یورین میں نمکیات کے بڑھنے سے نوجوانوں میں کڈنی اسٹون کے معاملات میں اضافہ



قومی آواز بیورو


حالیہ برسوں میں ہندوستان میں نوجوانوں کے درمیان کڈنی اسٹون یا گردے کی پتھری کے کیسز تیزی سے بڑھتے دیکھے جا رہے ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق جدید طرزِ زندگی، کم پانی پینے کی عادت، زیادہ نمک، فاسٹ فوڈ، پروٹین اور مسالے دار غذا کا حد سے زیادہ استعمال اس رجحان میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پہلے یہ بیماری زیادہ تر درمیانی عمر یا بزرگوں میں دیکھی جاتی تھی، مگر اب کالج جانے والے نوجوان بھی اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسپتالوں کے یورولوجی محکموں میں نوجوان مریضوں کی تعداد میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے۔


ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جسم میں پانی کی کمی یورین کو گاڑھا کر دیتی ہے، جس سے کیلشیم، یورک ایسڈ اور دیگر نمکیات جمع ہو کر پتھری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض کیسز میں جینیاتی عوامل، میٹابولک بیماریاں، موٹاپا اور طویل عرصے تک دردکش دواؤں کا بے جا استعمال بھی پتھری بننے کا سبب بنتا ہے۔ ماہرین زور دیتے ہیں کہ دن بھر میں کم از کم دو سے ڈھائی لیٹر پانی پینا گردوں کی صحت کے لیے ضروری ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو گرم علاقوں میں رہتے ہیں یا زیادہ جسمانی کام کرتے ہیں۔




علامات کی بات کی جائے تو کمر یا پہلو میں شدید درد، متلی، قے، جلن کے ساتھ پیشاب آنا، بار بار پیشاب کی حاجت اور یورین میں خون آنا عام نشانیاں ہیں۔ بعض مریضوں میں ابتدا میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی، جس کے باعث پتھری وقت کے ساتھ بڑی ہوتی جاتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ تکلیف یا مشتبہ علامات سامنے آنے پر فوراً ٹیسٹ کروائے جائیں، جن میں الٹراساؤنڈ، سی ٹی اسکین اور یورین رپورٹ اہم ہیں۔


علاج کا انحصار پتھری کے سائز اور جگہ پر ہوتا ہے۔ چھوٹے اسٹون عموماً دواؤں، پانی کی مقدار بڑھانے اور ڈاکٹر کی نگرانی سے خود ہی خارج ہو جاتے ہیں، لیکن بڑی پتھریوں کے لیے لیتھو ٹرپسی، لیپروسکوپک سرجری یا دیگر طریقوں کا سہارا لینا پڑ سکتا ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ بغیر تشخیص، گھریلو ٹوٹکوں یا مشوروں پر انحصار سنگین پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔


آیوروید کے مطابق پتھری کو ’اشمری‘ کہا جاتا ہے اور اسے بدن کے تینوں دوش—وَات، پِت اور کَپھ—کے بگاڑ سے جوڑا جاتا ہے۔ بعض آیورویدک معالج مناسب پانی کی مقدار، متوازن غذا، نمک میں کمی، جسمانی سرگرمی اور ناریل پانی، لاؤکی کے جوس یا تلسی کے محدود استعمال کی صلاح دیتے ہیں، تاہم ماہرین واضح کرتے ہیں کہ کسی بھی جڑی بوٹی یا دوا کا استعمال صرف مستند ڈاکٹر کی نگرانی میں ہونا چاہیے، کیونکہ ہر مریض کا جسم اور بیماری کی نوعیت الگ ہوتی ہے۔


ماہرین کا ماننا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ روزانہ مناسب پانی پینے، تازہ اور کم نمک والی غذا اپنانے، باقاعدہ ورزش، الکحل اور فاسٹ فوڈ میں کمی، وزن کنٹرول میں رکھنے اور طبی جانچ کرانے سے کڈنی اسٹون کے خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ صحت عامہ سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان اگر اپنی روزمرہ عادات پر توجہ دیں تو اس تکلیف دہ مرض سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے






الیکشن کمیشن اور بی جے پی پر بنگال میں حقیقی ووٹروں کے نام ہٹانے کی سازش کا الزام، بی ایل اوز کا احتجاج



قومی آواز بیورو


کولکاتا میں پیر کی رات اس وقت کشیدگی پیدا ہو گئی جب مغربی بنگال کے چیف الیکشن آفیسر (سی ای او) کے دفتر کے باہر دھرنے پر بیٹھے بی ایل او فورم کے اراکین اور بی جے پی کارکنوں کے درمیان شدید تکرار ہو گئی۔ واقعہ رات تقریباً 11 بجے پیش آیا، جس کے بعد پولیس کو بیچ بچاؤ کے لیے مداخلت کرنا پڑی اور دونوں گروہوں کو الگ کیا گیا۔


’بی ایل او حقوقِ دفاع کمیٹی‘ کے کئی ارکان پیر کی دوپہر سے ہی سی ای او دفتر کے باہر بیٹھے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظر ثانی (ایس آئی آر) کے دوران ان پر کام کا حد سے زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ تنظیم کے مطابق بی ایل اوز کو کم وقت، محدود وسائل اور غیر حقیقی اہداف کے ساتھ فیلڈ میں بھیجا جا رہا ہے، جس سے ان کی صحت، نجی زندگی اور ذہنی دباؤ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔


احتجاج کے دوران معاملہ اس وقت بگڑ گیا جب کولکاتا میونسپل کارپوریشن کے بی جے پی کارپوریٹر سجل گھوش کی قیادت میں تقریباً 50 بی جے پی کارکن رات گئے موقع پر پہنچے۔ بی جے پی حامیوں نے نعرے لگاتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ مظاہرہ دراصل ترنمول کانگریس کی جانب سے ایس آئی آر عمل روکنے کی منظم کوشش ہے، تاکہ ووٹر لسٹ کی شفافیت ختم ہو اور سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ گھوش نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا یہ یہ لوگ بی ایل او نہیں، بلکہ ترنمول سے وابستہ تنظیموں کے کارکن ہیں۔




بی ایل او فورم کے اراکین نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کیا اور جوابی نعرے لگائے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی کے کارکن پُرامن مظاہرین کو ڈرانے، مشتعل کرنے اور ایس آئی آر کے نام پر اصلی اور اہل ووٹروں کے نام فہرست سے حذف کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کمیٹی کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ کئی علاقوں میں گھر گھر تصدیقی کارروائی کے دوران دباؤ ڈال کر یا تکنیکی تاویلیں گھڑ کر ووٹرز کے نام کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس میں ’’انتخابی حکام اور بی جے پی کے درمیان ملی بھگت‘‘ کا شبہ بڑھ رہا ہے۔


صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہو گئی جب دونوں فریق میڈیا کے سامنے ایک دوسرے کے خلاف الزامات دہرانے لگے، تاہم پولیس کی موجودگی اور مسلسل اپیلوں کے بعد ہجوم منتشر ہوا۔ موقع پر موجود ڈپٹی کمشنر آف پولیس (سینٹرل)، اندرا مکھرجی نے فوراً سکیورٹی بڑھا دی اور دونوں گروہوں کے درمیان انسانی دیوار بنا کر ممکنہ تصادم کو روکا۔


چیف الیکشن آفیسر منوج کمار اگروال بھی اُس وقت اپنے دفتر میں موجود تھے۔ وہ تقریباً 11:40 بجے عمارت سے باہر نکلے لیکن انہوں نے رات کے واقعات پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔ بعد ازاں پولیس نے انہیں اور دیگر انتخابی افسران کو بحفاظت ان کی رہائش تک پہنچایا، جس کے بعد ماحول قدرے پُرسکون ہوگیا۔


واقعے کے بعد سیاسی حلقوں میں بحث زور پکڑ گئی ہے۔ ترنمول کانگریس نے ووٹر فہرست میں منصفانہ کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ بی جے پی اور انتخابی حکام نے کسی بھی بدعنوانی یا جانبداری کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ فی الحال ایس آئی آر عمل جاری ہے اور بی ایل او فورم نے اعلان کیا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات—کام کے بوجھ میں کمی، شفاف ہدایات اور مناسب حفاظتی انتظامات—پورے نہیں ہوتے، احتجاج جاری رہے گا۔





ایتھوپیا کے آتش فشاں کی راکھ کا اثر، ایئر انڈیا کی متعدد بین الاقوامی و ملکی پروازیں منسوخ



قومی آواز بیورو


ایتھوپیا کے ہیلی گوبی آتش فشاں میں 23 نومبر کو ہونے والے دھماکے کے اثرات اب براہِ راست ہندوستانی فضائی نظام پر دکھائی دینے لگے ہیں۔ دھماکے کے فوراً بعد فضا میں بلند ہونے والی آتش فشانی راکھ تیز ہواؤں کے ساتھ خلیجی خطے، عمان اور بحیرۂ عرب سے گزرتی ہوئی 24 نومبر کی شام ہندوستانی فضائی حدود تک جا پہنچی۔ ماہرین کے مطابق یہ راکھ 30 سے 35 ہزار فیٹ تک معلق ہے، جو بالکل وہی بلندی ہے جہاں سے بین الاقوامی طیارے عام طور پر گزرتے ہیں۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر شہری ہوابازی کے ادارے ڈی جی سی اے اور ممبئی و دہلی کے موسمیاتی مشاہدہ دفاتر نے فضائی کمپنیوں کے لیے سگمنٹ الرٹ جاری کیا تھا، جس کا عملی اثر اب سامنے آنے لگا ہے۔


تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایئر انڈیا نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنی کئی اہم بین الاقوامی اور ملکی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ کمپنی نے واضح کیا ہے کہ راکھ کے بادل کے راستے میں آنے کا خدشہ ٹلنے تک سفر محدود رکھنا ضروری ہے، کیونکہ مسافروں اور عملے کی سلامتی اولین ترجیح ہے۔ ایئر انڈیا نے اپنے سرکاری اعلامیے میں کہا کہ کچھ وہ طیارے جنہوں نے دھماکے کے بعد متاثرہ جغرافیائی علاقوں کے اوپر سے پرواز کی تھی، ان کی تکنیکی جانچ جاری ہے، اسی سبب عارضی طور پر آپریشن متاثر ہوا ہے۔




25 نومبر کو منسوخ کی گئی پروازوں میں اے آئی 2822 (چنئی سے ممبئی)، اے آئی 2466 (حیدرآباد سے دہلی)، اے آئی 2444 اور 2445 (ممبئی-حیدرآباد-ممبئی) اور اے آئی 2471 اور 2472 (ممبئی-کولکاتا-ممبئی) شامل ہیں۔ اس سے قبل 24 نومبر کو بھی کئی پروازیں روک دی گئی تھیں جن میں اے آئی 106 (نیویارک سے دہلی)، اے آئی 102 (نیویارک سے دہلی)، اے آئی 2204 (دبئی سے حیدرآباد)، اے آئی 2290 (دوحہ سے ممبئی)، اے آئی 2212 (دبئی سے چنئی)، اے آئی 2250 (دمام سے ممبئی) اور اے آئی 2284 (دوحہ سے دہلی) شامل ہیں۔


ایئر انڈیا نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ زمینی عملہ مسلسل متاثرہ مسافروں کو پروازوں کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کر رہا ہے، اور جہاں ضرورت ہو وہاں ہوٹل میں قیام اور متبادل سفر کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ کمپنی نے مسافروں سے ہونے والی پریشانی پر معذرت بھی کی ہے، تاہم اسے غیر متوقع اور ادارے کے اختیار سے باہر قرار دیا ہے۔


موسمیاتی ماہرین اب بھی خبردار کر رہے ہیں کہ آتش فشانی راکھ طیاروں کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ یہ انجن میں داخل ہو کر پگھل جاتی ہے، ٹربائن میں جمنے سے انجن بند ہونے کا خدشہ رہتا ہے، شیشے اور حساس آلات کو نقصان پہنچتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ عام موسمی ریڈار پر واضح نظر نہیں آتی، جس سے خطرہ اچانک بڑھ سکتا ہے۔ اسی لیے فضائی ادارے مسلسل فضا کی کیفیت کا جائزہ لے رہے ہیں، اور ان راستوں سے پرہیز کی ہدایت برقرار ہے جہاں راکھ کے ذرات معلق ہیں۔


ڈی جی سی اے کا کہنا ہے کہ صورتِ حال بہتر ہوتے ہی پروازیں معمول پر آ جائیں گی، تاہم اس وقت بنیادی ترجیح احتیاط، نگرانی اور مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ فضائی ماہرین کے مطابق آئندہ 24 سے 48 گھنٹے نہایت اہم ہیں، کیونکہ ہواؤں کے رخ میں تبدیلی ہی اس خطرے میں کمی لا سکتی ہے۔ اس وقت تک ساری پروازیں محتاط طریقے سے چلائی جائیں گی۔






ایتھوپیا کے آتش فشاں کی راکھ ہندوستانی فضائی حدود تک، پروازوں کے لیے خطرے کا الرٹ جاری



قومی آواز بیورو


ایتھوپیا کے ہیلی گوبی آتش فشاں میں 23 نومبر کو ہونے والے اچانک دھماکے کے بعد اٹھنے والی آتش فشانی راکھ ہندوستان تک جا پہنچی ہے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ پہاڑ کی گہرائیوں سے اٹھنے والی گھنی راکھ آسمان کی بلندیوں تک جا چڑھی اور تیز ہواؤں نے اسے چند گھنٹوں میں خلیجی خطے، عمان، بحیرہ عرب اور پھر ہندوستانی فضائی راستوں تک پہنچا دیا۔


اس غیر معمولی صورتحال کے پیشِ نظر شہری ہوابازی کے ادارے ڈی جی سی اے اور ممبئی و دہلی کے موسمیاتی مشاہدہ دفاتر نے فضائی کمپنیوں کیلئے سخت الرٹ جاری کرتے ہوئے انہیں راکھ والے علاقوں کے اوپر پرواز نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔


آتش فشاں کے دھماکے کے فوراً بعد راکھ کا بادل تقریباً 30 سے 35 ہزار فیٹ کی اونچائی تک پہنچا، جو انہی فضائی پرتوں میں شمار ہوتی ہے جہاں سے زیادہ تر بین الاقوامی پروازیں گزرتی ہیں۔ ہواؤں کا رخ خلیجی ممالک کی طرف تھا، اسی وجہ سے یہ بادل سیدھا عمان کی جانب بڑھا اور پھر بحیرہ عرب کے اوپر سے گزرتا ہوا 24 نومبر کی شام بر صغیر تک آ پہنچا۔




موسمیاتی ماہرین کے مطابق اس وقت مہاراشٹر، گجرات، راجستھان اور وسطی ہندوستان کے اوپر کی ہوا میں راکھ کے باریک ذرات موجود ہیں جو پروازوں کے لیے مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔


طیاروں کے ماہرین کہتے ہیں کہ آتش فشانی راکھ ہوابازی کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ عناصر میں شامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راکھ انجن میں داخل ہو کر پگھلتی ہے اور ٹربائن کے اندر جم کر رکاوٹ پیدا کرتی ہے، جس سے انجن بند ہونے تک کا خدشہ رہتا ہے۔ صرف انجن ہی نہیں بلکہ جہاز کی سامنے والی شیشے کی پرت بھی بری طرح کھرچ جاتی ہے، جس سے پائلٹ کے لیے منظر دھندلا ہو جاتا ہے۔ آلات اور سینسر بھی خراب ہو سکتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ راکھ عام موسمی ریڈار پر صاف دکھائی نہیں دیتی، لہٰذا خطرہ اچانک اور بغیر پیشگی خبر کے سامنے آ سکتا ہے۔


اسی پس منظر میں ڈی جی سی اے نے فضائی کمپنیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی پروازوں کی اونچائی تبدیل کریں، خاص طور پر ان پرتوں سے دور رہیں جہاں راکھ کا بادل تیر رہا ہے۔ کئی پروازوں کے راستے طویل کر دیے گئے ہیں تاکہ راکھ والے حصے سے محفوظ گزر مل سکے۔ ایئر ٹریفک کنٹرول اور موسمیاتی دفاتر مسلسل فضائی کمپنیوں کو تازہ ترین معلومات فراہم کر رہے ہیں، تاکہ کوئی جہاز غلطی سے بھی اس حصے کے قریب نہ جائے جہاں آتش فشانی ذرات موجود ہیں۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ہواؤں کا رخ تبدیل نہیں ہوتا یا راکھ زمین پر نہیں بیٹھ جاتی، اس خطرے کو معمولی نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس وقت ضرورت مسلسل نگرانی اور احتیاط کی ہے اور فضائی ادارے اپنی سطح پر پوری چوکسی کے ساتھ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ مسافروں اور طیاروں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔





تائیوان کے قریب جاپانی میزائل یونٹ کی تنصیب، خطے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی



یو این آئی


چین نے جاپان کے اس منصوبے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس کے تحت وہ تائیوان کے قریب واقع جزیرے یوناگونی پر میزائل یونٹ تعینات کرنے جا رہا ہے۔ چین نے اسے علاقائی کشیدگی بڑھانے اور فوجی محاذ آرائی کو اشتعال دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔


جاپان کے وزیرِ دفاع شنجیرو کوئزومی نے کہا کہ منصوبہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور یہ جزیرہ تائیوان کے ساحل سے صرف 110 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔چین نے ریاستی میڈیا میں تنقیدی مہم، جاپانی سی فوڈ پر پابندی اور اپنے شہریوں کو جاپان کے سفر سے روکنے جیسے اقدامات کیے ہیں۔ تائیوان نے جاپان کے حقِ خودمختاری اور اپنی سرزمین کے دفاع کی اہمیت کو تسلیم کیا۔




اس دوران، چین کی فوج نے جنگی لہجے میں متعدد ویڈیوز جاری کیں، جن میں میزائل فائرنگ، فوجیوں کی تیاری اور دشمن کے لیے سخت پیغامات دکھائے گئے۔ جاپان کا کہنا ہے کہ میزائل سسٹم جزیرے کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، لیکن چین اسے براہِ راست اشتعال انگیزی سمجھتا ہے، جس سے خطے میں تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔






چین نے ہند نژاد خاتون کو ہراساں کیا، 18 گھنٹے تک بھوکا رکھا اور شنگھائی ایئرپورٹ پر یرغمال بنایا



قومی آواز بیورو


اروناچل پردیش پر ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ کئی دہائیوں پرانا ہے لیکن ایک نیا واقعہ سامنے آیا ہے جس میں اروناچل پردیش سے تعلق رکھنے والی خاتون کو چین میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ خاتون نے الزام لگایا کہ چینی حکام نے اس کے ہندوستانی پاسپورٹ کو درست تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ چینی حکام نے اسے شنگھائی ایئرپورٹ پر 18 گھنٹے تک حراست میں رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔


اروناچل پردیش میں پیدا ہوئیں پیما وانگ تھونگ ڈوک نے بتایا کہ چینی امیگریشن حکام نے انہیں جمعہ یعنی 21 نومبر کو ہوائی اڈے پر 18 گھنٹے تک حراست میں رکھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اروناچل پردیش چین کا حصہ ہے، جس کی وجہ سے اروناچل میں پیدا ہونے والی خاتون کا ہندوستانی پاسپورٹ غلط ہے۔ پیما وانگ تھونگ ڈوک 21 نومبر 2025 کو لندن سے جاپان جا رہی تھیں لیکن ان کی فلائٹ چین کے شنگھائی ایئرپورٹ پر تین گھنٹے تک روکی گئی جہاں چینی حکام نے انہیں روک کر حراست میں لے لیا۔




اروناچل پردیش میں پیدا ہوئیں پیما وانگ تھونگ ڈوک نے چین میں ہونے والے واقعے کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا، جس میں ہندوستانی وزیر اعظم کے دفتر، مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو، ​​اور اروناچل پردیش کے وزیر اعلی پیما کھنڈو کو ٹیگ کیا۔ پوسٹ میں، پیما نے کہا، "مجھے چینی امیگریشن اور چائنا ایسٹرن ایئر لائنز کارپوریشن لمیٹڈ نے جمعہ یعنی21 نومبرکو شنگھائی ہوائی اڈے پر 18 گھنٹے سے زیادہ حراست میں رکھا۔" انہوں نے میرے ہندوستانی پاسپورٹ کو غلط قرار دے دیا کیونکہ میری جائے پیدائش اروناچل پردیش میں ہے، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ چینی علاقہ ہے۔'



تھونگ ڈوک کے بیان کے مطابق چینی امیگریشن حکام نے اروناچل پردیش کو ان کی جائے پیدائش کے طور پر درج دیکھ کر ان کا ہندوستانی پاسپورٹ غلط قرار دے دیا۔ اس کے بعد، چینی حکام نے ان کی ہندوستانی شہریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ اروناچل چین کا حصہ ہے۔ چینی حکام نے اس کا پاسپورٹ بھی ضبط کر لیا اور جاپان کا درست ویزا ہونے کے باوجود اسے اگلی پرواز میں سوار ہونے سے روک دیا۔ دریں اثنا، ایک ہندوستانی خاتون کو شنگھائی ایئرپورٹ پر یرغمال بنا کر چینی حکام نے 18 گھنٹے تک بھوکا رہنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا۔