دبئی میں پہنچی گینگ وار: لارنس بشنوئی گینگ کے زورا سدھو کا گلا کاٹ کر قتل



قومی آواز بیورو


یہ پہلا موقع ہے جب غیر ملکی سرزمین پر ہندوستانی بدمعاشوں کے درمیان کھلی گینگ وار دیکھنے میں آئی ہے۔ لارنس بشنوئی گینگ کے رکن زورا سدھو عرف سپا کو دبئی میں گلا کاٹ کر بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ حریف گینگسٹر روہت گودارا نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کھلے عام قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ذرائع کے مطابق زورا سدھو لارنس بشنوئی کے قریبی تھے اور دبئی سے گینگ کی بین الاقوامی کارروائیوں کو ہینڈل کرتے تھے۔ گینگسٹر روہت گودارا نے دعویٰ کیا کہ زورا عرف سپا نے جرمنی میں اس کے بھائی پر حملہ کرنے کیسازش رچی تھی۔


سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر وائرل ہونے والی ایک پوسٹ میں روہت گودارا نے لکھا، ’’تمام بھائیوں کو رام رام‘۔ میں، روہت گودارا، گولڈی برار، وریندر چرن، مہندر سرن ڈیلانہ، اور وکی پہلوان کوٹکپورہ، وہی ہیں جنہوں نے لارنس کے کتے زورا سدھو (سپی) کے قتل کی منصوبہ بندی آج دبئی میں کی۔ سپا نے لارنس کے ہینڈلر کا روپ دھار کر ہمارے بھائی کو مارنے کے لیے اپنے آدمی جرمنی بھیجے۔ وہ دبئی میں بیٹھ کر لارنس کے نام سے کینیڈا اور امریکہ میں دھمکیاں دیتا تھا۔ لیکن اس کو ہم تک پہنچنے کے لئے سات مرتبہ پیدا ہونا پڑے گا۔‘‘




انہوں نے مزید لکھا کہ اگر کوئی اس غدار کے زیر اثر مجھ پر یا میرے بھائیوں کی طرف دیکھنے کی جرات بھی کرتا ہے توہم اس کے ساتھ بدتر سلوک کریں گے ، لوگ کہتے ہیں دبئی محفوظ ہے، لیکن ہمارے خلاف ہونے سے کوئی بھی کہیں محفوظ نہیں، کسی بھی ملک میں چھپ جائیں، آپ فرار نہیں ہوں گے، وقت لگ سکتا ہے، لیکن ہم آپ کو جانے نہیں دیں گے۔ جہاں پولیس کی ہاتھ نہیں پہنچ سکتے ہم وہاں پہنچ جائیں گے۔ دشمن، تیار رہو ہم جلد ملیں گے۔"


یہ پہلی بار نہیں ہے کہ لارنس اور گودارا کے گروہوں کے درمیان گینگ وار شروع ہوئی ہو۔ حال ہی میں لارنس بشنوئی گینگ کے شوٹر ہری باکسر کو امریکہ میں گولی چلائی گئی تھیں ۔ روہت گودارا نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔واضح رہے کہ ہری باکسر نے اس سال کے شروع میں مشہور کامیڈین کپل شرما کے Kap's Cafe میں گولی چلانے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک کیفے کو مزید دو بار گولیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔





’پانچوں پارٹیاں مل کر طے کریں گے‘، نتیش کمار کے وزیر اعلیٰ بننے پر بی جے پی جنرل سکریٹری نے لگایا سوالیہ نشان!



قومی آواز بیورو


بہار اسمبلی انتخاب کے رجحانات میں این ڈی اے نے زوردار فتح حاصل کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ بیشتر سیٹوں پر این ڈی اے امیدوار بڑی سبقت بنائے ہوئے ہیں اور مہاگٹھ بندھن کی حالت انتہائی خستہ معلوم ہو رہی ہے۔ اس درمیان نتیش کمار کے وزیر اعلیٰ بننے پر اب تک بی جے پی کی طرف سے مہر نہیں لگائی گئی ہے۔ بی جے پی جنرل سکریٹری ونود تاؤڑے نے تو ایسا بیان دے دیا ہے، جو جنتا دل یو کو پریشان کر سکتا ہے۔


ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ونود تاؤڑے نے کہا ہے کہ ہم نے بہار کا انتخاب نتیش کمار کی قیادت میں لڑا ہے۔ وزیر اعلیٰ کون ہوگا اس کا فیصلہ پانچوں پارٹیاں مل کر کریں گے۔ قابل ذکر ہے کہ این ڈی اے میں بی جے پی اور جنتا دل یو کے علاوہ جیتن رام مانجھی کی پارٹی ہم، اوپیندر کشواہا کی پارٹی آر ایم ایل اور چراغ پاسوان کی پارٹی ایل جے پی(ر) بھی شامل ہیں۔ چونکہ جنتا دل یو کے بغیر بھی این ڈی اے میں شامل دیگر پارٹیاں مجموعی طور پر تقریباً 120 سیٹوں پر آگے چل رہی ہیں، اس لیے نتیش کمار کے لیے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ مشکل ضرور ہو سکتی ہے۔




یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بنتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ شام 6 بجے تک بی جے پی 32 سیٹوں پر جیت اور 59 سیٹوں پر سبقت کے ساتھ 91 سیٹیں حاصل کرتی نظر آ رہی ہے۔ دوسری طرف جنتا دل یو 22 سیٹوں پر جیت اور 61 سیٹوں پر سبقت کے ساتھ 83 سیٹوں پر کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ لوک جن شکتی پارٹی (ر) کے حصے میں 19، ہم کے حصہ میں 5 اور آر ایل ایم کے حصہ میں 4 سیٹیں جاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔


قابل ذکر ہے کہ این ڈی اے نے ابھی تک وزیر اعلیٰ کے چہرہ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ حالانکہ چراغ پاسوان اور جیتن رام مانجھی نے ضرور کہا کہ نتیش کمار ہی وزیر اعلیٰ بنیں گے۔ نتیش کمار بہار میں اب تک 9 بار وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف لے چکے ہیں۔ اگر اس بار بھی وہ وزیر اعلیٰ بنے تو یہ ان کی دسویں مرتبہ حلف برداری ہوگی۔ فی الحال اس بات پر سسپنس بنا ہوا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ ہوں گے یا نہیں!





امریکہ کا چار لاطینی امریکی ممالک پر جزوی ٹیرف ہٹانے کا اعلان



قومی آواز بیورو


واشنگٹن: امریکہ نے ارجنٹینا، گواٹے مالا، ایل سلواڈور اور ایکواڈور کے ساتھ نئے تجارتی سمجھوتوں کی اصولی منظوری دے دی ہے، جن کے تحت متعدد اشیا پر عائد ٹیرف جزوی طور پر ہٹا دیے جائیں گے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ پیش رفت باہمی تجارت کو فروغ دینے، درآمدی اخراجات کم کرنے اور مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔


جمعرات کو جاری بیان میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ امریکی انتظامیہ ان چاروں ممالک کے ساتھ ایسے فریم ورک پر متفق ہو گئی ہے، جس کے تحت وہ تمام مصنوعات جنہیں امریکہ میں اگایا، نکالا یا فطری طور پر پیدا نہیں کیا جا سکتا، ان پر عائد ٹیرف ختم کر دیے جائیں گے۔ اس تبدیلی سے لاطینی امریکی ممالک کے لیے امریکی منڈی تک رسائی آسان ہو جائے گی۔


رپورٹ کے مطابق، گواٹے مالا اور ایل سلواڈور کے ٹیکسٹائل اور ملبوسات پر بھی باہمی ٹیرف ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے، جس سے ان ممالک کی برآمدی صنعتوں کو نمایاں فائدہ پہنچے گا۔ سمجھوتے کے تحت چاروں ممالک کئی شعبوں میں امریکی کمپنیوں کے لیے اپنے بازاروں کو مزید کھولنے پر بھی آمادہ ہو گئے ہیں۔


وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری معلومات میں بتایا گیا ہے کہ ارجنٹینا امریکی ادویات، کیمیکلز، مشینری، آئی ٹی مصنوعات، میڈیکل آلات، موٹر گاڑیاں اور زرعی مصنوعات کے لیے مارکیٹ تک رسائی بڑھانے میں تعاون کرے گا۔ یہ اقدام دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔




تاہم، مقامی میڈیا نے ایک بریفنگ کال میں امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ اب بھی ارجنٹینا، گواٹے مالا اور ایل سلواڈور کے زیادہ تر سامان پر 10 فیصد جبکہ ایکواڈور کی متعدد مصنوعات پر 15 فیصد درآمدی ڈیوٹی برقرار رکھے گا۔ یعنی ٹیرف میں نرمی مکمل طور پر نہیں بلکہ منتخب مصنوعات تک محدود ہوگی۔


امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سمجھوتوں کو آئندہ چند ہفتوں میں حتمی شکل دے دی جائے گی۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب رواں سال امریکہ کی جانب سے کیے گئے تجارتی محصولات نے مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ میں اضافہ کیا تھا۔ ستمبر میں امریکی کنزیومر پرائس انڈیکس گزشتہ سال کے مقابلے 3 فیصد اوپر گیا، جس کی ایک وجہ درآمدی لاگت میں اضافہ بھی بتایا گیا۔


ماہرین کے مطابق، کیلے، کافی اور کوکو جیسی مصنوعات پر ٹیرف میں کمی یا اسے مکمل طور پر ہٹانے سے امریکہ میں مہنگائی کے دباؤ میں کمی آئے گی، کیونکہ یہ بنیادی اشیا گھریلو منڈی میں بڑی مقدار میں استعمال ہوتی ہیں۔


دوسری جانب، آئی ایم ایف نے حال ہی میں جاری اپنی ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں ارجنٹینا کی معاشی کارکردگی کے تخمینوں میں نمایاں تبدیلی کی ہے۔ تازہ اندازے کے مطابق ارجنٹینا کی معیشت آئندہ سال 4.5 فیصد بڑھے گی، جو پہلے کے 5.5 فیصد تخمینے سے کم ہے۔ ادارے نے 2025 کے لیے ارجنٹینا کی مہنگائی کا تخمینہ بھی بڑھا کر 41.3 فیصد کر دیا ہے، تاہم 2026 میں اس میں نمایاں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔






مدھیہ پردیش میں حج کرانے کے نام پر ٹھگی کا معاملہ آیا سامنے، 8 لوگوں سے 18 لاکھ روپے لیے اور حج بھی نہیں کرایا!



قومی آواز بیورو


مدھیہ پردیش کے مندسور اور اجین کے 8 لوگوں سے حج سفر کے نام پر 18.62 لاکھ روپے کی ٹھگی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس تعلق سے پولیس نے 2 ملزمین کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حج سفر کا انتظام کرنے کے نام پر راجستھان کے جودھ پور باشندہ 2 لوگوں نے اس ٹھگی کو انجام دیا ہے۔ ملزمین کو بی این ایس کی دفعہ (2)316 اور (4)318 کے تحت مجرمانہ دھوکہ، جائیداد کی دھوکہ سے منتقلی اور دیگر جرائم کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔


مندسور ایس پی ونود کمار مینا نے بتایا کہ رواں سال اپریل میں مندسور اور اجین کے 8 لوگوں نے شکایت درج کروائی تھی۔ شکایت دہندگان کے مطابق اویس رضا اور سید حیدر علی نے حج سفر پیکیج کے تحت مدھیہ پردیش کے لوگوں سے 18.62 لاکھ روپے وصول کیے، لیکن نہ تو حج سفر کا انتظام کیا اور نہ ہی پیسے واپس کیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سبھی لین دین آن لائن کیے گئے تھے۔ اب ملزمین کے بینک اکاؤنٹس فریز کر دیے گئے ہیں اور عدالتی حکم کے مطابق آگے کی کارروائی کی جائے گی۔




پولیس کا کہنا ہے کہ جودھ پور میں کئی چھاپہ ماری کے باوجود ملزمین ہر بار گرفتاری سے بچنے میں کامیاب رہے۔ تکنیکی ثبوتوں اور خفیہ اطلاعات کا استعمال کر کے راجستھان پولیس کے ذریعہ سے ملزمین کا پتہ لگایا گیا اور انھیں گرفتار کیا۔ ونود کمار مینا کا کہنا ہے کہ ملزمین کو بدھ کے روز عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے انھیں پولیس حراست میں بھیج دیا گیا۔ متاثرین کے پیسے حاصل کرنے کی کوششیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔







ٹرمپ انتظامیہ نے 4 یورپی بائیں بازو کے گروہوں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا



قومی آواز بیورو


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یورپ میں سرگرم 4 بائیں بازو کے گروہوں کو باضابطہ طور پر دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے قدامت پسند کارکن چارلی کرک کے قتل کے بعد ملک میں بائیں بازو کے شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس اقدام کو یورپ اور امریکہ میں بڑھتی ہوئی عہد شکن تشدد پسندی کا جواب قرار دیا ہے۔


امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق یہ چاروں گروہ یورپ میں مختلف نوعیت کی تشدد آمیز اور مسلح کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں، اگرچہ ان کی براہ راست سرگرمیاں امریکہ کے اندر نہیں دیکھی گئیں۔ ان گروہوں میں سب سے نمایاں اطالوی انارکسٹ فرنٹ ہے، جو 2003 میں یورپی کمیشن کے اُس وقت کے صدر رومانو پروڈی کو دھماکہ خیز پارسل بھیجنے کے واقعے میں شامل رہا تھا۔ اس واقعے نے نہ صرف اٹلی بلکہ پورے یورپ میں سکیورٹی پر سوالات کھڑے کر دیے تھے۔


دوسرا اور تیسرا گروہ یونان میں فعال بتایا گیا ہے، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے گزشتہ برس ایتھنز میں پولیس ہیڈکوارٹر اور وزارتِ محنت کی عمارتوں کے باہر بم نصب کیے تھے۔ اگرچہ ان دھماکوں میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان نہیں ہوا تھا، مگر یونانی حکام نے ان کارروائیوں کو ملک کے سیاسی ڈھانچے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی ’منظم کوشش‘ قرار دیا تھا۔ یونان میں بائیں بازو کے ان گروہوں کی سرگرمیاں گزشتہ ایک دہائی میں بتدریج بڑھتی رہی ہیں، اور سکیورٹی ادارے مسلسل ان کی نگرانی کرتے رہے ہیں۔




چوتھا گروہ جرمنی سے تعلق رکھتا ہے، جو فاشزم مخالف تشدد پسند نیٹ ورک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے ارکان پر الزام ہے کہ انہوں نے جرمنی میں کئی نیو نازی کارکنوں پر ہتھوڑوں سے حملے کیے۔ جرمن داخلی انٹیلی جنس کے مطابق یہ گروہ تنظیمی ڈھانچے یا بڑے نیٹ ورک کے بجائے سیل سسٹم کے ذریعے کام کرتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی سرگرمیوں کا سراغ لگانا نسبتاً مشکل ہے۔


امریکی انتظامیہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’انارکسٹ اور بائیں بازو کے شدت پسند گروہوں نے یورپ اور امریکہ کو براہ راست نشانہ بنایا ہے اور وہ اپنی پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے مغربی تہذیب کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔‘‘ ترجمان نے مزید کہا کہ نئے فیصلے کے بعد حکومت ان گروہوں کے مبینہ مالی نیٹ ورکس، ہتھیاروں کی رسائی اور ان کی بین الاقوامی روابط پر مؤثر طریقے سے روک لگا سکے گی۔


فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد امریکی بینکوں اور مالیاتی اداروں پر لازم ہوگا کہ وہ ان گروہوں سے متعلق مشکوک مالی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کو سخت کریں۔ اس کے علاوہ امریکہ میں موجود ان کے کسی بھی ممکنہ رابطے یا اثاثے فوری طور پر منجمد کیے جا سکیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق عالمی سطح پر تشدد پسند نظریات کی روک تھام کے لیے یہ کارروائی ناگزیر تھی۔


یورپی حکام کی جانب سے ابتدائی ردعمل محتاط لیکن متوازن رہا ہے۔ بعض حکام نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا، جبکہ کچھ نے اس اقدام کو ’’سیاسی مفادات کے تناظر میں کیا گیا فیصلہ‘‘ قرار دیا۔ تاہم بیشتر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں یورپ میں تشدد آمیز نظریات کے پھیلاؤ نے معاملات کو پیچیدہ ضرور بنایا ہے اور اس سلسلے میں بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہو چکا ہے۔






جی-7 کی مشترکہ پریس ریلیز میں تہران کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات حقیقت سے عاری: ایران



قومی آواز بیورو


تہران نے جی-7 ممالک کے حالیہ بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے بے بنیاد، غیر ذمہ دارانہ اور سیاسی مقاصد پر مبنی قرار دیا ہے۔ ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اپنے باضابطہ ردِ عمل میں کہا کہ جی-7 کی مشترکہ پریس ریلیز میں تہران کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات حقیقت سے عاری ہیں اور مخصوص مغربی بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوشش ہیں۔


ترجمان کے مطابق جی-7 کے بیان میں ایران پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ یوکرین جنگ میں روس کو فوجی مدد فراہم کر رہا ہے۔ بقائی نے ان الزامات کو ’سراسر جھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے ہمیشہ جنگ کے خاتمے، مذاکرات اور سفارتی راستے کے ذریعے مسائل کے حل کی حمایت کی ہے۔ ان کے مطابق تہران نے متعدد بار واضح کیا ہے کہ یوکرین تنازع میں وہ کسی بھی قسم کی فوجی شمولیت یا معاونت کا حصہ نہیں۔


یہ بیان دراصل کینیڈا کے علاقے نیاگرا میں ہونے والے جی-7 وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد سامنے آیا، جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، اٹلی اور کینیڈا شامل ہیں۔ وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں ایران پر نہ صرف روس سے تعاون کے الزامات دہرائے بلکہ تہران سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور جوہری عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) کے تقاضوں پر مکمل عمل کرے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ ’شفاف تعاون‘ فراہم کرے۔ مزید یہ کہ ایران کے تمام جوہری مراکز کے معائنے کی اجازت دی جائے۔


جی-7 نے ایران پر یہ زور بھی دیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرے، جس کی پشت پناہی ای۔3 ممالک یعنی فرانس، برطانیہ اور جرمنی بھی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کی جانب سے گزشتہ ستمبر میں بحال کیے گئے پرانے پابندیوں پر سختی سے عمل کریں۔




ایران کے ترجمان نے ان مطالبات اور الزامات کو ’دوہرا معیار‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جی-7 ممالک ایک جانب تہران پر بے بنیاد الزامات عائد کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ ای۔3 اور امریکہ کی ان ’’غیر قانونی اور یکطرفہ‘‘ کارروائیوں کی حمایت کر رہے ہیں جن کے ذریعے 2015 کے جوہری معاہدے کی تنازعہ حل شق کا غلط استعمال کرتے ہوئے سابقہ پابندیوں کو دوبارہ نافذ کیا گیا۔ بقائی نے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے بلکہ ان ممالک کی جانب سے اعتماد سازی کے عمل کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔


انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور اسرائیل خود ایران کے پرامن جوہری مراکز پر حملے کر چکے ہیں، جو کہ ’’کھلی جارحیت‘‘ ہے۔ ایسے حالات میں جی-7 کا ایران سے آئی اے ای اے کے ساتھ مزید تعاون کا مطالبہ محض ’’سیاسی مداخلت اور کھلا تضاد‘‘ ہے، کیونکہ ان حملوں کا ذکر کیے بغیر اس طرح کے مطالبے کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز باقی نہیں رہتا۔


ترجمان کے مطابق تہران عالمی برادری کو بارہا یہ باور کروا چکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ ایران نے کہا کہ وہ شفافیت اور تعاون سے کبھی گریز نہیں کرتا، لیکن یکطرفہ دباؤ کی سیاست کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔


ایران نے امید کا اظہار کیا کہ مغربی ممالک غیر ذمہ دارانہ بیانات اور بے بنیاد الزامات کے بجائے تعمیری مذاکرات کو ترجیح دیں تاکہ خطے میں تناؤ کے بجائے استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔