بھٹکل مسلم جماعت قطر کے زیر اہتمام وارتابھارتی کے ایڈیٹر جناب عبد السلام پوتوگے صاحب سے ایک خاص ملاقات
(موصولہ رپورٹ )بھٹکل مسلم جماعت قطر کے زیر اہتمام وارتابھارتی کے ایڈیٹر جناب عبد السلام پوتوگے صاحب کے ساتھ ایک ملاقاتی نشست رکھی گئی جس میں ہندوستانی مسلمانوں کے خاطر ایک دھڑکتا دل رکھنے اور تمام طبقوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ رکھنے اور صحافت کے میدان میں ایک اپنی الگ پہچان رکھنے اور ہندوستان کے مسائل پر دوررس نظر رکھنے اور گہرائی سے اس سے واقفیت رکھنے والے قابل قدر شخص محترم جناب عبد السلام پوتوگے صاحب کی قطر آمد کو غنیمت سمجھتے ہوئے ایک نشست بروز جمعرات دوحہ قطر میں رکھی گئی پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے جناب عبد الرب صاحب نے تلاوت کلام پاک کے بعد اور ایک مہمان سے تعارف کی درخواست کی انہوں نے بہترین انداز میں مختصر تعارف کیا موصوف نے کنڑا میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے جس کے بہت سارے ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور قرآن ایپ پر بھی دستیاب ہے اس طرح سیرت پاک پر بھی موصوف نے کتاب کی تصنیف کی ہے پھر وارتا بھارتی اخبار کے چیف اینڈ ایڈیٹر بھی ہیں اور پورے کرناٹک میں اخبار کی دنیا میں ایک مشہور نام ہے پھر موصوف سے ہندوستان کے حالات پر اوپن ڈیبیٹ کی شکل میں مخاطب ہونے کی درخواست کی گئی موصوف نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں مسلم ایک بڑی کمیونٹی ہے جو پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے اس کے مقابل ایسی کوئی کمیونٹی نہیں جو پورے ملک میں ہو پھر سوال کیا کہ ملک میں کل کتنی کمیونٹی ہیں؟پھر خود جواب دیا کہ 46 ملین سے زیادہ کمیونٹی پائی جاتی ہیں پھر حالات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ہمیں کیا رول ادا کرنا ہے اور مستقبل کے تئیں اچھی مثبت سوچ رکھتے ہوئے آگے بڑھیں اسلام اور مسلمانوں کی اچھی ترجمانی کیسے کریں اس کیلئے ہمارے پاس کیا پلیٹ فارم ہیں ہم اپنی تاریخ کو پڑھیں اور دشمن کی تاریخ کا مطالعہ کریں ہمارے قرآن کے آیت قتال کےایک ٹکڑے پر وہ اشکال کرتے ہیں لیکن ان کی پوری کتاب ہی اسی پس منظر میں ہے حقائق کو ثبوت اور دلائل سے پیش کریں اور غیروں کو قریب کرکے ان کے ساتھ اچھے روابط استوار رکھیں اور کب تک ہم اپنے حقوق کیلئے دوسروں سے انصاف مانگتے رہیں گے عملی میدان میں قدم رکھ کر اس کیلئے کوشش کریں آئندہ دس سالوں میں یا پچیس سال میں اس کے بہترین نتائج برآمد ہوں گے ہم اپنے اوپر اٹھائے جانے والے اشکالات اور شکوک وشبہات پر اچھے اور بہتر انداز میں دفاع کریں ہماری اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا نہ کہ ہم حالات پر شکوہ کرتے رہنا وہ ہمارے خلاف بہت کام کرتے ہیں تو ہمیں بھی اپنے دفاع میں اتنا ہی کام لینا چاہیے اور میڈیا میں مسلمانوں کا تناسب نہ کے برابر ہے اس کو بڑھانے کی فکر کرنا بہت ضروری ہے آج ہم پر جو قابض ہیں ان کی کئی سالوں کی محنتوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہے وہ صرف 3 فیصد رہ کر حکمران بن گئے 2019 کے الیکشن میں ان کے این آر ایس کئی مہینوں سے اپنے جابس اور کام سے چھٹی لیکر الیکشن کی تیاریاں کرنے کیلئے انڈیا آئے ہمیں بھی وقت دینا پڑے گا اور قربانی دینی ہوگی تب کچھ ہماری سیاست میں نمائندگی ہوگی موجودہ حکومت کے صرف 28 فیصد ووٹ ہیں اور ایک بڑی تعداد 62 فیصد ہے اس پر ان سے ان کے مسائل کے حل کرنےاور ان کا ساتھ دینے سے اکثریت میں اقتدار ممکن ہے انہوں نے مجلس میں چند مواد پر قیمتی معلومات جمع کرنے پر بھی زور دیا ہے اور حقائق کو جمع کرنے اور دلائل سے اس کو سامنے لانے کیلئے گزارش کی اور ہر وقت اپنے تعاون کا یقین دلایا اگر ضرورت ہوتو وہ خود آئیں گے یا پھر کوئی ان کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہو تو ان کے پاس آکر جڑ سکتا ہے اگر چہ کچھ دن ہی کیوں نہ ہو ان کے پاس بےشمار مسائل کا حل ہے اس کیلئے وہ اپنی قربانی دے رہے ہیں ہمیں بھی ان کو ہر طرح سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے پھر سامعین نے بہت سارے سوالات کیے موصوف نے عمدہ اور تشفی بخش جوابات دیے واضح رہے کہ انہوں نے نوجوانوں سے ان کا قیمتی وقت مانگا ہے اور ہمارے نوجوانوں نےبھی اس جانب توجہ دینے کی بات کہی ہےپھر جماعت کی طرف سے موصوف کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا انہوں نے اس پر شکریہ ادا کیا اور اپنی بے انتہا خوشی کا اظہار کیا پھر دعا پر مجلس کا اختتام ہوا
قرآن پاک کی بے حرمتی روکنے کیلئے سوئیڈن حکومت کا اقدام
(روزنامہ منصف )اسٹاک ہوم: سوئیڈش حکومت نے قرآن پاک کی توہین روکنےکے لیے قانونی امکانات پر غور کرنا شروع کردیا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ملکی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سوئیڈش حکومت نے سوئیڈن میں پولیس کو قرآن پاک کی بےحرمتی روکنے کے اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔سوئیڈش وزیر انصاف کا کہنا ہے کہ وہ ایک کمیشن تشکیل دیں گے جو پولیس کو قرآن کی بےحرمتی روکنے جیسے معاملات کیلئے وسیع اختیارات دے گا۔سوئیڈش حکومت کی جانب سے قومی سلامتی کو درپیش خطرات بنیاد بنانے پر غور کیا جارہا ہے اور سوئیڈن میں دہشتگردی کا خطرہ دوسری بلند ترین سطح پر کردیا گیا ہے۔واضح رہے سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جن پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا ہے۔
مسلم لڑکی کا برقعہ اتارنے سے انکار۔ ماہانہ 30ہزارتنخواہ کی نوکری ٹھکرادی
(روزنامہ منصف)حیدرآباد: حالیہ عرصہ تک ملک کی کئی ریاستوں میں حجاب کے استعمال پر اعتراض کیا جاتا رہا۔ دوسری طرف مسلم معاشرہ حجاب کے استعمال کے مسئلہ پر منقسم ہوچکا ہے۔چندکا احساس ہے کہ شدت پسندی سے کام لینے سے ہمارا ہی نقصان ہوگا۔ہم تعلیم اور روزگار کے میدان میں پسماندہ ہوجائیں گے۔دوسری طرف ہمارے معاشرہ کا نصف حصہ ایسا بھی ہے جو احکامات الٰہی پر سمجھوتہ کرنے تیار نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کودنیاکے خاطر بے پردہ کرنا نہیں چاہتا۔کرناٹک کے ضلع مانڈیا کی لڑکی مسکان خان جیسی بے شمار لڑکیاں حجاب اور برقعہ کو حصول تعلیم اور ترقی میں رکاوٹ نہیں سمجھتی ہیں گزشتہ دنوں حیدرآباد میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ رونماء ہواجہاں ایمانی جذبہ سے سرشار ایک مسلم لڑکی نے برقعہ اتار نے سے انکار کرتے ہوئے 30 ہزارروپے ماہانہ تنخواہ کی نوکری کوٹھکردیا۔سوشل میڈیا پرایک ویڈیو وائرل ہواہے جس میں اُس لڑکی کویہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ اس نے ایک کمپنی میں جاب کے لئے انٹرویو دی تھی اورکمپنی نے اس لڑکی کومنتخب کرلیا تھا تاہم کمپنی نے نوکری کے لئے برقعہ اتار نے کی شرط رکھی گئی تاہم لڑکی نے اس شرط کوناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس نوکری کوٹھکرا دیا۔لڑکی کے اس جذبہ ایمانی کوسراہا جارہا ہے۔ عوام کا ماننا ہے کہ جب تک ایسے حرارت ایمانی کے حامل لوگ رہیں گے دین اسلام پر آنچ نہیں آئے گی۔
اب آگرہ کی جامع مسجد کا سروے کرانے کا مطالبہ
(ای ٹی وی )گرہ: اترپردیش کے آگرہ ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں جامع مسجد آگرہ کی سیڑھیوں کے نیچے مبینہ طور پر دبی کرشن کی مورتی کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کئی عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ اب ایک عرضی گزار نے عدالت میں درخواست دے کر اے ایس آئی کی ٹیم سے جامع مسجد کا سروے کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت 25 اگست کو ہوگی۔واضح رہے کہ جمعہ کو آگرہ کی ایک عدالت میں 'شری کرشنا جنم بھومی پروٹیکٹڈ سروس ٹرسٹ کی جانب سے ایک نئی درخواست دائر کی گئی۔ اس میں اے ایس آئی کے تکنیکی ماہرین سے جامع مسجد آگرہ کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کرشن جنم بھومی پروٹیکٹڈ سروس ٹرسٹ کے کتھا کار دیوکی نندن ٹھاکر کا دعویٰ ہے کہ متھرا کے کیشو دیو مندر کی مورتیاں آگرہ کی جہاں آرا بیگم جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے دفن ہیں۔ اس سلسلے میں مدعی کے وکیل ونود شکلا نے کہا کہ ہم نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ اے ایس آئی کا سروے کرایا جائے اور اے ایس آئی کی رپورٹ کی بنیاد پر تنازع حل کیا جائے۔ اسی کے ساتھ ایک وکیل جنید ارشادی نے بھی عرضی داخل کرکے خود کو معاملے کا فریق بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت نے دونوں مقدمات کی سماعت کے لیے 25 اگست 2023 کی تاریخ مقرر کی ہے۔آگرہ جامع مسجد کیس میں ایک اور فریق سامنے آیاکتھا کار دیوکی نندن ٹھاکر بمقابلہ جامع مسجد کیس میں جمعہ کو ایک اور فریق سامنے آئے۔ ایڈووکیٹ جنید ارشادی نے عدالت میں درخواست جمع کراتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں انہیں بھی فریق بنایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے پاس اس سے متعلق اہم ثبوت بھی ہیں۔یہ مسجد شاہجہاں کی بیٹی جہاں آرا نے بنوائی تھیمورخ راج کشور راجے بتاتے ہیں کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے 14 بچے تھے جس میں مہرالنساء بیگم، جہاں آرا، دارا شکوہ، شاہ شجاع، روشن آرا، اورنگزیب، عمید بخش، ثریا بانو بیگم، مراد لطف اللہ، دولت افزا اور گوہرا بیگم شامل تھیں۔ شاہجہاں کی پسندیدہ بیٹی جہاں آرا تھیں۔ جہاں آرا نے اپنے وظیفہ کی رقم سے 1643 اور 1648 کے درمیان جامع مسجد تعمیر کروائی۔ جامع مسجد 271 فٹ لمبی اور 270 فٹ چوڑی ہے۔ اس دور میں اس کی تعمیر میں تقریباً پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ جامع مسجد میں بیک وقت 10 ہزار لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ہندو فریق کا دعویٰ ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ16ویں صدی کی ساتویں دہائی میں مغل بادشاہ اورنگ زیب نے متھرا میں کیشو دیو مندر کو منہدم کر دیا تھا۔ کیشو دیو مندر کی مورتیوں اور دیگر چیزوں کو آگرہ لایا گیا اور ان بتوں اور دیگر اشیا کو جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے دبا دیا گیا ہندو فریق اپنے یکطرفہ دعوے کی بنیاد پر مبینہ طور پر مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے دبے ان بتوں کو نکالنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
مفت بجلی، مفت علاج اور بے روزگاری بھتہ.... کیجریوال نے چھتیس گڑھ میں کئے یہ وعدے، کانگریس پر سادھا نشانہ
(نیوز ۱۸ اردو)رائے پور: چھتیس گڑھ میں اگلے اسمبلی انتخابات کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے قومی کنوینر اروند کیجریوال نے ہفتہ کو ریاست میں سرکاری اسکولوں کی "خراب" حالت پر کانگریس حکومت پر تنقید کی۔ دہلی کے وزیر اعلی کیجریوال نے رائے پور میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کیا۔ اس دوران پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت مان بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس دوران انہوں نے سبھی کو 300 یونٹ مفت بجلی، مفت علاج اور ہر بے روزگار کو تین ہزار روپے ماہانہ بے روزگاری الاؤنس دینے کا وعدہ کیا۔ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی کیجریوال نے کہا کہ یہاں آنے سے پہلے میں ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا… یہاں سرکاری اسکولوں کا برا حال ہے… انہوں نے (حکمران کانگریس) کئی اسکولوں کو تو بند کر دیا ہے، جب کہ کئی ایسے اسکول ہیں، جن میں دس دس کلاسز اور صرف ایک ٹیچر ہے۔ اروند کیجریوال نے مزید کہا کہ "کئی ایسے اساتذہ ہیں جنہیں کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں... ایسے اساتذہ ہیں ، جن سے پڑھانے کے علاوہ دیگر سبھی کام کئی گھنٹوں تک کروائے جاتے ہیں..."اس کے بعد انہوں نے دہلی کے سرکاری اسکولوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کی صورتحال چھتیس گڑھ کے اسکولوں سے بالکل مختلف ہے۔ اے اے پی کے سربراہ نے یہاں کہا کہ دوستو، انٹرنیٹ پر تلاش کرلینا یا دہلی میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے پوچھ لینا، وہاں کے سبھی سرکاری اسکول میری حکومت میں چمک رہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے آج تک 75 سالوں میں پہلی میری حکومت آئی ہے جس نے تعلیم پر اتنا زور دیا ہے۔ آج دہلی کے سرکاری اسکولوں کے نتائج پرائیویٹ اسکولوں سے بہتر آرہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی وزیر اعلی کیجریوال نے کہا کہ چھتیس گڑھ میں عام آدمی پارٹی کی حکومت بننے کے بعد ہر بے روزگار کو روزگار فراہم کیا جائے گا اور جب تک نوکری نہیں ملتی، تب تک ہر بے روزگار کو 3000 روپے ماہانہ بے روزگاری الاؤنس دیا جائے گا۔ نیز اروند کیجریوال نے ریاست کے لوگوں کو مفت بجلی کی ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ دہلی اور پنجاب کی طرح چھتیس گڑھ کے ہر گھر کو ہر ماہ 300 یونٹ بجلی مفت دی جائے گی۔ چھتیس گڑھ کے سبھی گاؤں اور شہروں کو بغیر کسی کٹوتی کے 24 گھنٹے بجلی دی جائے گی۔ چھتیس گڑھ میں عام آدمی پارٹی کی حکومت بننے کے بعد سبھی پرانے بقایا گھریلو بجلی کے بلوں کو معاف کر دیا جائے گا۔کیجریوال نے خواتین کے لئے ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ18 سال سے زیادہ عمر کی سبھی خواتین کو ہر ماہ ایک ہزار روپے کی استری سمان راشی دی جائے گی۔ انھوں نے ریاست کے لوگوں کو بچوں کے لئے مفت تعلیم کی ضمانت دی اور کہا،چھتیس گڑھ کے ہر بچہ کو معیاری اور مفت تعلیم دی جائے گی۔
میاں بیوی نے مسافر کو ریل کی پٹری پر ڈھکیل دیا، ٹرین کی زد میں آنے سے موت
(ای ٹی وی )مبئی: ریاست مہاراشٹر کے ممبئی کے سائن ریلوے اسٹیشن پر دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے۔ ایک نوجوان سے ایک خاتون کو دھکا لگنے کے بعد خاتون اور اُس کے شوہر نے زبردست پٹائی کی۔ مار پیٹ کے دوران نوجوان اچانک ریلوے ٹریک پر گر گیا۔ لوکل ٹرین کی زد میں آکر دم توڑ گیا۔ یہ پورا واقعہ سی سی ٹی وی میں قید ہوگیا۔ دادر ریلوے پولیس نے 13 اگست کو پیش آنے والے واقعے کے سلسلے میں ملزم شوہر اور اُسکی بیوی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔اس حادثے میں ہلاک ہونے والے نوجوان کا نام دنیش راٹھوڑ (26) ہے۔ وہ نوی ممبئی کے گھنسولی گاؤں کا رہنے والا تھا وہ بیسٹ میں ملازمت کرتا تھا اس معاملے میں دادر ریلوے پولیس نے اویناش مانے اور شیتل اویناش مانے کو گرفتار کیا ہے دونوں کولہاپور کے رہنے والے ہیں۔یہ واقعہ ممبئی میں سنٹرل ریلوے کے سائن ریلوے اسٹیشن پر پیش آیا۔ ملزم خاوند اور اُسکی زوجہ پلیٹ فارم نمبر ایک کی سیڑھیاں اتر کر پلیٹ فارم پر آ رہے تھے اسی وقت شیتل مانے کو مسافر دنیش راٹھور نے دھکا دیا۔ حیران ہو کر شیتل نے دنیش پر چھتری سے حملہ کر دیا۔ جیسے ہی اس نے اسے مارنا شروع کیا اویناش نے بھی اسے مارنا شروع کردیا۔اسی دوران دنیش اپنا توازن کھو بیٹھا اور ریلوے ٹریک پر گر گیا۔ اسی وقت تھانے کی طرف جانے والی ایک لوکل پلیٹ فارم نمبر ایک پر آ رہی تھی۔ دنیش نے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹرین کی زد میں آ گیا اس چوٹ کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی۔
فرقہ پرستی کے خلاف ملک کے اکثریتی طبقہ کو کھڑا ہونا ہوگا‘ مولانا محمود مدنی کی دعوت پر دانشوروں، سیاسی اور سماجی رہنماؤں کا اہم اجتماع
نئی دہلی: ’’موجودہ صور ت حال پر باہمی مذاکرہ‘‘ کے عنوان سے ایک اہم اجتماع جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی کے مدنی ہال میں منعقد ہوا، جس میں مختلف شعبۂ حیات سے وابستہ شخصیات ، ماہر ین معیشت، سماجی کارکنان، مفکر اور پروفیسر حضرات شریک ہوئے۔ اجتماع میں ملک کو درپیش فرقہ پرستی سے چیلنج، سماجی تانے بانے کے بکھرائو اوراس کی روک تھام کے مختلف پہلوؤوںکا جائزہ لیا گیا اور زمینی سطح پر کام کرنے اور سمواد کی ضرورت پر اتفاق کیاگیا ۔سبھی دانشوروں نے یہ محسوس کیا کہ فرقہ پرستی اس ملک کی فطرت سے میل نہیں کھاتی او رنہ وطن عزیز کی اکثریت ایسی سوچ کی طرف دار ہے ، لیکن اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ جو لوگ مثبت سوچ کے حامل ہیں ، انھوں نے یا تو خاموشی کی چادر اوڑھ لی ہے یا ان کی بات سماج کے آخری حصے تک نہیں پہنچ رہی ہے،جس کی وجہ سے جو لوگ ملک کی سماجی ڈھانچہ کو بدل دینا چاہتے ہیں یا نفرت کی دیوار کھڑی کرکے اپنی ملک دشمن آئیڈیالوجی کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں ، وہ بظاہر حاوی ہوتے نظر آرہے ہیں، حالاں کہ یہ حقیقت نہیں ہے۔اس لیے سماج کی اکثریت کو خاموشی کے بجائے میدان عمل میں آنا ہوگا اور بھارت کی عظمت اوراس کے فطری وجود کو بچانے کی متحدہ و متفقہ لڑائی لڑنی پڑے گی۔اپنے افتتاحی کلمات میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور پروگرام کے داعی مولانا محمود اسعد مدنی نے دانشوروں و سماجی رہ نمائوں کا استقبال کرتے ہوئے سوال کیا کہ ایسے حالات میں جب کہ ملک کی ایک بڑی اقلیت کو ان کے مذہب وعقیدے کی وجہ سے مایوس کرنے یا دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ، ہمیں اس کے سدباب کے لیے کیاضروری اقدامات کرنے چاہییں؟ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کے بزرگوں نے گزشتہ سوسال سے باضابطہ اور دوسو سال سے نا ن آفیشل طور پرملک کو جوڑنے کی کوشش کی اور وطن کی عظمت کو حرز جاں بنایا، جب ملک کی تقسیم کی بنیاد رکھی گئی تو ہمارے اکابر نے اپنوں سے مقابلہ کیا ، ملک کے لیے بے عزتی برداشت کی اور آزادی کے بعد قومی یک جہتی کے لیے اپنی قربانیوں کے انمٹ نقوش چھوڑے اور تمام مشقتوں کے باوجود ہم آج تک اپنی ڈگر سے نہیں ہٹے ہیں ۔ آج کے حالات میں بھی ہم ڈائیلاگ کے حق میں ہیں ، ہمارا موقف ہے کہ سب کے ساتھ ڈایئلاگ ہونا چاہیے اور ایک ایسی مشترکہ مہم چلنی چاہیے کہ وطن کا ہر دھاگہ ایک دوسرے سے جڑ جائے۔معروف سماجی مفکر جناب وجے پرتاپ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے باہمی مذاکرہ ( سنواد) پر زوردیا اور کہا کہ جمعیۃ علماء ہندنے جو قربانیاں دی ہیں ،وہ بے کار نہیں گئی ، اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ تقسیم ہند کے انتہائی فرقہ وارانہ ماحول کے باوجود ملک کا آئین سیکولر بنیاد پر بنا۔اسلام کے نظریات و افکارکی جو ترقی ہندستان میں ہوئی ، بڑے بڑے اسلامی مفکر یہاں پیدا ہوئے ، جن کے تذکرے کے بغیر عالمی سطح پر اسلام کا تذکرہ ادھورا اور نامکمل ہے ، اس کے علاوہ ملک کی ترقی کے جتنے عناوین ہیں ،ان میں مسلمانوں کا دیگر اہل وطن کی طرح بڑا کردار ہے، اس لئے ہمیں موجودہ حالات میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، ہر قوم کے ساتھ ایسے حالات ہو تے ہیں اورجو قوم ہوش مندی کا ثبوت دیتی ہے وہ حالات سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب ہو تی ہے۔ماہر معاشیات پروفیسر ارو ن کمار نے کہا کہ ملک میں معاشی نابرابری کی وجہ سے دائیں بازو کے عناصر کو اپنے خیالات کے فروغ کا موقع مل جاتا ہے، انھوں نے کہا کہ سرکار نے جو دعوی کیا کہ تیرہ کروڑ سے زائد افراد غریبی کی لکیر سے اوپر اٹھ گئے ہیں ،یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ غیر منظم سیکٹر میں 94 فی صد سے زائد لوگ دس ہزار سے کم ماہانہ تنخواہ پاتے ہیں ، جو غربت سے کبھی نہیں ابھر سکتے۔سپریم کورٹ کے معروف وکیل سنجے ہیگڑے نے کہا کہ ہم ایک عجیب دور میں رہے ہیں ۔ آج لوگ آئین کو بدلنے کی بات کررہے ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ آئین کی حفاظت کی جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم آئین کو اس کے حقیقی معنوں میں نافذ کریں اور آئین کو ختم کرنے والوں کو یہ پیغام پہنچائیں۔دوسری نشست میں موجودہ حالات کے تدارک پراپنے خیالات پیش کرتے ہوئے جناب ڈاکٹر سوربھ باجپائی مورخ دہلی یونیورسٹی نے کہا کہ مجھے تاریخ کے مطالعہ کے دوران جن اداروں پر فخر کا احساس ہوا ، ان میں ایک جمعیۃ علما ء ہند بھی ہے ۔ اس جماعت کے سرخیل رہ نما حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے پاکستان بننے کی مخالفت کی ، ان کے ساتھ اس ملک کے اکثر مسلمان تھے ، یہ بات سراسرخلاف واقعہ ہے کہ ۹۰ فی صد مسلمانوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیا ،وہ عام مسلمان نہیں تھے بلکہ جاگیردار مسلمان تھے ،جن کو ہی ووٹ کاحق تھا ۔ دہلی کی جامع مسجد کے پاس پاکستان کے حامیوں اور مخالفوں کا اجلاس ہوا۔ حمایت کرنے والوں کے جلسہ میں صرف پانچ سو لوگ تھے اور جو حامی تھے جن کی قیادت جمعیۃ علماء کررہی تھی، ان کے جلسہ میں دس ہزار کا مجمع تھا۔انھوں نے کہا کہ جو قوم اپنی تاریخ بھلا دیتی ہے ، وہ خود کو مٹا دیتی ہے ۔ ہندستان کے مسلمانوں کی اکثریت نے تقسیم کی مخالفت کی تھی ، یہ ایک تاریخ ہے ، ایک طرف صرف مسلم لیگ تھی تو دوسری طرف جمعیۃ علماء کے ساتھ ۱۹ ؍ مسلم جماعتیں تھیں ، اس لیے ملک پر مسلمانوں کا حق اتنا ہی ہے جتنا کسی اور کا ہے۔انھوں نے کہا کہ باہمی مکالمہ تب ہی کامیاب ہو گا جب کہ دونوں فریقین اپنی آئیڈیالوجی اور سوچنے کا طریقہ درست کر لیں۔معروف مصنفہ محترمہ رجنی بخشی نے موجود ہ حالات میں گاندھیائی تحریک اہنسا کی وکالت کی او رکہا کہ اہنسا کا مطلب ظلم کے خلاف خاموش رہنا نہیں ہے اور نہ اس کے لیے کسی کو مہاتما بننے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں برے سے برے لوگوں میں اچھا ئی کا احساس پیدا کرنا ہے اور برائی کی وجہ سے کسی کی ذات سے نفرت نہیں کرنی ہے ۔رماشنکر سنگھ بانی چانسلر آئی ٹی ایم یونیورسٹی گوالیر نے کہا کہ موجود ہ لڑائی کوئی فرقہ وارانہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے وجود کی لڑائی ہے، ہمیں ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے سبھی طبقوں اور تنظیموں کا فیڈریشن بنانا چاہیے ، اس ملک میں سادھوسنتوں اور صوفیوں کے مشترکہ پیغامات تیار کرکے نئی نسلوں کو پہنچائیں اور آزادی کے نائیکوں اور ان کی قربانیوں کو ہر طبقے تک پہنچائیں ۔ ہماری لڑائی جس طاقت سے ہے وہ بہت منظم ہے ، اس کا نظام صبح کی شاکھا سے شروع ہوتا ہے ، وہ نئی نسلوں کے درمیا ن پہنچتے ہیں ، ان کی ذہنی تربیت کرتے ہیں اور ہم نے جو خلا چھوڑدیا ہے اسے وہ اپنی رنگ سے بھرتے ہیں۔معروف عیسائی رہ نما جان دیال نے کہا کہ آج فرقہ پرستی ملک کے نظام کا حصہ بنتی جارہی ہے ، یہاں اقلیتوں پر ظلم ہو تاہے اور پھر سزا بھی اسے ہی دی جاتی ہے ، ملک کے آئین نے اقلیتوں کے حقوق طے کردیے ہیں ، اگریہ حقوق سلب کرلیے گئے تو ڈائیلاگ کا کیا فائد ہ ہے ۔سکھ انٹرنیشنل فارم کے رکن سردار دیا سنگھ نے کہا کہ مسلمان جو آج حالات کا سامنا کررہا ہے ، ہم نے ماضی میں ایسے حالات دیکھے ہیں ، ہم مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں ۔اخیر میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔اویس سلطان خاں اور مولانا مہدی حسن عینی دیوبند نے مہمانوں کا استقبال کیا اور ان کی ضیافت کی ۔ مولانا نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے نظامت کے فرائض انجام دیے ، انھوں نے موجودہ حالات پر بہت ہی موثر پرزینٹیشن پیش کیا ۔دیگر جن شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں ڈاکٹر اندو پرکاش سنگھ، وجے مہاجن ،پروفیسر ریتو پریا جے این یو ،پروفیسر ایم ایم جے وارثی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،ڈاکٹر لینن رگھونشی فائونڈر پی وی سی ایچ آر،کیلاش مینا آرٹی آئی ایکٹویسٹ،بھائی تیج سنگھ،تبسم فاطمہ،مریتون جے سنگھ ریسرچر،پشپا راج دیش پانڈے، فادر نکولس، جینت جگیاسوجی ، انوپم جی ، اوی کٹھپالیا، ہریش مشرا بنارس والے ،ڈاکٹر ہیرا لال ایم ایل اے، فادر نکولس برالا،موہن لال پانڈا،ایڈوکیٹ ستیش ٹمٹا، فادر وجے کمار نائک،ابھیشیک شری واستوکے نام خاص طور قابل ذکر ہیں۔
0 تبصرے