ایم پی، یوپی، ہریانہ اور گجرات میں کیوں نافذ نہیں ہوئی قومی تعلیمی پالیسی‘، ڈی کے شیوکمار کا بی جے پی سے سوال

(قومی آوازبیورو)کرناٹک میں کانگریس حکومت کے ذریعہ قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) کو ختم کیے جانے کی بی جے پی نے سخت مخالفت کی ہے، جس پر کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ این ای پی ان کا (بی جے پی کا) سیاسی ایجنڈا تھا۔ اسے تو ان کی حکومت والی ریاستوں میں بھی نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ڈی کے شیوکمار نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست کا موضوع ہے، قومی موضوع نہیں۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نائب وزیر اعلیٰ نے کہا کہ این ای پی نافذ کرنا بی جے پی کا فیصلہ تھا۔ ہم شروع سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اس پر از سر نو غور کریں گے۔ بغیر بنیادی ڈھانچہ تیار کیے اسے جلدبازی میں نافذ کیا گیا۔شیوکمار نے اس دوران سوال پوچھا کہ این ای پی کو مدھیہ پردیش، اتر پردیش، ہریانہ اور گجرات میں کیوں نافذ نہیں کیا گیا؟ یہاں تو بی جے پی حکومت میں ہے۔ ڈی کے شیوکمار کے مطابق ہمارے لوگوں کے درمیان ایک فکر ہے۔ پوری دنیا نے بنگلورو کو آئی ٹی راجدھانی، سلیکان ویلی، اسٹارٹ اَپ ہَب اور میڈیکل ہَب کی شکل میں قبول کیا ہے۔ اس کی وجہ پرائمری سے لے کر ماسٹرس تک کا ہمارا تعلیمی معیار ہے۔ این ای پی ضروری نہیں تھا۔ اگر این ای پی میں اچھے پہلو ہیں، تو ان پر از سر نو غور کیا جائے گا۔ڈی کے شیوکمار کے مطابق این ای پی میں جو کچھ بھی اچھا ہے، اس پر یقینی طور سے غور کیا جائے گا۔ این ای پی ایک سیاسی ایجنڈا ہے۔ یہ ناگپور تعلیمی پالیسی ہے۔ کمیٹی کے اراکین نے بتایا ہے کہ انھیں نظریہ سمجھ میں نہیں آیا۔ ان سے صرف دستاویزوں پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا۔ شیوکمار نے مزید کہا کہ جب این ای پی نافذ کیا گیا تھا تو ہم نے کہا تھا اس میں ترمیم کیا جائے گا اور ایک ریاستی پالیسی بنائی جائے گی۔ بی جے پی نے این ای پی کو صرف کرناٹک میں ہی کیوں نافذ کیا؟ انھوں نے ساتھ ہی کہا کہ ریاست ہمیشہ سے مضبوط رہی ہے اور چاہے وہ تکنیکی تعلیم ہو یا طبی تعلیم، سبھی معاملوں میں یہ اول مقام پر ہے۔ صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور پارٹی کے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے این ای پی کو ریاست میں نافذ کیا گیا جو درست نہیں۔


بہار: ارریہ میں صحافی کا برسرعام گولی مار کر قتل، اہل خانہ میں دہشت کا ماحول

(قومی آوازبیورو)بہار کے ارریہ ضلع واقع رانی گنج علاقے میں بے خوف بدمعاشوں نے جمعہ کے روز ایک روزنامہ کے صحافی ومل کمار کا گولی مار کر قتل کر دیا اور بلاخوف انداز میں وہاں سے چلتے بنے۔ پولیس کے مطابق جمعہ کی صبح رانی گنج کے پریم نگر واقع رہائش سے صحافی ومل کمار کو جرائم پیشوں نے بلایا۔ جیسے ہی وہ دروازہ کھول کر باہر نکلنے والے تھے، ویسے ہی جرائم پیشوں نے انھیں گولی مار دی۔ گولی لگنے سے ان کی جائے حادثہ پر ہی موت ہو گئی۔میڈیا رپورٹس کے طمابق جرائم پیشوں کی تعداد چار سے پانچ تھی جو بائک پر سوار ہو کر آئے تھے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ دو سال قبل ومل کے بڑے بھائی کا قتل بھی جرائم پیشوں نے کیا تھا۔ اس معاملے میں ومل اہم گواہ تھے۔ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گواہ ہونے کی وجہ سے ہی بدمعاشوں نے انھیں نشانہ بنایا ہو۔پولیس نے ومل کی لاش کو اپنے قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے ارریہ صدر اسپتال بھیج دیا ہے اور پورے معاملے کی سبھی زاویے سے جانچ شروع کر دی ہے۔ ومل کمار کے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔ واقعہ کے بعد سے اہل خانہ کا رو رو کر برا حال ہے۔ اس واقعہ سے صحافیوں میں بھی زبردست غم و غصہ کا ماحول ہے۔


والدین یا ساس-سسر کا خیال نہیں رکھا تو ملکیت سے ہو جائیں گے بے دخل، راجستھان ہائی کورٹ کا حکم

(قومی آوازبیورو)والدین ہوں یا پھر ساس-سسر، اگر وہ اپنے بچوں کے سلوک یا دیکھ بھال کو لے کر ان سے ناراض ہوں تو وہ اپنی ملکیت سے انھیں بے دخل کر سکتے ہیں۔ اس تعلق سے راجستھان ہائی کورٹ نے اپنا ایک اہم فیصلہ صادر کیا ہے جس میں کہا ہے کہ بزرگ والدین کی ٹھیک طرح سے دیکھ بھال نہیں کیے جانے کی صورت میں وہ اپنی ملکیت سے انھیں باہر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔راجستھان ہائی کورٹ نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ بزرگ جوڑے اگر بچوں یا پھر رشتہ داروں کے سلوک سے مطمئن نہیں ہیں اور ان کا ٹھیک سے خیال نہیں رکھا جا رہا ہے تو وہ اپنی ملکیت سے انھیں دور کر سکتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، بزرگ کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے مینٹیننس ٹریبونل یعنی ایس ڈی او کورٹ کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ بزرگ افراد کی طرف سے آنے والی گزارشات کے بعد بیٹے-بہو یا پھر کسی دیگر رشتہ دار کو ان کی ملکیت پر کسی طرح کے دعوے کو بے دخل کرتے ہوئے مسترد کر سکتا ہے۔راجستھان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اے جی مسیح اور جسٹس سمیر جین کی دو رکنی بنچ نے یہ حکم عدالت کی سنگل بنچ کی طرف سے 2019 میں 12 ستمبر کو اوم پرکاش سین بمقابلہ دیوی کیس کو لے کر دیا۔ دو رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ سمیت ملک کے کئی ہائی کورٹ کی طرف سے مینٹیننس ٹریبونل کے پاس ملکیت سے جڑی بے دخلی کی طاقت کو منظوری دی گئی ہے۔ معاملے سے جڑی اگلی سماعت 27 اگست کو ہونی ہے۔راجستھان ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے ان بزرگوں کو بہت راحت ملی ہے جس میں وہ اپنے بچوں یا رشتہ داروں کی طرف سے بہتر سلوک نہیں کیے جانے کو لے کر ناراض رہتے ہیں اور انھیں کافی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ میں ریفرینس طے نہیں ہونے کی وجہ سے اس طرح سے جڑے کئی معاملے اٹکے پڑے ہیں۔ ریفرنس طے نہیں ہونے سے عدالت فیصلہ نہیں سنا پا رہی تھی۔ یہاں تک کہ کورٹ کی سنگل بنچ کے پاس بھی اس طرح کی کئی عرضیاں زیر التوا پڑی ہوئی تھیں۔ حالانکہ اب مانا جا رہا ہے کہ ریفرنس طے کیے جانے کی وجہ سے اس طرح کے کیسز کا جلد نمٹارا کیا جا سکے گا۔


لالو پرساد یادو کی ضمانت کے خلاف سی بی آئی نے سپریم کورٹ میں داخل کی عرضی، جلد سماعت کا مطالبہ

(قومی آوازبیورو)چارہ گھوٹالہ معاملے میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے ذریعہ آر جے ڈی صدر لالو پرساد کو دی گئی ضمانت کو رد کرنے کی سی بی آئی کی عرضی پر سپریم کورٹ جلد سماعت کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر دستیاب تفصیلات کے مطابق اس معاملے پر آئندہ جمعہ یعنی 25 اگست کو سماعت ہونے کا امکان ہے۔ مرکزی جانچ ایجسی (سی بی آئی) نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی بنچ کے سامنے معاملے کا تذکرہ کیا اور ضمانت رد کرنے کی عرضی پر فوری سماعت کا مطالبہ کیا۔گزشتہ سال اپریل میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ڈورنڈا ٹریزری سے 139.5 کروڑ روپے نکالے جانے سے متعلق پانچویں چارہ گھوٹالہ معاملہ میں لالو پرساد کو ضمانت دے دی تھی۔ سپریم کورٹ نے دُمکا اور چائباسہ ٹریزری سے فرضی طریقے سے پیسہ نکالنے کے معاملے میں 17 اپریل 2021 اور 9 اکتوبر 2020 کو ضمانتی احکامات کو چیلنج دینے والی سی بی آئی کی عرضی پر پہلے ہی نوٹس جاری کر دی اتھا۔سی بی آئی کے اس قدم پر بہار کے نائب وزیر اعلیٰ اور آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے کہا کہ ہم عدالت میں اپنی بات رکھیں گے۔ چاہے وہ ہمیں کتنا بھی پریشان کریں، کچھ نہیں ہوگا۔ ہم اس بات کو لے کر بالکل واضح ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ان سے کوئی نہیں ڈرتا۔ ہم لڑیں گے اور جیتیں گے۔واضح رہے کہ غیر منقسم بہار میں لالو پرساد کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے مویشی پروری محکمہ میں کروڑوں روپے کے چارہ گھوٹالے کا الزام لگا تھا۔ یہ گھوٹالہ 1996 میں سامنے آیا اور پٹنہ ہائی کورٹ کی ہدایت پر معاملہ سی بی آئی کو سونپ دیا گیا۔ لالو پرساد کو جھارکھنڈ کے دیوگھر، دُمکا اور چائباسہ ٹریزری سے دھوکہ دہی سے پیسے نکالنے کے چار چارہ گھوٹالے کے معاملوں میں قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ ڈورنڈا معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے انھیں پانچ سال کی سزا سنائی تھی اور 60 لاکھ روپے کا جرمانہ لگایا تھا۔



بلقیس بانو کے قصورواروں کی رِہائی کے معاملے پر مرکزی حکومت اور گجرات حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا ’قصورواروں کی رہائی اصولوں کے مطابق

(قومی آوازبیورو)بلقیس بانو کے قصورواروں کی رِہائی کے معاملے پر مرکزی حکومت اور گجرات حکومت نے سپریم کورٹ میں آج اپنی دلیلیں پیش کیں۔ گجرات حکومت کی طرف سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے بتایا کہ قصورواروں کی رِہائی اصولوں کی مطابق ہی کی گئی ہے۔ ایس وی راجو نے کہا کہ سزا سنائے جانے کے وقت عدالت کو بھی پتہ تھا کہ 14 سال کے بعد چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ عدالت نے ایسی سزا نہیں دی تھی کہ قصورواروں کو 30 سال بعد ہی چھوٹ دی جائے گی۔مرکزی حکومت اور گجرات حکومت کی طرف سے پیش ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس اُجول بھویان کی بنچ سے کہا کہ عدالت بھی مانتا ہے کہ جرم اتنا بہیمانہ نہیں تھا۔ اس پر جسٹس ناگرتنا نے رد عمل میں کہا کہ جرم بہیمانہ تھا، لیکن ریئریسٹ آف دی ریئر نہیں تھا۔ اے ایس جی نے اس کے بعد کہا کہ جرم بہیمانہ ہے لیکن قصورواروں کے سر پر لٹکا نہیں ہونا چاہیے۔ انھیں 14 سال سے زیادہ وقت جیل میں گزارنے کے بعد سدھرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’’قانون یہ نہیں کہتا کہ سبھی کو سزا دی جائے اور پھانسی دی جائے، بلکہ یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو سدھرنے کا موقع دیا جائے۔‘‘سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران گجرات حکومت سے سوال پوچھا کہ سزا میں چھوٹ کی پالیسی آخر چنندہ لوگوں کے لیے ہی کیوں ہے؟ دو ججوں کی بنچ نے سوال کیا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ چھوٹ کی پالیسی کو چنندہ طریقے سے کیوں نافذ کیا جا رہا ہے؟ سپریم کورٹ نے ساتھ ہی کہا کہ اصلاح کا موقع صرف کچھ قیدیوں کو ہی کیوں دیا گیاَ یہ موقع تو ہر قیدی کو دیا جانا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا چھوٹ کی پالیسی تب نافذ کی جا رہی ہے جب قیدی اہل ہیں۔ یہ اجتماعی طور سے نہیں کیا جانا چاہیے، یہ صرف انہی لوگوں کے لیے کیا جانا چاہیے جو اس کے اہل ہیں یا پھر یہ ریمیشن انھیں ملنا چاہیے جنھوں نے اپنی سزا کا 14 سال جیل میں گزار لیا ہے۔واضح رہے کہ بلقیس کے قصورواروں کو گجرات حکومت نے رِہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ اے ایس جی نے اس تعلق سے سپریم کورٹ کی بنچ کو بتایا کہ گزشتہ سال مئی میں سپریم کورٹ کے ہی ایک فیصلے کی بنیاد پر قصورواروں کی رِہائی کی گئی۔ فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ ریمیشن پر فیصلے کا حق ریاستی حکومت کا ہے نہ کہ مرکز کا۔ گجرات حکومت نے 2014 میں ریمیشن پالیسی میں تبدیلی کی تھی۔ اس کے بعد ان قصورواروں کو ریمیشن دینے کا حق مرکز کے پاس ہے، جس کیس کی جانچ مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ کی گئی ہو۔ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کے اس فیصلے کو خارج کر دیا اور کہا کہ جہاں جرم کیا گیا ہے اسی ریاست کی حکومت فیصلے لے سکتی ہے۔


ہماچل پردیش میں بڑے پیمانے پر تباہی، 55 دنوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے 113 واقعات، 330 افراد لقمہ اجل

(قومی آوازبیورو)شملہ: ہماچل پردیش میں شدید بارش اور لینڈ سلائیڈنگ نے تباہی مچا دی ہے۔ شملہ کے لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ اب تک 74 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ شملہ کے شیو مندر کے ملبے سے ایک اور لاش برآمد ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چمبا ضلع میں مزید دو لوگوں کی موت کے بعد ریاست میں بارش، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے متعلق واقعات میں مرنے والوں کی تعداد 74 ہو گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماچل پردیش میں اتنی تباہی کیوں ہوئی ہے؟ تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ ماہرین ارضیات نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔پہاڑوں میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ سڑک کو چوڑا کرنے کے نام پر پہاڑوں کو غلط طریقے سے کاٹا جا رہا ہے۔ پہاڑوں کی تعمیر اور جنگلات کا کم ہونا ہمالیہ کی عمر کو کم کر رہا ہے۔ تعمیر کی وجہ سے پہاڑوں میں شگاف پڑ رہے ہیں۔ ہماچل اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ عالم یہ ہے کہ یہاں دو سالوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں 6 گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف اس مانسون کے 55 دنوں میں 113 لینڈ سلائیڈنگ ہو چکی ہے۔ بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے متعلق واقعات میں 330 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ماہرین ارضیات کے مطابق سڑکوں کو چوڑا کرنے کے لیے ہماچل کے پہاڑوں کو سیدھا کاٹا جا رہا ہے۔ اس دوران پہاڑوں کے دامن کی چٹانیں بھی کاٹی جا رہی ہیں۔ ایسا کرنے سے نکاسی آب کا نظام ختم ہو گیا ہے۔ اس نے ہماچل کے ڈھلوان علاقوں کو لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بنا دیا ہے۔ تعمیرات کے دوران سرنگوں میں پھٹنے اور ہائیڈرو پراجیکٹس کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ہمالیائی خطہ میں کس سطح پر تعمیراتی کام چل رہا ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہماچل میں 68 سرنگیں بنائی جا رہی ہیں۔ ان میں سے 11 مکمل ہو چکے ہیں، 27 زیر تعمیر ہیں اور 30 تفصیلی پراجیکٹ رپورٹس تیار ہیں۔ ان میں سے بہت سے منصوبے مرکز کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ پراجیکٹ اسی طرح چلتے رہے تو ریاست میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔دریں اثنا، ہماچل پردیش میں، لینڈ سلائیڈنگ کے شکار علاقوں کی تعداد بڑھ کر 17120 ہو گئی ہے۔ ان میں سے 675 مقامات ایسے ہیں جہاں آبادی ہے۔ شملہ میں کئی سرکاری عمارتیں ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ کے خطرے کی زد میں ہیں۔