فسادسے متاثرہ علاقوں میں چھوٹے دوکانداروں کی مالی مددکیلئے جمعیۃعلماء ہند آگے آئی:مولانا ارشدمدنی

(روزنامہ منصف)نئی دہلی: صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر آج ایک بارپھر جمعیۃعلماء ہندکا وفد میوات فساد متاثرین سے ملنے اور بازآباد کاری اور راحت رسانی کے لئے مفتی سید معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کی سربراہی میں نوح اورمیوات پہنچا۔جمعیۃ علماء ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق وفد کے ارکان سب سے پہلے مولانامحمد خالد قاسمی سابق صدر جمعیۃ علماء متحدہ پنجاب کی رہائش گاہ نوح پہونچا جہاں پر جمعیۃ علماء متحدہ پنجاب کے صدر مولانا محمد ہارون قاسمی،حاجی میاں رمضان،مولانا حکیم الدین اشرف، مولانا محمد شوکت و آس پاس کے اضلاع کے ذمہ داران کے ساتھ موجودہ حالات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا مدنی کے حکم کے مطابق یہ طے ہوا کہ جتنے بھی چھوٹے چھوٹے کاروبارکرنے والے تھے،جنکی ریڑھی.پٹری، ٹھیلہ ،کھوکھا وغیرہ کو فسادیوں یا انتظامیہ کے ذریعہ ختم کردیا گیا ہے انکو ریڑھی. پٹری،ٹھیلہ،کھوکھا وغیرہ مہیاکراکردی جائے، تاکہ روزمرہ کھانے کمانے ولے پھر سے اپنے کاروبارسے لگ سکیں، پہلے مرحلہ میں ان متاثرین کی نشاندہی کرلی گئی ہے۔بہت جلد جمعیۃعلماء ہند کی ریلیف ٹیم ان تمام لوگوں کو کاروبارسے جڑنے میں پوری مددکرے گی تاکہ وہ پہلے کی طرح اپنے گھروالوں کا پیٹ بھر سکیں اوران کے لئے دیگرضروریات زندگی کے سامان کا انتظام کرسکیں۔ نیز جن لوگوں کے مکانات کوپوری طرح سے منہدم کردیا گیا ہے اور انکے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے ان کے باز آبادکاری کا مسئلہ بھی زیر غور ہے ان شاء اللہ بہت جلد بجٹ مختص کرکے اس پر بھی کام شروع کردیاجائے گا۔وفد نے ان تمام بے قصورنوجوانوں کے گھروالوں سے بھی ملاقاتیں کیں جن کو پولیس نے گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالدیا ہے، جمعیۃعلماء ہند کے اس وفد کو محروسین کے گھروالوں نے اپنی بے گناہی اور پے درپہ ہونے والی بے جا گرفتاریوں پر اپنی بے بسی کااظہارکیا،اس پر وفد نے جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ہرطرح کی قانونی امداد کی یقین دہانی کرائی گئی۔اورخوف وہراس کے ماحول سے باہر آنے کے لئے ڈھارس بندھائی اورہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی،وفدنے نوح، سونکھ، تپکن، شکارپور .پلّہ.پلڑی.چہوڑپور،رہنہ،میولی کلاں،شکراوہ.مرادباس،سنگار.امام نگر، احمدنگر،مروڑہ،اٹیرنہ.جلال پوروغیرہ کا تفصیلی دورہ کیا اور لواحقین سے ملاقات کرکے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔



مجھے فخر ہے…، چاند کی سطح پر چندریان-3 کی کامیاب لینڈنگ کے بعد وزیر اعظم مودی کا اظہارِ خوشی

(قومی آوازبیورو)ہندوستان نے 23 اگست کو ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ چندریان-3 نے چاند کی سطح پر کامیابی کے ساتھ سافٹ لینڈنگ کی اور اس کے ساتھ ہی ہندوستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے چاند کے جنوبی قطب پر رسائی حاصل کی ہے۔ وکرم لینڈر جب چاند کی سطح کی طرف بڑھ رہا تھا تو اس لمحہ کا گواہ پورا ہندوستان تو بنا ہی، وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی جنوبی افریقہ سے براہ راست نشریہ دیکھا اور ہندوستان کی کامیابی پر ترنگا لہرا کر خوشی کا اظہار کیا۔وزیر اعظم نریندر مودی نے وکرم لینڈر کی کامیاب لینڈنگ کے بعد جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ سے ورچوئل انداز میں ہندوستانی عوام کو خطاب کیا اور کہا کہ یہ ملک کے لیے انتہائی فخر کا لمحہ ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ "زندگی خوشیوں سے بھر گئی ہے۔ یہ لمحہ فتح کی راہ پر آگے بڑھنے کا ہے۔ یہ لمحہ 140 کروڑ دھڑکنوں کے لیے ہے، آج ہر گھر میں جشن شروع ہو گیا ہے۔ میں چندریان-3 کی ٹیم، اِسرو اور ملک کے سبھی سائنسدانوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔" پی ایم مودی نے چندریان-3 کی کامیابی پر سائنسدانوں کا خاص طور سے تذکرہ کیا اور کہا کہ ان کی محنت سے ہی ہم چاند کے اس جنوبی قطب پر پہنچ گئے جہاں پر آج تک کوئی نہیں پہنچ پایا ہے۔ آج سبھی متھک بدل جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ "کبھی کہا جاتا تھا چندا ماما بہت دور کے ہیں، اب ایک دن وہ بھی آئے گا جب بچے کہا کریں گے چندا ماما بس ایک ٹور (سیاحت) کے ہیں۔"قابل ذکر ہے کہ ہندوستان نے چندریان-3 کی کامیاب سافٹ لینڈنگ کے ساتھ ان ممالک کی فہرست میں بھی اپنا نام شامل کر لیا ہے جنھوں نے چاند پر سافٹ لینڈنگ کے ذریعہ رسائی حاصل کی ہے۔ چاند کی سطح پر ہندوستان سے پہلے چین، امریکہ اور سوویت یونین نے سافٹ لینڈنگ میں کامیابی حاصل کی تھی۔ بہرحال، خبر رساں ایجنسی نے اِسرو کے افسران کے حوالے سے بتایا ہے کہ سافٹ لینڈنگ کے بعد اب رووَر اپنے ایک سائیڈ پینل کا استعمال کر کے لینڈر کے اندر سے چاند کی سطح پر اترے گا، جو ریپ کی شکل میں کام کرے گا۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ لینڈنگ کے بعد لینڈر کو اس میں موجود انجنوں کے چاند کی سطح کے قریب سرگرم ہونے کے سبب دھول کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


المسجد الحرام میں شاہ عبدالعزیز بین الاقوامی حفظِ قرآن کا مقابلہ 25 اگست سے شروع ہوگا

( العربیہ ڈاٹ نیٹ )خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے زیرِنگران وزارتِ اسلامی امور، دعوت وارشاد کے زیر اہتمام شاہ عبدالعزیز بین الاقوامی مقابلہ برائے حفظِ قرآن، تلاوت اور تفسیرِ قرآن کا 43 واں ایڈیشن 25 اگست سے 6 ستمبر 2023ء تک المسجدالحرام، مکہ مکرمہ میں منعقد ہوگا۔سعودی وزیر برائے اسلامی امور، دعوت و ارشاد اور مقابلے کے نگران اعلیٰ الشیخ ڈاکٹرعبداللطیف آل الشیخ نے اس مقابلے کے لیے مسلسل حمایت پر خادم الحرمین الشریفین کا شکریہ اداکیا۔یہ مقابلہ بھی قرآن پاک کے تحفظ کے لیے مملکت کی کوششوں کا عکاس ہے۔آل الشیخ نے بتایا کہ اس سال انعامات کی مجموعی مالیت چالیس لاکھ سعودی ریال ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ مسابقتی کمیٹیوں نے117 ممالک سے 166 امیدواروں کو وصول کرنے کے لیے تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔انھیں مقابلے میں شرکت کے دوران میں بہترین خدمات کی پیش کش کی جائے گی۔



کوئی ایسا قانون مسلط نہ کیا جائے جو ہندوستانی مسلمانوں کی مرضی کے خلاف ہو: مسلم پرسنل لا بورڈکی لا کمیشن سے اپیل

نئی دہلی، 23 فگست (یو این آئی) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ا ٓج یہاں لا کمیشن کو تفصیلی جواب پیش کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ کو توقع ہے کہ کمیشن ان حقائق کو پیش نظر رکھے گا اور اس امر کو یقینی بنائے گا کہ کوئی ایسا قانون مسلط نہ کیا جائے جو ہندوستانی مسلمانوں (مردوں اور عورتوں) کی مرضی کے خلاف ہو۔مسلم پرسنل لا کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ 2018 میں بھی لاکمیشن نے یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں ہماری رائے طلب کی تھی۔ ہم نے زبانی اور تحریری طور پر اپنی رائے پیش کی تھی۔ اس کے علاوہ جیسا کہ کمیشن کو درکار تھا ہم نے الکٹرونک شکل میں ۵۹۶، ۴۷، ۸۳، ۴ افراد کے دستخط شدہ مطبوعہ فارم بھی داخل کئے تھے جن میں اس وقت مجوزہ یونفارم سول کوڈ کی مخالفت کی تھی۔ کمیشن نے اپنا مقالہ/رپورٹ دو حصوں میں پیش کیا تھا اور اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ اس مرحلے پر یونیفارم سول کوڈ پسندیدہ نہیں ہے اس نے اس معاملے کے بارے میں اتفاق رائے کی سفارش کی تھی۔ ہم پر یہ حقیقت بالکل واضح نہیں ہے کہ اتنے کم عرصے میں اسی عمل کو پھر کیوں دہرایا گیا ہے۔ ایسے بہ تکرار عمل سے عوام کے ذہن میں شکوک اور شبہات پیدا ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور کثیر آبادی کا ملک ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سے مذاہب، تقافتیں اور رسوم و رواج ہیں۔ ان مذہبی اور تہذیبی گروہوں کے لئے پرسنل لا کی حیثیت ان کی اجتماعی شناخت کی ہے۔ اسی پر ہمارے ملک کے تنوع کا دارومدار ہے۔ اسی لئے مجاہدین آزادی اور ملکی قائدین نے ہمیشہ اس تنوع کو باقی رکھنے کی حمایت کی۔ اگر یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہوتا ہے تو یہ ہمارے شہریوں اور ہمارے ملک کو تنوع کی خصوصیت سے محروم کردے گا۔مولانا مجددی نے کہا کہ ہمارا ملک یوروپ کے ملکوں کی طرح نہیں ہے، اگر یوروپ کے تمام ملکوں کو بھی ایک جگہ جمع کردیا جائے تو ان کا ہندوستان کے رقبے سے کوئی مقابلہ نہیں۔ اگر ہم آبادی کی بنیاد پر مقابلہ کریں تو معاملہ اور بھی مختلف ہوجائے گا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تمام یوروپی ملک مشترک سول کوڈ کے حامل ہوسکتے ہیں، پہلی بات تویہ ہے کہ ہندوستان جیسے عظیم ملک کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ چھوٹے رقبے اور کم آبادی والے ملکوں کے قانون کی نقالی کرے، رقبے کے لحاظ سے امریکہ دنیا کے وسیع ترین ملکوں میں سے ہے، اس کے علاوہ یہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور ترقی میں دیگر ممالک سے آگے ہے، یہاں تمام ریاستوں کے الگ الگ قوانین ہیں لیکن اس کے باعث امریکہ کی ترقی اور سا لمیت ہیں کوئی رکاوٹ نہیں پیش آتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے مجاہدین آزادی اور اس کے معماروں نے ہمیشہ مختلف اکائیوں خاص کر مسلمانوں کو یقین دلایا کہ مسلم پرسنل لاء کو چھیڑا نہیں جائے گا، خود بابائے قوم مہاتما گاندھی جی نے گول میز کانفرنس لندن منعقدہ 1931ء میں پوری وضاحت کے ساتھ کہا تھا: ’’مسلم پرسنل لاء کو کسی بھی قانون کے ذریعہ چھیڑا نہیں جائے گا ‘‘آزادی سے پہلے کانگریس ہندوستان کے باشندگان کی نمائندگی کرتی تھی؛ اس نے 1937ء میں ہری پور اجلاس میں اعلان کیا: ’’اکثریت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی ‘‘۔جنگ آزادی کے مشہور مجاہد مولانا ابوالکلام ازاد نے فرمایا:’’اب اگر یونیفارم سول کوڈ لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ بات ان یقین دہانیوں کے خلاف ہوگی جو ملک کے معماروں اور اس کی ازادی اور تعمیر کے لیے قربانی دینے والوں نے دی تھی، نہ تو کانگریس ہی کا یہ مقصد ہے اور نہ مسلمان ہی اس مقصد سے قیامت تک متفق ہو سکتے ہیں کہ ہندوستان سے مسلم کلچر، مسلم تہذیب اور مسلم خصائص ختم ہو جائیں اور وہ ہندوستان کی متحدہ قومیت میں جذب ہوکر جرمن یا انگریز قوم کی طرح ہندوستانی قوم کے سوا کچھ نہ رہیں‘‘ ۔ یہ نمونہ ہے ان یقین دہانیوں کا جو کہ اقلیتوں کو دی گئی تھیں:جب ملک کا دستور بنا تو اس میں بھی اس بات کو ملحوظ رکھا گیا؛ چنانچہ بنیادی حقوق کے تحت ارٹیکل (25) میں ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی اجازت دی گئی ہے، جو اس طرح ہے:-25 (1) ’’تمام اشخاص کو ازادئ ضمیر اور ازادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے، بشرطیکہ امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیحات متاثر نہ ہوں‘‘ ۔دستور کے بنیادی حقوق کی جو اہمیت ہے وہ ظاہر ہے، جس کا ذکر دستور کی دفعہ 13- (2) میں ہے اور اس کے الفاظ اس طرح ہیں:’’مملکت کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو اس حصہ سے عطا کیے ہوئے حقوق کو چھین لے یا ان میں کمی کرے اور کوئی قانون جو اس فقرہ کی خلاف ورزی میں بنایا جائے، خلاف ورزی کی حد تک باطل ہوگا‘‘۔چنانچہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بیان دیتے ہوئے کہا تھا: ’’بنیادی حق کو کسی وقتی دشواری کے تحت نہ دیکھنا چاہیے؛ بلکہ اس نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے کہ آپ اسے دستور میں مستقل مقام دے رہے ہیں، بنیادی حقوق کے علاوہ دوسرے امور کو خواہ وہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں، اس نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے کہ وہ عارضی ہیں‘‘۔سرلامڈگل مقدمے (19953SCC635) میں معزز سپریم کورٹ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ خیال کہ شادی، وراثت اور سیکولر کردار کے دیگر معاملات کا تعلق اس ضمانت سے نہیں ہے جس کا ذکر دستور کی دفعات 25،26 اور27 میں ہے اس پر سوال کھڑے ہوتے ہیں اور مسلم قوم بحیثیت مجموعی ان معاملات کو مذہب سے جدا نہیں سمجھتی ہے اس رائے کا اظہار دفعات 25،26 اور27 کے دائرہ کار اور مختلف مذہبی گروہوں کے عمل کے بارے میں کسی بحث کے بغیر کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے مطابق، شادی، طلاق، وراثت اور ترکے سے متعلق قوانین کا ماخذ اسلام کی مقدس کتاب اور محمدؐ رسول اللہ کی حیات مبارک اور دور اور انتہائی احتیاط سے محفوظ اور جامع اسلامی فقہ ہیں۔ ان موضوعات پر اظہار خیال نہ کرنا زیادہ مناسب ہے۔ بہت سے مذاہب میں طلاق، عورتوں کا جائداد رکھنے کا حق یا ترکہ پانے، گودلینے اور بچے کی سر پرستی جیسے معاملات کا تعلق ان کی مذہبی کتابوں سے نہیں ہے۔ لہذا وہ دستور کی دفعات 25 اور 26 کی اس تشریح سے انھیں کوئی اعتراض نہیں۔یہ درست ہے کہ دستور کے چوتھے حصے’’مملکت کی حکمت عملی کے ہدایتی اصول‘‘ کے تحت دفعہ 44 میں لکھا گیاہے: ’’مملکت یہ کوشش کرے گی کہ بھارت کے پورے علاقے میں شہریوں کے لیے یکسا ںسول کوڈ کی ضمانت ہو‘‘۔مگر ہدایتی اصول کی حیثیت ثانوی ہے، جیسا کہ مندرجہ بالاسطور سے واضح ہے؛ اس لیے اس کو بنیاد بنا کر مختلف گروہوں کے تشخصات کو ختم کرانا اور کثرت میںوحدت کے تصور کو مجروح کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہو سکتا ۔حقیقت یہ ہے کہ یونیفارم سول کوڈ نہ ہونے کی وجہ سے اب تک کے تجربے میں ملک کو کوئی نقصان نہیں ہوا ،یہ خیال کرنا کہ کامن سول کوڈ کی وجہ سے قومی ہم اہنگی بڑھے گی، محض غلط فہمی ہے ،دنیا میں دو بڑی خونریز عالمی جنگیں ہو چکی ہیں، جس میں دونوں فریق کا پرسنل لاء ایک ہی تھا؛ لیکن یہ یونیفارمیٹی خونریزجنگ کو روک نہیں سکی، ہمارے پڑوس میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے اور ایک حصہ بنگلہ دیش بن گیا، ان دونوں ملکوں میں بسنے والوں کا پرسنل لاء ایک ہی تھا؛ لیکن یہ چیز جنگ اور ملک کے بٹوارے کو روک نہیں سکی، ماضی قریب میں ایران اور عراق کے درمیان 10سال جنگ ہوتی رہی، تقریبا دو لاکھ افراد مارے گئے؛ حالانکہ ان دونوں کا پرسنل لاء ایک ہی تھا؛ اس لیے یہ سمجھنا غلط ہے کہ پرسنل لاء ایک ہونے کی وجہ سے قومی یکجہتی پیدا ہوگی۔قومی یکجہتی ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور تحمل سے کام لینے کی وجہ سے پیدا ہوگی ،حکومت کو بھی اور عوام کو بھی مل جل کر اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے؛ بلکہ اگر تمام اکائیوں کا پرسنل لاء محفوظ رہے اور کسی سے اس کی شناخت چھیننے کی کوشش نہ کی جائے تو تمام طبقات کو اطمینان ہوگا اور یہ بات قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے میںزیادہ ممدو معاون ہوگی؛ بلکہ اگر لوگوں کی مرضی کے بغیر ان پر ان کی پسند کے خلاف قانون نافذ کیا جائے تو اس سے ملکی اتحاد کےمتأثر ہونے کا اندیشہ ہے؛ اس لیے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کے لانے سے فائدہ تو کچھ نہیں ہوگا؛ لیکن ملک کو نقصان ہو سکتا ہے۔H ہندو طبقہ کے لئے ان کے منشا کے مطابق ہندو میرج ایکٹ بنا دیا گیا ہے، جس میں دستور کے مطابق بدھوں، سکھوں اور جینیوں کو بھی شامل رکھا گیا ہے، مسلمان شریعت اپلی کیشن ایکٹ 1937 پر راضی ہیں اور وہ ہمیشہ سے اس میں تبدیلی کی مخالفت کرتے رہے ہیں، مختلف قبائل کے لئے دستور میں ان کے پرسنل قبائلی قانون اور رواجات پر عمل کرنے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے، اگر کسی طبقہ کے افراد کو اپنے مقررہ پرسنل لاپر اطمینا ن نہیں ہے تو ان کے لئے حکومت ہند نے اسپیشل میرج ایکٹ 1954 بنا دیا ہے، اور ان کی ضرورت اس سے پوری ہو سکتی ہے؛ اس لئے الگ سے یونیفارم سول کوڈ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے۔



کانگریس نے اسرو کے سائنسدانوں کو مبارکباد پیش کی

نئی دہلی، 23 اگست (یو این آئی) کانگریس نے چاند کے جنوبی قطب پر چندریان -3 کی کامیاب لینڈنگ کے لئے ہندوستانی خلائی تحقیقی تنظیم (اسرو) کے سائنسدانوں کو مبارکباد دی ہے اور کہا ہے کہ ان کی یہ حصولیابی بے مثال ہے کانگریس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کے انچارج جے رام رمیش نے چاند کی سطح پر چندریان 3 کی کامیاب لینڈنگ کے بعد یہاں جاری ایک بیان میں کہا، ’’اسرو کی آج کی حصولیابی واقعی شاندار، بے مثال ہے۔ فروری 1962 میں ہومی بھابھا اور وکرم سارا بھائی کی دور اندیشی کی وجہ سے انڈین نیشنل کمیٹی آن اسپیس ریسرچ یعنی انکاسپر کا قیام عمل میں آیا، اس میں جو پہلے شخص شامل تھے، پہلے چارپانچ افراد جو شامل تھے ان میں سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام تھے۔انہوں نے کہا، "اس کے بعد 1969 میں اگست کے مہینے میں، وکرم سارا بھائی، جنہوں نے ہمیشہ خلائی سائنس اور خلائی تحقیق کو ترقی کے نقطہ نظر سے دیکھا، نے اسرو کی بنیاد رکھی۔ 1972 اور 1984 کے درمیان ستیش دھون آئے اور انہوں نے بے مثال قیادت کا مظاہرہ کیا۔ سائنسی، تکنیکی اور انتظامی نقطہ نظر سے ان کی شراکت بالکل بے مثال ہے۔ ان کے ساتھ برہما پرکاش جی تھے۔ برہما پرکاش واحد ایسے شخص رہے ہیں جنہوں نے ہمارے جوہری توانائی کے پروگرام اور خلائی تحقیق کے پروگرام میں بھی تبدیلی کا حصہ ڈالا ہے۔ ستیش دھون کے بعد یو آر راؤ سے شروعات ہوئی اور کئی چیئرمین آئے۔ ان سب نے اپنا خصوصی تعاون اسرو اور ہمارے خلائی پروگراموں میں کیا۔مسٹر رمیش نے کہا، "آج ہم جو کامیابی دیکھ رہے ہیں وہ ایک اجتماعی عزم، ایک اجتماعی کام کا نتیجہ ہے اور جو کہتے ہیں، ایک کلیکٹو ٹیم ایفرٹ کا نتیجہ ہے۔ یہ سسٹم کا نتیجہ ہے۔ ایک شخص کا نہیں ہے۔ جہاں لوگ ایک ٹیم ورک کے ساتھ، ایک اجتماعی ذہنیت کے ساتھ کام کرتے ہیں اورگزشتہ چند برسوں میں اسرو کی جو پارٹنر شپ ہے، جو شراکت داری ہے مختلف تعلیمی ادارے ہیں، نجی شعبے کی چھوٹی چھوٹی کمپنیاں ہیں، جنہیں آج اسٹارٹ اپس کہا جاتا ہے، ان کے ساتھ شراکت کا جو پروگرام اسرو کی جانب سے ہوا ہے — ہم اس کا اثربھی دیکھ رہے ہیں۔ آج ہمارے لیے بہت فخر کا لمحہ ہے اور ہم اسرو کو خراج تحسین کرتے ہیں۔


دہلی ایئرپورٹ پر بڑا حادثہ ہوتے ہوتے ٹل گیا، 2 فلائٹس کو ایک ہی وقت پر لینڈنگ اور پرواز کی ملی تھی اجازت

(قومی آوازبیورو)دہلی ایئرپورٹ پر آج اس وقت افرا تفری کا عالم پیدا ہو گیا جب ایک ہی ایئرلائنس کی دو فلائٹس کو ایک ہی وقت پر پرواز بھرنے اور لینڈنگ کی اجازت مل گئی۔ حالانکہ کنٹرول روم نے وقت رہتے فوری کارروائی کرتے ہوئے ایک بڑا حادثہ ٹال دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی ایئرپورٹ پر بدھ کی صبح وِستارا ایئرلائنس کی ایک فلائٹ کو لینڈ کرنے کی اے ٹی سی سے اجازت ملی تھی، دوسری طرف اسی وقت وِستارا کی ہی ایک دیگر فلائٹ کو پرواز بھرنے کے لیے بھی اجازت مل گئی۔ اس طرح ایک بڑا حادثہ سرزد ہونے کے آثار پیدا ہو گئے، لیکن وقت رہتے معاملے کو سنبھال لیا گیا۔خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق ٹھیک وقت پر اے ٹی سی کے ذریعہ پرواز بھرنے والی فلائٹ کو لے کر ایک ہدایت جاری کی گئی اور کہا گیا کہ پرواز کو کچھ دیر کے لیے روک دی جائے۔ اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے فلائٹ کے عملہ نے رَنوے سے ہٹا کر مسافر طیارہ کو پارکنگ میں لگا دیا جس سے ایک انہونی ہوتے ہوتے بچ گیا۔بتایا جاتا ہے کہ وِستارا کی فلائٹ یوکے725 دہلی سے باگ ڈوگرا کے لیے پرواز بھرنے والی تھی۔ اسی وقت وِستارا کی ہی فلائٹ احمد آباد سے دہلی لینڈ کرنے جا رہی تھی۔ یہ دونوں فلائٹ برابر والے رَنوے کا استعمال کرنے والی تھیں۔ دونوں طیاروں کو ایک ہی وقت پر اجازت ملی، لیکن اے ٹی سی نے معاملے کو اپنے کنٹرول میں لیا اور باگ ڈوگرا جا رہی فلائٹ کی پرواز روک لی۔ایئرپورٹ کے ایک افسر کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ ایئر ٹرافک کنٹرول (اے ٹی سی) کی ہدایت کے بعد باگ ڈوگرا جا رہی فلائٹ پارکنگ میں لوٹ آئی۔ افسران کے مطابق اس کے بعد فلائٹ میں دوبارہ ایندھن بھرا گیا اور بریک وغیرہ بھی چیک کیا گیا تاکہ یہ یقینی کیا جا سکے کہ خراب موسم ہونے پر فلائٹ واپس آ سکے۔


میزورم میں زیرِ تعمیر ریلوے پل گرنے سے اندوہناک حادثہ، 17 افراد ہلاک

(قومی آوازبیورو)ریاست میزورم میں زیر تعمیر ریلوے پل گرنے کے نتیجے میں کم از کم 17 افراد ہلاک ہو گئے۔ خبروں کے مطابق حادثہ صبح 10 بجے کے قریب پیش آیا اور اس وقت کئی مزدور حادثے کی جگہ پر کام میں مصروف تھے۔پولیس کے مطابق ملبے سے 17 لاشوں کو نکال لیا گیا ہے جبکہ کچھ دیگر افراد کے پھنسے ہونے کا خدشہ ہے۔ میڈیا کے مطابق حادثے کی جگہ پر ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ریاست کے وزیر اعلیٰ زورامتھانگا نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جائے حادثہ کی ایک ویڈیو شئیر کی جس میں پل کا ملبہ دیکھا جا سکتا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر کی جانب سے جاری ایک بیان میں افسوس ناک واقعہ پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔