوع ویب سائٹس میں داخلے کے طریقے بتائے گئے ہیں ۔ نیوز ایجنسیوں نے ان سائٹس کے بارے میں کچھ تفصیلات نہیں فراہم کیں۔گوگل نے اس بارے میں کسی تبصرے سے انکار کر دیا، تاہم ماسکو کے پاس جرمانہ وصول کرنے کا کوئی ٹھوس طریقہ موجود نہیں ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل روس کی ایک عدالت نے ایسے ہی اقدامات اگست کے شروع میں ایپل اور وکی پیڈیا کے ادارے وکی میڈیا فاؤنڈیشن کے خلاف بھی اٹھائے گئے تھے۔سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا کرنے پر روس میں کچھ نقادوں کو سخت سزائیں مل چکی ہیں ۔ حزب اختلاف کی شخصیت ولادیمر کارا مرزا کو اس سال یوکرین میں روسی کارروائیوں کے خلاف تقاریر کو غداری پر مبنی قرار دے کر 25 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ہندوقائدین کی نفرت انگیز تقاریر کے خلاف برندا کرت سپریم کورٹ سے رجوع
(روزنامہ منصف )نئی دہلی: سی پی آئی ایم لیڈر برندا کرت سپریم کورٹ سے رجوع ہوئیں تاکہ ایک زیر التواء درخواست میں مداخلت کرسکیں جس میں مسلمانوں کو ہلاک کرنے اور ان کا سماجی و معاشی بائیکاٹ کرنے ہریانہ سمیت مختلف ریاستوں میں نکالی گئی ریالیوں میں کی گئی کھلی نفرت انگیز تقاریر کاالزام عائد کیاگیاہے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی لیڈر اور سابق رکن راجیہ سبھا نے عدالت عظمی سے اجازت طلب کی کہ انہیں اس مسئلہ پر ایک صحافی شاہین عبداللہ کی زیر التواء درخواست میں فریق بننے کی اجازت دی جائے۔برندا کرت نے وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی مذہبی تنظیموں کے قائدین کی جانب سے کی گئی نفرت انگیز تقاریر کا حوالہ دیا جن میں لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایاگیا تھا۔دہلی کے نانگ لوئی اور گھونڈا چوک جیسے مقامات پر جلسہ عام میں ایسی نفرت بھڑکانے والی تقاریر کی گئی تھیں۔ درخواست میں کہاگیا کہ وشوا ہندو پریشد کے لیڈروں نے ہندو مذہب کے نام پر دہلی کے مختلف مقامات پر منعقدہ جلسوں میں عوام کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا ہے۔درخواست میں کہاگیا کہ لوگوں کو ہندوازم کے نام پر دستوری اقدار اور سیکولرازم کے خلاف ابھارا گیاہے۔ قومی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں ایسی میٹنگس منعقد کی جارہی ہیں جن میں مسلمانوں کے سماجی ومعاشی بائیکاٹ کی مسلسل اپیلیں کی جاتی ہیں۔ایسی تقاریر تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت جرم ہے۔ بدقسمتی سے پولیس ایسے افراد کے خلف سخت کارروائی نہیں کررہی ہے اور نہ ایسی میٹنگوں کو روکا جارہاہے۔جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس ایس وی این بھٹی پر مشتمل بنچ نے 11 اگست کو شاہین عبداللہ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہاتھا کہ ملک میں مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارہ ہوناچاہئے۔عدالت نے ہریانہ کے ڈائرکٹر جنرل پولیس کی جانب سے ایک کمیٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی تاکہ نوح کے حالیہ فرقہ وارانہ فسادات کے بعد درج کئے گئے کیسس کاجائزہ لیا جاسکے۔عدالت نے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل کے ایم نٹراج سے جو مرکز کی طرف سے پیش ہوئے تھے‘ کہاکہ وہ ہدایات حاصل کریں اور 18 اگست تک مجوزہ کمیٹی کے بارے میں اسے اطلاع دیں۔
نفرت انگیز تقریر پر سپریم کورٹ کا تبصرہ، سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے
(ای ٹی وی )نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو ہریانہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ چاہے کوئی بھی فریق ہو سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے اور جہاں بھی نفرت انگیز تقاریر ہوگی اس سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔ نفرت انگیز تقاریر پر سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم اس بات پر توجہ نہیں دیں گے کہ کس فریق نے کیا کیا بلکہ ہم نفرت انگیز تقاریر کے خلاف قانون کے مطابق نمٹیں گے۔دراصل سپریم کورٹ نفرت انگیز تقریر اور نوح فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق متعدد درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا۔ ایک درخواست میں احتجاجی ریلیوں پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ دوسری درخواست میں مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی کال کی شکایت کی گئی تھی۔ نفرت انگیز تقریر کیس کے حوالے سے ایک وکیل نے کہا کہ کیرالہ میں انڈین یونین مسلم لیگ IUML کی ریلی میں نفرت انگیز تقریر کی گئی۔ اس پر جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ ہم بالکل واضح ہیں کہ نفرت انگیز تقریر چاہے کسی بھی فریق کی طرف سے ہو سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے اور جہاں نفرت انگیز تقریر ہوگی، قانون کے مطابق ان سے نمٹا جائے گا۔ یہ وہ چیز ہے جس پر ہم اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں یہ دہرانا پڑے گا۔نوح کے بعد مہاپنچایت میں مسلمانوں کے خلاف بائیکاٹ مہم کے خلاف ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ نفرت انگیز تقاریر سے متعلق عدالت کی ہدایات پر عمل کیا جارہا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت آئندہ جمعہ کے لیے ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ جسٹس سنجیو کھنہ اور ایس وی این بھٹی کی بنچ نے شروع میں کہا تھا کہ وہ تحسین پونا والا کے فیصلے (2018) میں منظور کردہ رہنما خطوط سے دے چکے ہیں۔ مرکز کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کے ایم نٹراج کی موجودگی میں عدالت نے کہا کہ عدالت کو امید ہے کہ ان کی تعمیل کی جا رہی ہوگی۔گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ نفرت انگیز جرم اور نفرت انگیز تقریر مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور ہمیں ایسا میکنزم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ ہمیں اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے ایسے واقعات کو روکنے کے لیے مرکز سے تجویز طلب کی تھی۔ فی الحال سپریم کورٹ نے ریلیوں وغیرہ پر پابندی کا حکم دینے سے انکار کر دیا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں سے کہا ہے کہ وہ تحسین پونا والا کے فیصلے کے مطابق ان کے پاس دستیاب نفرت انگیز تقریر کے مواد کو نوڈل افسر کے حوالے کریں۔ ایسی شکایات کے ازالے کے لیے نوڈل آفیسر کمیٹی کا وقتاً فوقتاً اجلاس ہونا چاہیے۔ جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ ہم ڈی جی پی سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کو کہیں گے، جو مختلف علاقوں کے ایس ایچ اوز سے موصول ہونے والی نفرت انگیز تقاریر کی شکایات کا جائزہ لے گی، ان کا مواد چیک کرے گی اور پھر متعلقہ پولیس افسران کو ہدایات جاری کرے گی۔
چندریان-3: وکرم لینڈر کی کامیابی کے ساتھ ہوئی ڈی بوسٹنگ، اگلی ڈی بوسٹنگ کے لیے 20 اگست کا انتظار
(قومی آوازبیورو)اِسرو (انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن) کو ’مشن چاند‘ میں آج اس وقت ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی جب پروپلشن سے الگ ہو کر چاند کے مدار میں چکر لگا رہے وکرم لینڈر کی کامیابی کے ساتھ ڈی بوسٹنگ ہوئی۔ اب ہندوستان چاند پر پہنچنے کے بالکل قریب ہے۔ لینڈر ماڈیول نے جمعہ کے روز کامیابی کے ساتھ ڈی بوسٹنگ آپریشن انجام دیا جس کی جانکاری اِسرو نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر بھی دی۔ اِسرو نے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’لینڈر ماڈیول نے کامیابی کے ساتھ ڈی بوسٹنگ آپریشن کیا، جس سے اس کا مدار 113 کلومیٹر x 157کلومیٹر تک کم ہو گیا۔ اب دوسرا ڈی بوسٹنگ آپریشن 20 اگست 2023 کو تقریباً 2 بجے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔‘‘اِسرو کے ذریعہ دی گئی جانکاری کے مطابق 23 اگست کو ہونے والی وکرم لینڈر کی سافٹ لینڈنگ سے پہلے لینڈر کی ڈی بوسٹنگ انتہائی اہم مرحلہ ہے۔ کیونکہ یہی ڈی بوسٹنگ وکرم لینڈر کو چاند کے مزید قریب لائے گی۔ جمعرات کو چندریان-3 کا پروپلشن ماڈیول اور لینڈر ماڈیول الگ ہوا تھا جس کے بعد سے ہی وکرم لینڈر تنہا ہی چاند کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ اب جبکہ وکرم لینڈر کا ڈی بوسٹنگ آپریشن کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گیا ہے، تو دوسرے ڈی بوسٹنگ آپریشن کے لیے 20 اگست کا انتظار ہے۔اگر آپ ’ڈی بوسٹنگ‘ کو آسان الفاظ میں سمجھنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا مطلب وکرم لینڈر کی اسپیڈ کم کرنا ہے۔ پروپلشن سے جب وکرم لینڈر الگ ہوا تھا تو وہ چاند سے تقریباً 150 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ پہلے ڈی بوسٹنگ آپریشن کے وقت لینڈر کے تھرسٹرس آن کیے گئے جس سے لینڈر کو آگے کی طرف دھکا لگا۔ یہی عمل لینڈر کی رفتار کو کم کرنے اور اس کے مدار کو بدلنے میں استعمال ہوتا ہے۔ اب چونکہ لینڈر کے چاند پر اترنے کا وقت قریب ہے، اس لیے اس کی رفتار کم کی جا رہی ہے۔بہرحال، 18 اگست کو ڈی بوسٹنگ آپریشن کے بعد وکرم لینڈر چاند سے تقریباً 100 کلومیٹر کی دوری پر آ گیا ہے۔ 20 اگست کو جب دوسرا ڈی بوسٹنگ آپریشن انجام پائے گا تو چاند سے وکرم لینڈر کی دوری تقریباً 30 کلومیٹر ہو جائے گی۔ بعد ازاں لینڈر کو لینڈنگ کی پوزیشن میں لایا جائے گا اور پھر سافٹ لینڈنگ کا عمل شروع ہوگا۔
کیا گیانواپی مسجد میں نمازیوں کی تعداد ہوگی محدود؟ ہندو فریق کی عرضی پر اب 22 اگست کو ہوگی سماعت
(قومی آوازبیورو)ایک طرف گیانواپی مسجد احاطہ کا سروے جاری ہے، اور دوسری طرف گیانواپی مسجد سے جڑی کچھ عرضیاں عدالت میں سماعت کا انتظار کر رہی ہیں۔ ایک معاملہ گیانواپی مسجد میں نمازیوں کی تعداد محدود کرنے سے متعلق ہے جس پر آج وارانسی ضلع عدالت میں سماعت ہوئی۔ دراصل ہندو فریق سے راکھی سنگھ کی اپیل پر احاطہ میں موجود ہندو نشانات اور علامات کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ انجمن انتظامیہ کمیٹی اور نماز پڑھنے والے اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔عرضی دہندہ راکھی سنگھ کی طرف سے ان کے وکیل سوربھ تیواری نے عدالت سے نماز ادا کرنے والوں کی تعداد محدود کرنے کے لیے ایک اصول بنانے کی گزارش کی ہے۔ پہلے یہ معاملہ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں تھا، لیکن جب وہاں یہ معاملہ سماعت کے لیے آیا تو ججوں نے کہا کہ یا تو آپ اپنی عرضی واپس لے لیجیے یا پھر ہم اسے خارج کر دیں گے۔ اس کے بعد راکھی سنگھ نے عرضی واپس لیتے ہوئے ایک نئی اپیل لے کر وارانسی ضلع کورٹ پہنچ گئی ہیں۔راکھی سنگھ کی عرضی پر آج وارانسی ضلع عدالت میں سماعت ہوئی۔ ان کی طرف سے ایڈووکیٹ سوربھ تیواری نے بحث کی، جبکہ ہندو فریق کی باقی چار خواتین کی طرف سے وشنو شنکر جین نے بحث کی۔ انجمن انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے وکیل ممتاز احمد اور رئیس احمد پیش ہوئے۔ اس معاملے میں مسلم فریق کی طرف سے کہا گیا کہ انھوں نے ابھی تک عرضی نہیں پڑھی ہے۔ وہ پہلے عرضی پڑھیں گے، اس کے قانونی پہلوؤں کو سمجھیں گے اور پھر اس کے بعد اپنا جواب داخل کریں گے۔ اس کے لیے انھیں وقت دیا جائے۔وشنو شنکر جین کی طرف سے بھی عرضی کی کاپی مانگی گئی ہے۔ اس کے بعد ہندو فریق کی چاروں خواتین (لکشمی دیوی، سیتا ساہو، منجو ویاس اور ریکھا پاٹھک) کو بھی کاپی دی گئی۔ عدالت کی طرف سے سماعت کے لیے اگلی تاریخ 22 اگست طے کی گئی ہے۔واضح رہے کہ وارانسی کے گیانواپی احاطہ میں ان دنوں اے ایس آئی کا سروے چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر یہ سائنٹفک سروے ہو رہا ہے۔ 60 اراکین کی سروے ٹیم یہ پتہ کرنے میں مصروف ہے کہ گیانواپی مسجد کی تعمیر کب ہوئی؟ کیا پہلے یہاں کوئی دیگر عمارت تھی؟ اگر ایسا ہے تو اس کی تعمیر کب ہوئی تھی؟ گیانواپی احاطہ کی بناوٹ کس طرز کی ہے؟ وارانسی کی ضلع عدالت نے اے ایس آئی کو 2 ستمبر تک سروے رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا ہے۔
0 تبصرے