بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی تقریر کے دوران ایک شخص حفاظتی حصار میں داخل، پولیس حراست میں لیا گیا
(قومی آوازبیورو)پٹنہ: بہار میں سی ایم نتیش کمار کی تقریر کے دوران ایک شخص نے ان کا حفاظتی حصار توڑنے کی کوشش کی۔ تاہم پولیس نے اس شخص کو حراست میں لے لیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ شخص زبردستی حفاظتی حصار توڑ کر آگے بڑھ رہا تھا۔ پولیس اس شخص کو حراست میں لینے کے بعد مزید کارروائی کر رہی ہے۔قبل ازیں، جون کے شروع میں صبح کی سیر کے دوران دو موٹر سائیکل سوار حفاظتی حصار توڑ کر ان کے پاس پہنچ گئے تھے۔ دونوں موٹر سائیکل سوار بہت تیزی سے آئے تھے اور وزیر اعلیٰ سے ٹکر لگنے سے بال بال بچ گئے تھے۔ وزیر اعلیٰ نے تیزی سے فٹ پاتھ پر چڑھ کر بائیک سواروں سے خود کو بچایا تھا۔پچھلے سال مارچ میں بھی پٹنہ کے بختیار پور علاقے میں ایک پروگرام کے دوران ایک نوجوان وزیر اعلیٰ کے بہت قریب آ گیا تھا اور پیچھے سے انہیں گھونسا مار دیا تھا۔
جمہوریت اور آئین کو بچانے کے لیے مسلسل کریں گے جدوجہد: کھڑگے
(یو این آئی)نئی دہلی: کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے مودی حکومت پر آمرانہ انداز میں کام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جمہوریت اور آئین ملک کی روح ہیں، اس لیے یوم آزادی پر سب کو قومی یکجہتی، سالمیت، محبت، بھائی چارہ، ہم آہنگی جمہوریت اور آئین کے جذبے کو بچائے رکھنے کا کا عزم کرنا ہے۔ یہاں جاری ایک ویڈیو پیغام میں ملک کے عوام کو یوم آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے کھڑگے نے کہا کہ قومی تحریک کے دوران بے شمار ہندوستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ہم ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔انہوں نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سمیت دیگر تمام وزرائے اعظم کے کام کو یاد کیا اور کہا کہ ان کی شراکت نے ہندوستان کی ترقی کے سفر کو آگے بڑھایا ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ انہیں تکلیف ہے کہ آج ملک کی جمہوریت، آئین اور ادارے تینوں بہت بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں۔ سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی)، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)، الیکشن کمیشن جیسے اداروں کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کو معطل کرکے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔کھڑکے نے مودی حکومت پر نام بدل کر پرانی اسکیموں کو آگے بڑھانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ عظیم لوگ نئی تاریخ لکھنے کے لیے پرانی تاریخ کو نہیں مٹاتے۔ وہ اپنی لکیر بڑی کھینچتے ہیں، وہ پہلے سے کھینچی ہوئی لکیر کو کاٹ کر یا مٹا کر چھوٹا نہیں کرتے۔ جو حکومت ہمیشہ نام بدل کر پچھلی حکومتوں کے کاموں کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہے، ان سے زیادہ توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اب پرانے قوانین کو جس نے ملک کو استحکام اور امن فراہم کیا، امن فراہم کیا، ان کا نام بدل کر نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا ’’منی پور ہو، ہریانہ ہو، یوپی ہو - چاہے ملک کا کوئی بھی کونا ہو- جہاں بھی ناانصافی ہوگی، کانگریس پارٹی انصافکے لئے لڑے گی اور آواز اٹھائے گی۔ کانگریس نوجوانوں کے حقوق، کسانوں کی فلاح و بہبود، خواتین کی عزت، سماج کے پسماندہ لوگوں کے انصاف کے لیے، چھوٹے تاجروں کی کمائی کے لیے کھڑی ہے۔‘‘
وزیر اعظم نے لال قلع سے حزب اختلاف پر کیا حملہ، کہا- ’دوبارہ آؤں گا!‘
(قومی آوازبیورو)نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے کہا کہ 2014 میں انہوں نے تبدیلی لانے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ ’میرے پریوار جنوں‘ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ہم وطنوں نے ان پر بھروسہ کیا۔ انہوں نے کہا ’’ تم سے اپنے وعدے کو یقین میں بدل دیا۔ 2019 میں کارکردگی کی بنیاد پر، آپ نے مجھے دوبارہ نواز ا اور آئندہ 15 اگست کو میں دو دوبارہ آؤں گا۔ میں صرف تمہارے لیے جیتا ہوں۔ اگر مجھے پسینہ آتا ہے تو میں آپ کے لیے پسینہ کرتا ہوں۔ کیونکہ تم میری فیملی ہو۔ میں تمہارا دکھ نہیں دیکھ سکتا۔‘‘دراصل لال قلع کی فصیل سے وزیر اعظم کی ان کے ان پانچ سالہ اقتدار کی آخری تقریر تھی اس لئے ان کی اس تقریر میں زیادہ ایسا لگا جیسے وہ ملک کے رائے دہندگان سے خطاب کر رہے ہوں ۔ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک پر بولتے ہوئے بھی ان پر یہی الزام لگا تھا کہ انہوں نے منی پور پر کم بولا اور اپنے رائے دہندگان کے سامنے اپنی حکومت کا رپورٹ کا رڈ زیادہ پیش کیا ہے۔وزیر اعظم مودی نے کہا منی پور پر کہا کہ ’’ماضی میں منی پور میں تشدد کا دور تھا۔ کئی لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے، ماؤں بیٹیوں کی عزتوں سے کھیلا گیا۔ لیکن کچھ دنوں سے مسلسل امن کی خبریں آرہی ہیں۔ ملک منی پور کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ عوام امن کے تہوار کو آگے بڑھائیں۔ امن سے ہی کوئی راستہ نکلے گا۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں امن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں اور کرتی رہیں گی۔‘‘
77ویں یوم آزادی پر لال قلعہ پر وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے پرچم کشائی کے بعد فضائیہ کے ایک ہیلی کاپٹر نے پھولوں کی بارش کی۔ اس کے بعد وزیر اعظم مودی کا خطاب لال قلعہ کی فصیل سے شروع ہوا ۔ وزیر اعظم نے کہا ’’ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور اب آبادی کے لحاظ سے بھی سب سے آگے ملک ہے۔ اتنا بڑا ملک، میرے خاندان کے 140 کروڑ لوگ آج یوم آزادی منا رہے ہیں۔ میں ان تمام بہادروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا۔‘‘اپوزیشن اور کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے کہا کہ ’’آج خاندان پرستی نے ہمارے ملک کو برباد کر دیا ہے۔ سیاسی جماعت کا انچارج صرف ایک خاندان کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے لیے اس کی زندگی کا منتر ہے - خاندان کی پارٹی، خاندان کے لیے اور خاندان کے لیے۔ ملک کی ترقی کے لیے خاندان پرستی سے آزادی ضروری ہے۔ خوش کرنے کی سیاست نے سماجی انصاف کو مار ڈالا۔ ملک ترقی چاہتا ہے۔ ملک 2047 کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتا ہے۔بدعنوانی نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔‘‘77 ویں یوم آزادی کے موقع پر پی ایم مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے کہا کہ وقت کی ضرورت ملک کو ان تین برائیوں کے خلاف لڑنا ہے – بدعنوانی، خاندان اور خوشامد۔انہوں نے کہا کہ ’’ بدعنوانی کے خلاف لڑتا رہوں گا۔ خاندان پرستی نے ہمارا ملک چھین لیا ہے۔ ہمیں ان تینوں برائیوں کے خلاف پوری قوت سے لڑنا ہے۔ ہمیں ان تینوں برائیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔‘‘وزیر اعظم مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے کہا کہ ’’ آج میں لال قلعہ سے آپ کا آشیرواد لینے آیا ہوں۔ آج ہمیں کچھ چیزوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ 2047 میں جب ملک آزادی کے 100 سال کا جشن منائے گا، اس وقت دنیا میں ہندوستان کا ترنگا جھنڈا ترقی یافتہ ہندوستان کا ترنگا پرچم ہونا چاہئے۔‘‘
بیٹی کو کندھے پر لے جانے والے باپ شعیب کو گولی مار دی گئی
(روزنامہ منصف)شاہجہاں پور: اترپردیش کے شاہجہاں پور میں ایک شخص پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔ اس شخص پر دو افراد نے فائرنگ کی جس میں وہ زخمی ہوگیا۔ پولیس نے بتایا کہ پیر کو شاہجہاں پور میں ایک شخص کو جو اپنی بیٹی کو کندھے پر اٹھائے ہوئے تھا قریب سے گولی مار دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ شخص کی حالت تشویشناک ہے، جبکہ بیٹی کو حملہ میں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔سی سی ٹی وی فوٹیج میں متاثرہ شخص کو ایک تنگ گلی میں چلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جب مخالف سمت سے آنے والے ایک شخص نے بندوق نکالی اور اسے قریب سے گولی مار دی۔گولی لگنے کے بعد مقتول زمین پر گر جاتا ہے اور اس کی بیٹی بھی۔ اس کے بعد حملہ آور دو دیگر افراد کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا اور موقع سے فرار ہو گیا۔پولیس کے مطابق واقعہ کے سلسلے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ متاثرہ 30 سالہ تاجر شعیب نامی شخص شاہجہاں پور میں اپنے آبائی گھر آیا ہوا تھا۔
سینئر پولیس افسر اشوک مینا نے کہا کہ "دو ملزمان غفران اور ندیم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حملہ آوروں کے زیر استعمال موٹر سائیکل بھی ضبط کر لی گئی ہے۔تیسرے ملزم طارق کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔” پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمین میں سے ایک مقتول کا کزن ہے، انہوں نے مزید کہا کہ حملہ کچھ پرانی ذاتی دشمنی کی وجہ سے کیا گیا۔
کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے“،نوح کے مسلمانوں میں خوف کا ماحول
(روزنامہ منصف)نئی دہلی: ہریانہ کے نوح علاقے میں تشدد سے متاثرہ مسلمان باشندے، ہندو مہاپنچایت کے مطالبات پر منقسم ہیں جنہوں نے مسلم اکثریتی نوح کو ہریانہ کے دیگر اضلاع کے ساتھ ضم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اتوار کے روز ہندو مہاپنچایت کی قیادت میں کئی دائیں بازو کے گروپوں اور گاؤں کی پنچایتوں نے حکومت کے سامنے کئی سخت مطالبات رکھے تھے۔ہریانہ کھاپس، مذہبی رہنماؤں اور ہندو تنظیموں نے پلوال مہاپنچایت میں مطالبہ کیا ہے کہ مسلم اکثریتی ضلع نوح کو ہریانہ کے دیگر اضلاع کے ساتھ ضم کیا جائے۔انہوں نے اپنے دفاع کے لئے نوح میں رہنے والے ہندوؤں کے لئے اسلحہ لائسنس بھی مانگے تھے۔ تاہم نوح میں رہنے والے مسلمان ان مطالبات پر منقسم ہیں اور انہوں نے ہندو مہاپنچایت کے مطالبات پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔نوح میں ایک ہوٹل کے مالک عبدالوہاب کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان فرقہ وارانہ مطالبات کو یکسر مسترد کر دینا چاہئے۔ ایسی فرقہ وارانہ چیزوں کی ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔تاہم نصیب سنگھ نے جو کہ نوح میں گروسری کی دکان چلاتے ہیں، کہا کہ ان کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ مطالبات مکمل طور پر جائز ہیں۔ ان جھڑپوں سے پہلے بھی ہم اپنی حفاظت کے بارے میں بہت زیادہ پریشان تھے۔اگر حکومت ان مطالبات کو پورا کرنے پر راضی ہو جائے تو ہماری زندگی آسان ہو جائے گی۔ایک 32 سالہ مائیگرنٹ ورکر عمران نے کہا کہ پچھلے ہفتے جو کچھ ہوتا دیکھا اس کے بعد وہ کبھی گروگرام واپس نہیں آئے گا۔عمران کا کہنا ہے کہ وہ میں ہندوؤں کے درمیان رہنے کے لئے کبھی واپس نہیں آئے گا۔اس نے اپنے چھوٹے ٹرک میں اپنا سامان لادنے کے دوران یہ بات کہی۔ وہ بہار میں اپنے آبائی گاؤں واپس جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایک اور مائیگرنٹ ورکرعالم حسین نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم اب ختم نہیں ہو سکتی۔ میں نے مسلمانوں کو اس وقت جتنا بے چین دیکھا ہے اتنا کبھی نہیں دیکھا۔ میں اس احساس میں رہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ کسی بھی وقت کچھ برا ہوسکتا ہے۔
سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ کہاں گیا؟ مودی سے اسد الدین اویسی کا استفسار
(روزنامہ منصف)حیدرآباد: صدر مجلس اسد الدین اویسی نے امید ظاہر کی تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی 15 اگست کو قومی دارالحکومت میں یوم آزادی کے موقع پر اپنی تقریر کے دوران ہریانہ کے نوح میں انہدام کی کارروائی اور مبینہ تشدد کی مذمت کریں گے جس کے ذریعہ اس مخصوص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔یہاں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اویسی نے کہا کہ ایک طرف مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر کا استعمال کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف دہلی میں ان کے گھر پر حملہ ہوا ہے۔وزیر اعظم کو نوح میں گھروں کے انہدام کی مذمت کرنی چاہئے۔ اگر انہیں ہندوستانی مسلمانوں سے کچھ محبت ہے تو میں ان سے امید کرتا ہوں کہ وہ کل لال قلعہ سے ٹارگیٹیڈ تشدد کی مذمت کریں گے۔ہم وزیر اعظم سے توقع کرتے ہیں کہ جس طرح سے ایک مذہب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ تشدد کی مذمت کریں گے اور چاہے وہ نوح میں تشدد ہو یا کہیں اور۔اسد اویسی کے مطابق ایک مخصوص مذہب کے لوگوں کے گھروں کو مسمار کرکے ایک کمیونٹی کو اجتماعی سزا دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم تشدد کی مذمت کرتے ہیں لیکن آپ ایک کمیونٹی کو اجتماعی سزا دے رہے ہیں۔انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وزیر اعظم کا ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس’ کا نعرہ کہاں گیا؟مختلف ریاستوں میں انہدام کی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے ایم آئی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ہریانہ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور گجرات میں بلڈوزر کا استعمال کیا گیا۔کیا اس ملک میں کوئی عدالتیں یا قانون نہیں ہیں؟انہوں نے پوچھا کہ کیا قانونی تقاضوں کو پورا کیا جائے گا یا نہیں؟ انہوں نے یاد دلایا کہ یہ جہانگیر پوری کیس میں سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے جہاں عدالت نے کہا تھا کہ مناسب عمل (قانون) پر عمل کیا جانا چاہئے۔اپنی دہلی کی رہائش گاہ پر مبینہ حملے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک تو نوح میں مسلمانوں کی عمارتوں کو گرانے کے لئے بلڈوزر کا استعمال کیا گیا اور شاید ہم اپنے گھر پر بھی بلڈوزر آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔پارلیمنٹ میں ایک اہم تقریر پر یہ لوگ پتھراؤ کرتے ہیں… میں چار بار ایم پی رہ چکا ہوں اور میرے گھر پر پتھر پھینکے جاتے ہیں۔اویسی نے مزید کہا کہ انہیں ایک نامعلوم شخص کی طرف سے دھمکی آمیز ایس ایم ایس بھی موصول ہوا جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کرائی گئی۔انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی کی حکمرانی کے پچھلے 9 سالوں میں لوگوں کے رہنے کے لئے خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ ان کے خیال میں اس واقعہ کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ایم آئی ایم لیڈر نے کہا کہ جو لوگ مسلمانوں کے ہجومی تشدد میں ملوث ہیں اور اس کے پیچھے ایک جیسی سوچ رکھنے والے ہیں، وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اویسی نے مزید کہا کہ وہ ایسی چیزوں سے نہیں ڈرتے۔
0 تبصرے