ڈالر کے مقابلے روپے کی ریکارڈ گراوٹ پر کانگریس کا مرکز پر شدید حملہ، پرینکا گاندھی اور ملکارجن کھڑگے نے جواب طلب کیا



قومی آواز بیورو


نئی دہلی: امریکی ڈالر کے مقابلے ہندوستانی روپے کی تاریخی گراوٹ نے سیاسی حلقوں میں شدید بحث چھیڑ دی ہے۔ مسلسل کمزور ہوتی کرنسی پر کانگریس نے مرکز کی معاشی حکمتِ عملی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتِ حال حکومت کی ناکامی کی واضح دلیل ہے۔


کانگریس کی جنرل سکریٹری اور رکنِ پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے روپے کی قدر میں تیزی سے کمی پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’جب منموہن سنگھ کے دور میں روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ آتا تھا تو بی جے پی اسے بڑا مسئلہ بنا دیتی تھی۔ آج جب روپیہ تاریخی نچلی سطح پر پہنچ چکا ہے تو حکومت کی خاموشی حیران کن ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ عوام کو بتایا جائے کہ آخر یہ گراوٹ کس پالیسی کا نتیجہ ہے؟



کانگریس صدر اور راجیہ سبھا میں قائدِ حزبِ مخالف ملکارجن کھڑگے نے بھی حکومت پر سخت تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا، ’’روپے کی کمزوری سیدھا اشارہ ہے کہ ملک کی معاشی حالت اطمینان بخش نہیں ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں مضبوط ہوتیں تو روپے کی قدر اس طرح زمین بوس نہ ہوتی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی کامیابیوں کے کتنے ہی دعوے کر لے، عالمی سطح پر ہندوستانی کرنسی کی ساکھ کمزور پڑتی جا رہی ہے۔


کھڑگے نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں بی جے پی کے پرانے بیانات بھی یاد دلائے۔ انہوں نے لکھا، ’’2014 سے پہلے بی جے پی پوچھتی تھی کہ ہندوستانی روپیہ مسلسل کمزور کیوں ہو رہا ہے؟ آج وہی سوال ہم حکومت سے پوچھ رہے ہیں۔ جواب دینا پڑے گا۔‘‘




قابل ذکر ہے کہ رواں ہفتے روپیہ تاریخی دباؤ میں رہا۔ 3 دسمبر کو پہلی مرتبہ روپیہ 90 کے نفسیاتی حد سے نیچے گیا اور یہ اپنی تاریخ کی کم ترین سطح پر بند ہوا۔ جمعرات کو بھی گراوٹ کا سلسلہ جاری رہا اور روپیہ 22 پیسے مزید کم ہو کر 90.41 تک پہنچ گیا، جبکہ گزشتہ روز یہ 90.19 پر بند ہوا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی دباؤ، مضبوط امریکی ڈالر اور سرمایہ کاروں کے محتاط رویے نے روپے پر اضافی اثر ڈالا ہے۔


کانگریس کا مؤقف ہے کہ صورتِ حال انتہائی تشویشناک ہے اور حکومت کو نہ صرف وضاحت دینی چاہیے بلکہ کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات بھی سامنے لانے چاہئیں۔






اب تتکال وِنڈو ٹکٹ کے لیے بھی ’او ٹی پی‘ لازمی، ریلوے نے لیا بڑا فیصلہ



قومی آواز بیورو


ہندوستانی ریلوے اب آن لائن تتکال ٹکٹ کے اصول میں تبدیلی کے بعد ریزرویشن کاؤنٹر پر بنوائے جانے والے ٹکٹ کے اصول میں بھی تبدیلی کرنے جا رہی ہے۔ اب ٹکٹ کاؤنٹر پر بھی او ٹی پی پر مبنی تتکال ٹکٹ دینے کا نظام نافذ ہوگا۔ یعنی ونڈو میں بکنگ کے دوران آپ کو فارم میں موبائل نمبر بھر کر دینا ہوگا۔ بکنگ کلرک اپلائی کرتے وقت آپ کا موبائل نمبر ڈالے گا، اس کے بعد ون ٹائم پاسورڈ (او ٹی پی) آئے گا۔ اسے آپ بکنگ کلرک کو بتائیں گے، ویریفائی ہونے کے بعد آپ کا تتکال ٹکٹ تیار ہو جائے گا۔



اس درمیان سب سے بڑا سوال یہ کھڑا ہو رہا ہے کہ جو لوگ موبائل فون نہیں رکھتے وہ کیسے تتکال ٹکٹ لے سکیں گے۔ ایسے لوگوں کی مدد کے لیے ریلوے نے کچھ طریقے بتائے ہیں۔ ریلوے کا کہنا ہے کہ عام مسافروں کو راحت دینے اور ایجنٹ کے ذریعہ ٹکٹ لینے سے روکنے کے لیے تتکال ٹکٹ کے عمل میں او ٹی پی کا فیصلہ لازمی کرنے کا قدم اٹھایا گیا ہے۔ آج کل شہر ہو یا گاؤں تمام لوگوں کے پاس موبائل فون ہوتے ہیں۔ اس لیے او ٹی پی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پھر بھی کسی شخص کے پاس موبائل نہیں ہے اور وہ ونڈو ٹکٹ بک کرانے جا رہا ہے تو اپنے گھر والوں میں سے کسی کا موبائل لے کر جا سکتا ہے۔




واضح رہے کہ جولائی 2025 میں ریلوے نے آن لائن تتکال ٹکٹ بکنگ کے لیے آدھار پر مبنی ویریفکیشن نافذ کیا تھا۔ اس کے بعد اکتوبر 2025 میں آن لائن جنرل ٹکٹوں کی پہلے دن کی بکنگ پر بھی او ٹی پی سسٹم شروع کیا گیا تھا۔ دونوں اصولوں کو مسافروں نے آسانی سے قبول کر لیا تھا، جس کی وجہ سے ٹکٹ بکنگ کے عمل میں شفافیت اور سیکورٹی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بعد 28 اکتوبر 2025 سے آئی آر سی ٹی سی پر ایک اور ضروری تبدیلی ہو گئی ہے۔ صبح 8 بجے سے 10 بجے تک ٹرین ٹکٹ بک کرنے کے لیے آدھار کی تصدیق کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ آئی آر سی ٹی سی کے مطابق یہ اصول صرف اسی وقت نافذ ہوگا جب ٹکٹوں کی سب سے زیادہ مانگ ہوتی ہے۔ یعنی پیک آورس (مصروف اوقات) صبح 8 بجے سے 10 کے درمیان صرف آدھار سے تصدیق شدہ صارفین ہی ٹکٹ بک کر سکیں گے۔


ریلوے نے 17 نومبر 2025 کو شروع کیے گئے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت 52 ٹرینوں میں او ٹی پی سسٹم کی ٹیسٹنگ کی تھی۔ ٹرائل کے نتائج مثبت آنے کے بعد اب ریلوے نے اسے تمام ٹرینوں میں نافذ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ سسٹم مرحلہ وار طریقے سے رول آؤٹ کیا جائے گا، تاکہ مسافروں کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ ریلوے نے اکتوبر میں جنرل ٹکٹوں کی پہلے دن کی بکنگ پر او ٹی پی سسٹم شامل کیا تھا۔ جس نے بکنگ کے عمل کو مزید شفاف بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی سلسلے میں اب کاؤنٹر تتکال ٹکٹوں کو بھی اس اصول سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ ہندوستانی ریلوے میں تتکال ٹکٹ سفر سے ایک روز قبل بک کیا جاتا ہے۔ اے سی کلاس کی بکنگ صبح 10 بجے اور سلیپر (نان اے سی) کی بکنگ صبح 11 بجے شروع ہوتی ہے۔






بابری مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنانے والے ایم ایل اے ہمایوں کبیر ترنمول کانگریس سے معطل

کولکاتہ، 4 دسمبر (یو این آئی) مغربی بنگال میں حکمراں ترنمول کانگریس نے جمعرات کے روز ایم ایل اے ہمایوں کبیر کو پارٹی سے معطل کر دیایہ کارروائی بھرت پور کے ایم ایل اے مسٹر ہمایوں کبیر کے ذریعہ بیلڈنگا میں بابری مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنانے پر سیاسی ہنگامہ آرائی کے بعد ہوئی ہے۔ بابری مسجد کی نقل تیار کرنے کی ان کی تجویز سے پورے مغربی بنگال میں تنازعہ کھڑا ہوا تھا، جس سے پارٹی کے اندر اور باہر دونوں طرف سے سخت رد عمل سامنے آنے لگا تھا۔

ایم ایل اے ہمایوں کبیر کی پارٹی سے معطلی کا اعلان ترنمول کانگریس کے سینئر لیڈر اور کولکاتہ کے میئر فرہاد حکیم نے کیا۔ مسٹر فرہاد حکیم نے کہا، "ہمارے ایک ایم ایل اے نے اچانک اعلان کیا کہ وہ بابری مسجد تعمیر کریں گے۔ انہيں اچانک بابری مسجد کیوں یاد آئی؟ ہم نے انہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ ہماری پارٹی کے فیصلے کے مطابق، ہم ایم ایل اے کبیر کو معطل کر رہے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو پارٹی کی سربراہ ممتا بنرجی اور جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی کی منظوری حاصل ہے۔

مسٹر فرہاد حکیم نے کہا کہ مسٹر ہمایوں کبیر بیلڈنگا میں غیر ضروری فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر رہے تھے اور اشتعال پیدا کر رہے تھے، جہاں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد جیسے مسائل کو اٹھانے سے آنے والے اسمبلی انتخابات میں اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی فائدہ ہوگا۔

دوسری طرف، مسٹر ہمایوں کبیر نے کہا کہ وہ جمعہ یا پیر کے روز ترنمول کانگریس سے استعفیٰ دے دیں گے اور 22 دسمبر کو نئی پارٹی بنائیں گے۔ انھوں نے مسٹر فرہاد حکیم کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ 22 دسمبر کو بہرام پور میں نئی پارٹی کا اعلان کریں گے اور 2026 کے انتخابات ترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں کے خلاف لڑیں گے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی دھوکہ باز سیکولر لیڈر ہیں، ان کے پاس آر ایس ایس کا چہرہ ہے، اور وہ مندر کی تعمیر کے لیے فنڈ اکٹھا کرتی ہیں اور ہر سال درگا پوجا کے لیے چندہ دیتی ہیں۔

دریں اثناء، کلکتہ ہائی کورٹ جمعہ کے روز بابری مسجد کی تعمیر پر ایم ایل اے ہمایوں کبیر کے تبصروں سے متعلق مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرے گا۔ چیف جسٹس کی بنچ میں اس کیس کی سماعت ہوگی۔







پوتن کا دورہ ہند:چین کے عروج کے مدنظرملک کے لیئے جغرافیائی اور سیاسی توازن قائم کرنے کاموقع

از:جینت رائے چودھری

نئی دہلی، 4 دسمبر (یو این آئی) اب جبکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اسٹریٹجک اور تجارتی معاہدوں کے لیے نئی دہلی پہنچ گئے ہیں تو ہندوستان کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے: یہ محض رسمی سفارت کاری نہیں بلکہ انتشارکے شکار عالمی نظام میں "ہیجنگ" (خطرے سے بچاؤ) کا معاملہ ہے نئی دہلی کے لیے روس تین محاذوں پراہمیت کاحامل ہے: ٹیرف کی اتار چڑھاؤ سے تحفظ ، سستا خام تیل جوہندوستان کی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور سب سے اہم، صدی کا سب سے بڑا چیلنج تصورکیے جانے والے چین کے عروج کے مقابلے میں ایک جغرافیائی اور سیاسی توازن۔

پوتن کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ خود بھی ماسکو اور کیف کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے تاکہ یورپ کی کئی دہائیوں میں سب سے بڑی جنگ سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔ اگر وہ مذاکرات کامیاب ہو گئے اور یہ جنگ—جو یوکرین کو تباہ کر چکی ہے—ختم ہو گئی، تو دنیا کو ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان ایک ممکنہ مفاہمت دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

توانائی صرف ایک پہلو ہے جو ہندوستان کی اسٹریٹجک تبدیلی کی وضاحت کرتا ہے۔ روس کے یوکرین پر مکمل حملے سے پہلے ہندوستان کے تیل کی درآمد کا صرف 2.5 فیصد روس سے آتا تھا۔ اب یہ حصہ تقریباً 35 فیصد تک پہنچ گیا ہے، کیونکہ مغربی پابندیوں اور یورپی منڈی سے روس کے الگ ہونے کی وجہ سے بڑی رعایت ممکن ہوئی ۔

اگر ٹرمپ کے اصرار پر ہونے والے یوکرین امن مذاکرات کامیاب ہوئے تومغربی ملکوں سے روس کی علیحدگی ختم ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہندوستان، روسی تیل خریدنے پر امریکہ کی طرف سے عائد 50 فیصد ٹیرف جیسی پریشانیوں سے آزاد ہو کر روس کے ساتھ تعلقات جاری رکھ سکے گا۔ اگر امن مذاکرات کے نتیجے میں کسی مرحلے پر امریکہ- ہندوستان -روس کے مفادات کا اشتراک سامنے آیا ہندوستان خود کو عالمی سفارت کاری کے ایک خوشگوار مقام پر پائے گا۔ لیکن یہ شاید بہت سے ستاروں کے ایک ساتھ جڑ جانے کی خواہش ہو۔

امریکہ-روس کی عداوت میں کمی کا ایک اور نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ ہندوستان کو تیل پر ملنے والی بڑی رعایت ختم ہو جائے گی ۔ مگر گزشتہ 75 سال میں استوار ہونے والا رشتہ یہ یقینی بناتا ہے کہ ہندوستان روس کے لیے بھی ایک اہم اتحادی اور معاشی طاقت رہے گا—بالکل اسی طرح جس طرح ہندوستان، امریکہ کی غیر یقینی سیاست اور چین کے خطرے کے مقابلے میں ماسکو کونقصان سے بچاؤکا ذریعہ سمجھتا ہے۔

1971 کی جنگ میں ہندوستان نے مگ 21سمیت روسی ساختہ ہتھیاروں کی مدد سے بنگلہ دیش کی آزادی میں حصہ لیا تھا۔ ہندوستانی فضائیہ کے روسی جیٹ طیاروں نے امریکی ساختہ ایف 104 اسٹار فائٹرز اورایف 86 سیبرز کو مار گرا کر پہلی بارسپر سونک جیٹ-ٹو-جیٹ کِل حاصل کی تھی۔

روسی آبدوزوں کاایک بیڑا 14 دن کی شدید جنگ میں کسی بھی غیر ملکی مداخلت کو روکنے کے لیے کھڑا رہا۔ اس سربراہ اجلاس سے نئے سازوسامان، مشترکہ پیداوار اور مشترکہ تحقیق کے معاہدے متوقع ہیں جو آنے والے کئی عشروں تک ہندوستان کی دفاعی تیاریوں میں روس کی جگہ کو یقینی بنائیں گے۔

تاہم ماسکو آج کل بیجنگ کے ساتھ بھی "لامحدود شراکت داری" کی بات اسی جوش سے کرتا ہے جتنی ہندوستان کے ساتھ اپنی "خصوصی اور اعلیٰ اسٹریٹجک شراکت داری" کے لیے ۔ اس طرح کی باتیں ہندوستان کو ضرور پریشان کرتی ہے۔ کیا چین اور اس کے ذریعے پاکستان کو بھی وہی ٹیکنالوجی ملے گی جو روس ہندوستان کو بیچتا ہے؟ یہ سوال ساؤتھ بلاک کو ضرور کھٹکتا ہے، چاہے وہ اسے کھل کر بیان نہ کرے۔ پھر بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ روس کا چین سے گلے ملنا بہت حد تک مغرب کی یوکرین میں "مداخلت" کا ردعمل ہے، جسے کریملن اپنا خصوصی دائرۂ اثر مانتا ہے۔ ماسکو کے لیے یوکرین محض پڑوسی نہیں بلکہ روسی شناخت اور اسٹریٹجک گہرائی کا بنیادی پتھر ہے۔ یورپ (خاص طور پر جرمنی) کے لیے یوکرین ایک خودمختار ریاست ہے جو تاریخی طور پر وسطی یورپ کی طرف جھکی ہوئی ہے۔ یورپی دارالحکومتوں کو روس کی نارڈک-بالٹک اور وسطی یورپ میں عزائم کی فکر لاحق ہے۔ کیف کی مدد اب اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اسٹریٹجک ہتھیار بھی بن گئی ہے: یوکرین کی مدد سے روس کو مشرق میں الجھانا ہے تاکہ یورپ کی سرحدوں پر دباؤ کم ہو۔ اس رکاوٹ کو توڑنے کے لیے روس چین کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ مگر اگر یوکرین میں واقعی امن ہو گیا تو یہ صورت حال بدل سکتی ہے۔ آخر کار واشنگٹن اور نئی دہلی کی طویل مدتی اسٹریٹجک نظر ایشیا پر ہے، جہاں چین کے عروج سے خطے کے نظام میں تبدیلی کا خطرہ ہے۔

اب سوال روس کو روکنے کا نہیں بلکہ اسے مکمل طور پر بیجنگ پر منحصر ہونے سے بچانے کا ہے۔ ایک آزاد روس جو امریکہ یا ہندوستان سے رابطے میں رہے، چین کی حکمت عملی کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر روس چین کے مکمل تابع ہو گیا تو یوریشیا بھر میں بیجنگ کی طاقت بڑھ جائے گی۔ 2022 کے بعد سے روس کا معاشی اور فوجی انحصار بیجنگ پر بہت بڑھ گیا ہے، مگر اسٹریٹجک اتحاد کبھی جامد نہیں ہوتے۔ اگر واشنگٹن اور نئی دہلی نے مربوط کوشش کی یا امریکی پالیسی میں تبدیلی آئی تو ماسکو کی ترغیبات بدل سکتی ہیں اور وہ بیجنگ کے دائرے سے نکل سکتا ہے۔

روس کی سفارت کاری میں ایک بنیادی تشویش چھپی ہے: کم آبادی والا، وسائل سے مالامال سائبیریا کا علاقہ ایک کہیں زیادہ آبادی اور معاشی طور پر غالب چین کے ساتھ لگتا ہے۔ بیجنگ کا سائبیریا سرحد پر آہستہ آہستہ معاشی اثر و رسوخ بڑھانااور رفتہ رفتہ پیش قدمی، حد سے زیادہ انحصار کے خطرات کو واضح کرتی ہے۔ آخر میں روس کا اگلا قدم ایک ہی حساب پر منحصر ہوگا: کیا اس کی طویل مدتی سلامتی امریکہ اورہندوستان کے ساتھ نئے رابطوں سے چین کا توازن قائم کرنے میں ہے، یا بیجنگ کے ساتھ اس شراکت داری کو دوگنا کرنے میں جو مختصر مدتی راحت تو دیتی ہے مگر طویل مدتی کمزوری کا باعث بنے گی۔ ہندوستان اپنی طرف سے یہ ارادہ رکھتا ہے کہ ماسکو جو بھی انتخاب کرے، نئی دہلی اس کے مرکز میں ضرور ہو۔

یواین آئی۔ایف اے





روسی صدر پوتن دو روزہ دورے پر نئی دہلی پہنچے

نئی دہلی، 4 دسمبر (یو این آئی) روس کے صدر ولادیمیر پوتن ہندوستان کے دو روزہ دورے پر جمعرات کی شام یہاں پہنچے وزیر اعظم نریندر مودی روایت توڑتے ہوئے مسٹر پوتن کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر موجود تھے، جہاں انہوں نے مسٹر پوتن کا پرتپاک استقبال کیا۔ دونوں رہنماؤں نے پہلے مصافحہ کیا اور پھر گلے ملے۔ وہ دونوں ایک کار میں ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے ایئرپورٹ پر روسی صدر کے استقبال کے لیے لوک رقص کا اہتمام کیا گیا۔

توقع ہے کہ آج رات مسٹر مودی کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں دونوں قائدین علاقائی، دو طرفہ اور عالمی اہمیت کے مختلف مسائل پر کھل کر بات چیت کریں گے۔

مسٹر پوتن کا جمعہ کے روز راشٹرپتی بھون میں رسمی استقبال کیا جائے گا۔ وہاں سے وہ سیدھے راج گھاٹ جائیں گے اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔

روسی صدر کا دورہ ہند چار سال کے وقفے کے بعد ہو رہا ہے۔ موجودہ عالمی جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں اس دورے کو بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔

مسٹر پوتن جمعہ کے روز 23ویں ہند-روس سالانہ چوٹی کانفرنس میں مسٹر نریندر مودی کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اس میٹنگ میں سخوئی 57 جنگی طیاروں کا سودا، S-400 دفاعی نظام اور تیل کی خریداری سمیت متعدد مسائل کا احاطہ کیا جائے گا۔ دونوں رہنما باہمی دلچسپی کے ساتھ ساتھ عالمی اہمیت کے امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ ہندوستان اپنے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے روس کے تعاون کا خواہاں ہے۔

روس کا ایک بڑا وفد پہلے ہی ہندوستان پہنچ چکا ہے جس میں کئی روسی وزراء، اعلیٰ حکام اور اعلیٰ کاروباری رہنما شامل ہیں۔

حیدرآباد ہاؤس میں سربراہی اجلاس کے بعد مسٹر پوتن اور مسٹر مودی ایک مشترکہ پریس بیان دیں گے۔

بعد ازاں مسٹر پوتن کاروباری اجلاس میں شرکت کریں گے، جہاں دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

شام کو صدر جمہوریہ مرمو مسٹر پوتن کے اعزاز میں عشائیہ دیں گی۔ عشائیہ کے بعد روسی صدر جمعے کی شب اپنے ملک کے لیے روانہ ہوں گے۔

امریکہ کی جانب سے ہندوستان پر 50 فیصد درآمداتی ڈیوٹی لگانے کے اعلان کے بعد سے پیدا ہونے والی صورتحال اور پیش رفت کے مد نظر مسٹر پوتن کے دورے کو انتہائی اہم قرار دیا جا