عمران پرتاپ گڑھی کی کوششوں سے سنجولی مسجد معاملے میں عدالت سے راحت

نئی دہلی، 3 دسمبر(یو این آئی) ہماچل پردیش کی مشہور 'سنجولی مسجد' معاملے میں کانگریس کے راجیہ سبھا رکن ممبرپارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی کی کوششیں رنگ لائیں اور پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ نے سنجولی مسجد سے وابستہ افراد کو راحت دی واضح رہے کہ سنجولی مسجد کمیٹی نے دہلی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اقلیتی شعبہ کے قومی صدر اور ممبر پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی سے ملاقات کی اور اپنی پریشانیوں سے واقف کرایا۔ اسی وقت کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی نے مسجد کمیٹی کے تمام ارکان اور عہدیداروں کے ساتھ کانگریس تنظیم کےجنرل سکریٹری مسٹر کے سی وینوگوپال سے ملنے ان کے رہائش پہنچے اور ان سے ریاست کے ماحول کو خراب ہونے سے روکنے کے لیے مداخلت کرنے کی اپیل کی۔

عمران پرتاپ گڑھی کے اقدام کے بعد کانگریس حکومت نے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو کو حکم دیا کہ ریاست کا ماحول ہر قیمت پر خراب نہیں ہونا چاہیے اور سنجولی مسجد کی حفاظت ہر حال میں کرنی ہے۔ مزید برآں کانگریس لیڈر عمران پرتاپ گڑھی نے عدالتی نظام میں اپنا بھروسہ رکھتے ہوئے سنجولی مسجد معاملے کے سلسلے میں پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ آج پنجاب ہریانہ کورٹ نے سنجولی مسجد سے وابستہ افراد کو راحت دی۔ اس نے حکم امتناعی دے دیا ہے۔

جاری ریلیز کے مطابق اس سے پہلے بھی کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی ملک کے ہر سنگین مسئلے پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ چاہے وہ ہلدوانی کی رہائشی بن پھول بستی کو بچانے کی کوشش ہو یا ملک کی پارلیمنٹ میں نجیب کا معاملہ ہو یا طلبہ کی فیسوں میں اضافے کا معاملہ ہو یا جامعہ میں طلبہ کی پٹائی کا معاملہ ہو یا پھر مہاراشٹر میں اقلیتوں کے بچوں کے لیے حج ہاؤس میں دوبارہ سے مفت کوچنگ شروع کرنے کا معاملہ ہو، ممبر پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی ہر مسئلے پر اپنی مستعدی دکھاتے ہوئے حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے نظر آ تے ہیں۔

واضح رہے کہ ہماچل پردیش میں سنجولی مسجد کو لے کر گزشتہ کئی مہینوں سے دو برادریوں کے درمیان بڑا تنازع چل رہا تھا۔ دونوں فرقے اس معاملے پر ایک طویل جھگڑے میں مصروف تھے۔

یو این آئی۔ ع

کانگریس لیڈر مانیکم ٹیگور نے نہرو اور بابری مسجد پر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے دعوے کو مسترد کیا

نئی دہلی، 3 دسمبر (یو این آئی) کانگریس لیڈر مانیکم ٹیگور نے بدھ کے روز وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے حالیہ دعوے کی سخت تردید کی کہ جواہر لال نہرو نے عوامی فنڈ کا استعمال کرکے بابری مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تھا اور سردار ولبھ بھائی پٹیل نے اس کی مخالفت کی تھی مسٹر مانیکم ٹیگور نے ان دعووں کی تائید میں کسی آرکائیو یا دستاویزی ثبوت کے فقدان کی بنیاد پر انہیں "جھوٹ" قرار دیا۔

مسٹر مانیکم ٹیگور نے اپنے آفیشل ایکس ہینڈل پر واضح بیان میں کہا، "اس دعوے کی تائید کرنے کے لیے کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔ نہروجی واضح طور پر مذہبی مقامات بشمول مندروں کی تعمیر نو کے لیے سرکاری فنڈ کے استعمال کے خلاف تھے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اس طرح کے منصوبوں کے لیے ریاست کی طرف سے نہیں، عوامی تعاون سے فنڈ فراہم کیے جانے چاہییں۔"

مسٹر مانیکم ٹیگور نے مزید کہا "جب نہروجی نے سومناتھ کے لیے بھی عوامی فنڈ کے استعمال سے انکار کر دیا تھا، جو لاکھوں لوگوں کی عقیدت کی علامت ہے، تو وہ بابری مسجد پر ٹیکس دہندگان کی رقم خرچ کرنے کی تجویز کیوں پیش کریں گے؟" انہوں نے راج ناتھ سنگھ کے بیانات کو ذاتی سیاسی عزائم کے لیے تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش قرار دے کر مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا"راجناتھ سنگھ کے بیانات کا تاریخ سے کوئی سروکار نہیں ہے، بلکہ وہ سیاست آلود بیانات ہیں - یعنی حال کو تقسیم کرنے کے لیے ماضی کو دوبارہ لکھنے کی کوشش ہے۔ بی جے پی کی حکمت عملی عیاں ہے: ہمارے بانیوں کی توہین کرنا، کہانیاں ایجاد کریں، پولرائزیشن کو فروغ دینا۔ ہم نہرو یا پٹیل کی وراثت کو گوڈسے کے پیروکاروں کے ہاتھوں مسخ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"




”ہم ایسی نصیحت نہیں سن سکتے جو ہمیں کمزور کرے۔“1971 میں ہند۔پاک جنگ کے دوران اندراگاندھی کا امریکہ کو دوٹوک جواب

از:جیَنت رائے چودھری

نئی دہلی، 3 دسمبر (یو این آئی) آج سے ٹھیک 54 سال پہلے، جب پاکستانی فضائیہ کے ایف 86 سیبر جیٹ اور ایف104 اسٹار فائٹرز نے ہندوستان پر پیشگی حملہ کیا تو اس کے فوراً بعد ہندوستانی فضائیہ نے سرحد پار کر کے پاکستان کے اڈوں پر حملے کیے، اسی دن واشنگٹن کے وقت کے مطابق صبح سوا دس بجے ، امریکی صدر رچرڈ نکسن اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر ٹیلی فون پر 1971 کی ہند۔پاک جنگ کے آغاز پر بات کر رہے تھے۔ کسنجر نے جب صدر نکسن کو بتایا کہ ”لگتا ہے مغربی پاکستان نے حملہ کر دیا کیونکہ مشرقی پاکستان میں صورتحال خراب ہو رہی ہے“ تو نکسن پھٹ پڑے اور کہا: ”پاکستان کا معاملہ دل کو بیمار کر دیتا ہے۔ ان کے ساتھ ہندوستانیوں کا یہ سلوک اور وہ بھی اس کے بعد جب کہ ہم نے انھیں (ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے) خبردار کر دیا تھا…“ یہ گفتگو وائٹ ہاؤس میں ریکارڈ کی گئی اور دہائیوں بعد محکمہ خارجہ نے اسے تاریخی دستاویزات کے طور پر جاری کیا۔ جنگ کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب پاکستانی فضائیہ نے آپریشن چنگیز کے نام سے ہندوستان کے گیارہ ایئر بیسز (سرینگر، امرتسر، پٹھانکوٹ وغیرہ) پر بمباری کی، لیکن ہندوستان نے پہلے ہی اپنے طیارے خفیہ مقامات پر منتقل کر دیے تھے، اس لیے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ ساتھ ہی پاکستانی فوج نے کشمیر میں سیز فائر لائن پار کر کے ہندوستان کی طرف پیش قدمی کی۔ اس کے جواب میں ہندوستانی فضائیہ نے پاکستانی ایئر فیلڈز چکلالہ، مرید، سرگودھا، چندر، رِسالہ والا، رفیقی، مسرور اور شورکوٹ پر بھرپور حملے کیے۔

کسنجر نے نکسن کو مشورہ دیا کہ ”ہمیں فوراً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جانا چاہیے تاکہ ہندوستان کی جوابی جنگ روکی جا سکے۔“ انہوں نے کہا: ”محکمہ خارجہ اور میں دونوں سمجھتے ہیں کہ جونہی حملوں کی تصدیق ہو، اسے کونسل میں لے جائیں۔ اگر بڑی جنگ چھڑ گئی اور ہم کونسل نہ گئے تو یہ ہماری کمزوری کا اعتراف ہو گا۔“ نکسن نے پوچھا: ”کون مخالفت کرے گا؟“

کسنجرنے کہا ”ہندوستان اور سوویت یونین… کوئی اور نہیں۔“

حقیقت میں اقوام متحدہ میں بہت سے ممالک ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور پاکستان کی فوج کی طرف سے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں ہونے والی نسل کشی کی مذمت کی۔ آخر کار 14 دن کی شدید جنگ میں ہندوستان اور مکتی باہنی کے مشترکہ حملوں سے بنگلہ دیش آزاد ہوا۔

جنگ شروع ہونے سے دو دن پہلے امریکی سفیر کینتھ کیٹنگ اندرا گاندھی سے ملے اور صدر نکسن کا پیغام دیا کہ ہندوستان سرحد پر فوجیں جمع کرنا بند کر دے۔ اندرا گاندھی نے صاف جواب دیا: ”پاکستان نے سب سے پہلے فوجیں سرحد پرتعینات کی تھیں، کسی نے ان سے واپس بلانے کو نہیں کہا۔“ انہوں نے کہا کہ جنرل یحییٰ خان کے مسائل خود انکے پیدا کردہ ہیں اور ”ہم ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔“ انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان یحییٰ خان کی غلط کاریوں کو یونہی جاری رہنے نہیں دے گا۔ جب کیٹنگ نے کہا کہ آپ کا موقف ”بہت سخت“ ہے تو اندرا گاندھی نے جواب دیا: ”اب یہ پہلے سے تھوڑا سخت ہے۔ میرے صبر کی انتہا ہو چکی۔ میں ہندوستانی قوم سے یہ کیسے کہوں کہ مزید صبر کریں؟ میں اب یہ نہیں روک سکتی۔“

جب کیٹنگ نے ہندوستان کے مبینہ حملے کا ذکر چھیڑا تو اندرا گاندھی نے بات کاٹتے ہوئے کہا: ”ہم ایسی نصیحت نہیں سن سکتے جو ہمیں کمزور کرے۔“ اسی دن کیٹنگ نے واشنگٹن کو رپورٹ بھیجی: ”ان کے موقف میں کوئی لچک نظر نہیں آتی اور غالباً یہ دھوکہ بھی نہیں۔ وہ ہندوستان کے مفادات جس طرح سمجھتی ہیں، ان سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہیں۔“

یواین 





کانگریس لیڈر مانیکم ٹیگور نے نہرو اور بابری مسجد پر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے دعوے کو مسترد کیا

نئی دہلی، 3 دسمبر (یو این آئی) کانگریس لیڈر مانیکم ٹیگور نے بدھ کے روز وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے حالیہ دعوے کی سخت تردید کی کہ جواہر لال نہرو نے عوامی فنڈ کا استعمال کرکے بابری مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تھا اور سردار ولبھ بھائی پٹیل نے اس کی مخالفت کی تھی مسٹر مانیکم ٹیگور نے ان دعووں کی تائید میں کسی آرکائیو یا دستاویزی ثبوت کے فقدان کی بنیاد پر انہیں "جھوٹ" قرار دیا۔

مسٹر مانیکم ٹیگور نے اپنے آفیشل ایکس ہینڈل پر واضح بیان میں کہا، "اس دعوے کی تائید کرنے کے لیے کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔ نہروجی واضح طور پر مذہبی مقامات بشمول مندروں کی تعمیر نو کے لیے سرکاری فنڈ کے استعمال کے خلاف تھے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اس طرح کے منصوبوں کے لیے ریاست کی طرف سے نہیں، عوامی تعاون سے فنڈ فراہم کیے جانے چاہییں۔"

مسٹر مانیکم ٹیگور نے مزید کہا "جب نہروجی نے سومناتھ کے لیے بھی عوامی فنڈ کے استعمال سے انکار کر دیا تھا، جو لاکھوں لوگوں کی عقیدت کی علامت ہے، تو وہ بابری مسجد پر ٹیکس دہندگان کی رقم خرچ کرنے کی تجویز کیوں پیش کریں گے؟" انہوں نے راج ناتھ سنگھ کے بیانات کو ذاتی سیاسی عزائم کے لیے تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش قرار دے کر مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا"راجناتھ سنگھ کے بیانات کا تاریخ سے کوئی سروکار نہیں ہے، بلکہ وہ سیاست آلود بیانات ہیں - یعنی حال کو تقسیم کرنے کے لیے ماضی کو دوبارہ لکھنے کی کوشش ہے۔ بی جے پی کی حکمت عملی عیاں ہے: ہمارے بانیوں کی توہین کرنا، کہانیاں ایجاد کریں، پولرائزیشن کو فروغ دینا۔ ہم نہرو یا پٹیل کی وراثت کو گوڈسے کے پیروکاروں کے ہاتھوں مسخ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"

یو این آئی۔ م ش





سنچار ساتھی ایپ پر تنازعہ کے بعد حکومت کا یو ٹرن، پری انسٹالیشن کا حکم واپس



قومی آواز بیورو


سنچار ساتھی ایپ کے معاملے پر بڑھتے اعتراضات اور سخت سیاسی ردعمل کے بعد مرکزی حکومت نے بالآخر پری انسٹالیشن کا حکم واپس لے لیا ہے۔ کل وزیر اطلاعات و نشریات جیوتیرادتیہ سندھیا نے زبانی طور پر یہ وضاحت دی تھی کہ اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنا لازمی نہیں ہے اور اب حکومت نے اس حوالے سے باضابطہ بیان بھی جاری کر دیا ہے۔


محکمۂ ٹیلی مواصلات نے بدھ کے روز اپنے نئے بیان میں واضح کیا کہ اس نے 28 نومبر کے اس حکم نامے کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں اسمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ تمام نئے موبائل فون میں ’سنچار ساتھی‘ کو پہلے سے انسٹال کریں اور پرانے فون میں بھی اسے شامل کرنے کا انتظام کریں۔ اس حکم کے منظر عام پر آتے ہی شدید تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا اور اپوزیشن جماعتوں نے اسے نگرانی اور جاسوسی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی تھی۔




اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ یہ ایپ کالز اور پیغامات کی نگرانی کر سکتی ہے، اس لیے شہریوں کی شخصی آزادی اور رازداری کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ انہی اعتراضات کے درمیان حکومت نے اب اپنا مؤقف بدلا ہے۔ محکمے نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں اس ایپ کو رضاکارانہ طور پر ڈاؤنلوڈ کرنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شہری خود اپنی سائبر حفاظت کے لیے اسے اختیار کر رہے ہیں۔


بیان کے مطابق، صرف ایک دن میں تقریباً 6 لاکھ صارفین نے ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے رجسٹریشن کرایا، جو استعمال میں 10 گنا اضافہ ہے۔ محکمۂ ٹیلی مواصلات کا کہنا ہے کہ اسی رجحان کو دیکھتے ہوئے اب یہ ضروری نہیں کہ موبائل تیار کنندگان کے لیے اس ایپ کو پہلے سے انسٹال کرنا لازمی قرار دیا جائے۔



حکومت کے مطابق، پہلے جاری کیا گیا حکم کم آگاہی رکھنے والے صارفین تک ایپ کی رسائی آسان بنانے کے لیے تھا مگر اب جب کہ ڈاؤن لوڈ میں تیزی آئی ہے، لازمی انسٹالیشن کی ضرورت نہیں رہی۔ اگرچہ حکومت نے متنازعہ حکم واپس لے کر صورتحال کو کچھ حد تک معمول پر لانے کی کوشش کی ہے لیکن سیاسی حلقوں اور ڈیجیٹل رازداری کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے کئی اہم سوالات کو جنم دیا ہے، جن کا جواب ابھی باقی ہے۔





ذات پر مبنی مردم شماری پر حکومت کا جواب غیر سنجیدہ، عوام کے اعتماد کے ساتھ دھوکہ دہی، راہل گاندھی کا حکومت پر نشانہ



قومی آواز بیورو


نئی دہلی: کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی نے لوک سبھا میں ذات پر مبنی مردم شماری کے تعلق سے حکومت سے جو سوال پوچھا تھا، اس کے جواب پر سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے ایکس (ٹوئٹر) پر کہا کہ حکومت نے جو جواب دیا ہے وہ چونکانے والا ہے، کیونکہ نہ اس میں کوئی واضح روڈ میپ ہے، نہ وقت بندی، نہ پارلیمانی سطح پر کوئی سنجیدہ بحث کا ذکر اور نہ ہی عوام سے مشاورت کا کوئی اشارہ۔ ان کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں اور دیگر ریاستوں کے تجربات سے سیکھنے کی بھی کوئی خواہش نہیں رکھتی۔ انہوں نے اس رجحان کو ملک کی ’بہوجن آبادی‘ کے ساتھ کھلا اعتماد شکنی قرار دیا۔


راہل گاندھی نے جو سوال لوک سبھا میں رکھا تھا، وہ تین نکات پر مبنی تھا۔ دس سالہ مردم شماری کی تیاری کے مراحل، اس کی پیش رفت اور ممکنہ ٹائم لائن کیا ہے؟ کیا حکومت مردم شماری کے سوالنامے کا ڈرافٹ عوام کے سامنے لا کر تجاویز لینے کا ارادہ رکھتی ہے؟ اور کیا حکومت ان ریاستوں کے تجربات پر غور کر رہی ہے جنہوں نے ذات پر مبنی سروے کیے ہیں، اور اگر ہاں تو تفصیل کیا ہے؟




وزارت داخلہ کی جانب سے وزیر مملکت نتیانند رائے نے جو تحریری جواب دیا، اس میں بتایا گیا کہ مردم شماری 2027 میں دو مرحلوں میں کی جائے گی۔ اول مرحلے کے دوران مکان شماری، جو اپریل سے ستمبر 2026 کے درمیان مکمل ہوگی۔ اس کے بعد مرحلہ دوم اصل مردم شماری پر مبنی ہوگا، جو فروری 2027 میں کی جائے گی اور جس کی ریفرنس تاریخ یکم مارچ 2027، رات 12 بجے مقرر کی گئی ہے۔ پہاڑی اور برفانی علاقوں میں مردم شماری ستمبر 2026 میں ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا۔



حکومت نے یہ بھی کہا کہ مردم شماری کا سوالنامہ مختلف وزارتوں اور متعلقہ اداروں سے ملی تجاویز کی بنیاد پر تیار کیا جاتا ہے اور اسے حتمی شکل دینے سے قبل فیلڈ ٹیسٹنگ کی جاتی ہے۔ تاہم جواب میں کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا ذات کی بنیاد پر تفصیلی سروے یا مردم شماری کا کوئی منصوبہ زیر غور ہے۔