227 سال پرانے قانون کو نافذ کرنے کی تیاری میں ٹرمپ، ہر غیر ملکی شہری پر امریکہ سے باہر ہونے کا خطرہ!
قومی آواز بیورو
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے باہر نکالنے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کئی جہازوں میں قیدیوں کی طرح بھر کر ہندوستان، برازیل، سلواڈور، میکسیکو سمیت کئی ملکوں کے ہزاروں لوگوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔ ٹرمپ کے قدم یہیں نہیں رک رہے، اب وہ 227 سال پرانے ایک ایسے قانون کو لانے کی تیاری میں ہیں جس سے ہر غیر ملکی کے باہر ہونے کا خطرہ ہوگا۔
ویسے ٹرمپ کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کی بھی بات کی جا رہی ہے لیکن اگر یہ قانون نافذ ہو گیا تو امریکہ سمیت دنیا بھر میں بڑی ہلچل پیدا ہو جائے گی۔ یہ قانون ہے ایلین انیمیز ایکٹ، 1798۔ یہ قانون صدر کو 'وارٹائم' پاور فراہم کرتا ہے۔ وہ ملک کے مفاد کے نام پر کسی بھی غیر امریکی نژاد کے شہری کو ملک سے باہر کر سکتے ہیں۔
یہ قانون وارٹائم کے لیے تھا اور اب عام حالات میں ڈونالڈ ٹرمپ اسے نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی کو لے کر تنازعہ ہے اور قانونی چیلنج دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ پھر بھی ڈونالڈ ٹرمپ جس طرح سے اپنے ارادوں پر کام کرتے رہے ہیں، اسے لے کر لوگوں میں خوف پیدا ہونا بھی لازمی ہے۔ جب بھی امریکہ اور دیگر کسی ملک کے درمیان جنگ ہوگی تو صدر کے پاس طاقت ہوگی کہ وہ غیر امریکی نسل کے لوگوں کو لے کر فیصلہ کر سکیں۔ خاص طور پر 14 سال یا اسس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو لے کر وہ فیصلہ لے سکتے ہیں اور انہیں ملک سے باہر بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہیں ایلین انیمی اعلان کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے 18ویں صدی کے اس قانون کو نافذ کیا جا سکتا ہے۔اس قانون کے ذریعہ صدر کے پاس یہ سہولت رہے گی کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو فوری اثر سے باہر کر سکتے ہیں۔ اس قانون کے بارے میں امریکہ میں بحث زوروں پر ہے۔ فی الحال ٹرمپ انتظامیہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ قانون کو کیسے نافذ کیا جائے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ٹرین ڈے اراگوا گینگ کو دہشت گرد تنظیم اعلان کیا جائے گا۔ اس سے نپٹنے کے لیے ہی یہ قانون نافذ ہوگا۔ یہ اس قانون کے نفاذ کی سمت میں پہلا قدم ہوگا۔ معلوم ہو کہ 2024 کے انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ نے کئی بار کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ایلین انیمیز ایکٹ کو نافذ کریں گے۔
ٹرمپ کا نیا فیصلہ: امریکی فوج سے 30 دن میں ٹرانسجینڈر اہلکاروں کو ہٹانے کا حکم
قومی آواز بیورو
واشنگٹن: امریکہ نے ٹرانسجینڈر فوجیوں کے خلاف سخت اقدام اٹھاتے ہوئے انہیں 30 دن کے اندر فوج سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پینٹاگون نے بدھ، 26 فروری کو اپنے بیان میں کہا کہ یہ پالیسی اس وقت لاگو ہوگی جب تک کہ ہر معاملے کی بنیاد پر استثنیٰ نہ دیا جائے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ٹرانسجینڈر افراد کے لیے فوج میں شامل ہونا یا اپنی خدمات جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
یہ حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حالیہ فیصلے کے بعد آیا ہے، جس میں انہوں نے ٹرانسجینڈر فوجیوں کی شمولیت پر سوالات اٹھائے تھے۔ رائٹرز کے مطابق، پینٹاگون کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پہلے 30 دن کے اندر ٹرانسجینڈر فوجیوں کی شناخت کرے اور اس کے بعد اگلے 30 دنوں میں انہیں فوج سے الگ کر دے۔
پینٹاگون نے وضاحت کی ہے کہ اس پالیسی کا مقصد فوج کی یکجہتی، مؤثر کارکردگی اور تنظیمی ڈھانچے کو برقرار رکھنا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے اعدادوشمار کے مطابق، اس وقت امریکی فوج میں تقریباً 13 لاکھ فعال اہلکار موجود ہیں، جبکہ ٹرانسجینڈر حقوق کے حامی ادارے اس تعداد کو 15,000 کے قریب قرار دیتے ہیں۔
26 فروری کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا، ’’یہ امریکی حکومت کی پالیسی ہے کہ فوجی اراکین میں اعلیٰ درجے کی تیاری، مؤثر کارکردگی، یکجہتی، ایمانداری، ہم آہنگی اور وفاداری کو یقینی بنایا جائے۔‘‘
ٹرانسجینڈر فوجیوں کے خلاف یہ اقدام اس سے قبل بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے متعارف کرائی گئی پالیسیوں کے برعکس ہے۔ بائیڈن حکومت نے ٹرانسجینڈر افراد کو فوج میں شمولیت اور طبی سہولیات کی فراہمی کی اجازت دی تھی۔ تاہم، ٹرمپ کے اس فیصلے کے تحت تمام جینڈر-افرمیشن میڈیکل کیئر ختم کر دی گئی ہے، جس میں جینڈر ٹرانزیشن (جنس کی تبدیلی) سے متعلق تمام طبی عمل روکنے کے احکامات شامل ہیں۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکہ میں ’ایل جی بی ٹی کیو+‘ حقوق کے حوالے سے پہلے ہی شدید بحث جاری ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔
"ہمارا اتحاد آپ کے ملک کے لیے ایک غنیمت ہے": یورپی یونین کا ٹرمپ کو جواب
دبئی - العربیہ ڈاٹ نیٹ
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے یورپی ممالک پر وقفے وقفے سے تنقید کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
فرانسیسی صدر عمانویل میکروں کے دو روز قبل واشنگٹن کے دورے کے باوجود ٹرمپ نے یورپی یونین پر تنقید کی ہے۔
کل بدھ ٹرمپ نے کہا کہ یورپی یونین کا قیام امریکہ کو نقصان پہنچانے کےلیے کیا گیا تھا۔
"نعمت "
تاہم یورپی ممالک کی طرف سے ان کے متنازعے بیانات پر سخت ردعمل آیا ہے۔ یورپی کمیشن نے یونین کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے لیے ایک "نعمت" قرار دیا۔ یورپی یونین کا کہنا ہےکہ ریپبلیکن امریکی صدر کو اپنے ملک کے لیے ہماری ’مہربانیوں‘ کا شکر گذار ہونا چاہیے۔
یورپی کمیشن کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ "یورپی یونین دنیا کی سب سے بڑی آزاد تجارتی منڈی ہے۔ یہ امریکہ کے لیے ایک اعزاز ہے"۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ " ہمیں تمام یورپی اور امریکی شہریوں اور کمپنیوں کے لیے ان مواقع کو یکساں طور پر محفوظ رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا، نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف مہم چلانے کی "۔
انہوں نے زور دیا کہ "یونین نے ایک بڑی اور مربوط سنگل مارکیٹ بنا کر امریکہ کو تجارت میں سہولت فراہم کی ہے، امریکی برآمد کنندگان کے لیے لاگت کو کم کیا ہے اور 27 ممالک میں متحد معیارات اور ضوابط بنائے ہیں"۔
کسٹم ڈیوٹٰ پر فیصلہ کن جواب
یورپی کمیشن نے متنبہ کیا کہ یونین امریکی صدر کی طرف سے نئی ٹیکس دھمکیوں کے حوالے سے کسی بھی کسٹم ڈیوٹی کا "مضبوطی اور فوری" جواب دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ "یورپی ممالک ہمیشہ یورپی کمپنیوں، کارکنوں اور صارفین کو بلاجواز محصولات سے محفوظ رکھیں گے"۔
اے ایف پی کے مطابق ترجمان نے کہا کہ "یورپی یونین امریکہ پر مہربان ہے، اگر ٹرمپ قواعد پر عمل کرتے ہیں تو تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں"۔
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ٹرمپ نے بدھ کو یورپ سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کی دھمکی کا اعادہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں یورپ کے ممالک سے محبت کرتا ہوں، میں واقعی میں ان تمام ممالک سے محبت کرتا ہوں، لیکن سچ پوچھیں یورپی یونین ہمارے ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے بنائی گئی تھی، یہی مقصد تھا اور وہ کامیاب ہوئے"۔
جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی ممالک نے ٹرمپ کے اس بیان پر سخت رد عمل دیا ہے۔اس سے قبل وزیر خارجہ مارکو روبیو کی یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے برائے خارجہ امور اور سیکیورٹی پالیسی کایا کالس کے ساتھ کل ہونے والی ملاقات منسوخ کردی گئی تھی۔جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق ملاقات کی منسوخی"شیڈیولنگ ایشوز" کی وجہ سے تھی۔
قابل ذکر ہے کہ بہت سے یورپی رہنماؤں نے اس سے قبل فروری کے وسط میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی تقریر پر بھی تنقید کی تھی، جہاں انہوں نے کئی یورپی ممالک اور یورپی یونین کے موقف کی شدید مذمت کی تھی۔
’مرکزی حکومت فیصلہ واپس لے‘، متنازعہ بیان دینے والی خاتون پروفیسر کو این آئی ٹی-کالی کٹ کا ڈین بنانے سے کانگریس ناراض
قومی آواز بیورو
کالی کٹ واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (این آئی ٹی-کالی کٹ) کی پروفیسر ڈاکٹر شیجا اے. کو پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کا ڈین بنائے جانے پر کانگریس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر شیجا کو ڈین بنائے جانے کا معاملہ طول پکڑتا جا رہا ہے اور کانگریس نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس تعلق سے لیا گیا فیصلہ فوراً واپس لیا جائے۔ کانگریس ڈاکٹر شیجا کے گاندھی مخالف نظریات سے بدظن ہے، یہی وجہ ہے کہ کے سی وینوگوپال اور جئے رام رمیش جیسے سرکردہ کانگریس لیڈران نے مرکزی حکومت کو پُرزور انداز میں ہدف تنقید بنایا ہے۔
کے سی وینوگوپال نے اپنے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر شیجا جیسے لوگوں کو عوامی زندگی میں کوئی عہدہ نہیں ملنا چاہیے۔ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ انھیں ڈین بنانے کا فیصلہ واپس لے۔ ’ایکس‘ پر کیے گئے اپنے پوسٹ میں وینوگوپال لکھتے ہیں کہ ’’بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بار بار اپنا اصلی رنگ دکھاتی ہے۔ یہ فیصلہ ایک طرح سے گاندھی مخالف نظریات کی کھلی کھلی حمایت ہے، اور یہ گوڈسے کو فروغ دینے اور ہماری عوامی بحث میں ان کے نفرت بھرے ایجنڈے کو مین اسٹریم میں لانے کا ان کا طریقہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر شیجا کی تقرری کو رد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وینوگوپال نے کہا کہ مہاتما گاندھی کے قاتلوں کی تعریف کرنے والے ایسے لوگوں کو عوامی زندگی میں کوئی جگہ نہیں ملنی چاہیے، قومی سطح کے اداروں میں ذمہ داری والے عہدوں کے لیے پروموٹ کیا جانا تو دور کی بات ہے۔ اس فیصلے کو واپس لیا جانا چاہیے۔
کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے بھی ڈاکٹر شیجا کو ڈین بنائے جانے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔’ایکس‘ ہینڈل پر کیے گئے پوسٹ میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک سابق جسٹس (ابھجیت گنگوپادھیائے) مہاتما گاندھی اور ناتھورام گوڈسے کے درمیان اپنی پسند کا انتخاب نہیں کر سکے۔ وہ اب بی جے پی رکن پارلیمنٹ ہیں۔‘‘ پھر وہ لکھتے ہیں کہ ’’کیرالہ میں ایک پروفیسر، جو عوامی طور پر کہتی رہی ہیں کہ ہندوستان کو بچانے کے لیے انھیں گوڈسے پر فخر ہے، اب مودی حکومت نے انھیں این آئی ٹی کالی-کٹ میں ڈین بنا دیا ہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ یہ سب مودی حکومت کی ذہنیت کا حصہ ہے، کہ مہاتما گاندھی کو ہتھیا لو، گوڈسے کی تعریف کرو۔
قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر شیجا نے مہاتما گاندھی کے یومِ وفات (یومِ شہید) پر ناتھورام گوڈسے کی تعریف کی تھی اور اس متنازعہ بیان کے لیے ایک معاملہ پولیس میں زیر التوا بھی ہے۔ انھیں گزشتہ سال فروری ماہ میں گرفتار بھی کیا گیا تھا، لیکن بعد میں ضمانت پر رِہا کر دیا گیا۔ ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا، اسٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا اور یوتھ کانگریس جیسے اداروں نے پروفیسر شیجا کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ دایاں محاذ سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل کی طرف سے شیئر کردہ پوسٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ڈاکٹر شیجا نے گوڈسے کی تعریف کی تھی۔ ان کے متنازعہ پوسٹ پر کافی ہنگامہ ہوا تھا اور مذکورہ بالا تنظیموں نے پولیس میں شکایت بھی درج کرائی تھی
مرکزی کابینہ سے وقف بل کو منظوری، 10 مارچ کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کا امکان
قومی آواز بیورو
مرکزی کابینہ نے وقف ترمیمی بل کو منظوری دے دی ہے، جسے 10 مارچ سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوسرے حصے میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ بجٹ سیشن کا دوسرا مرحلہ 10 مارچ سے 4 اپریل تک جاری رہے گا اور اسی دوران حکومت اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کر سکتی ہے۔ خیال رہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں، علمائے کرام اور دیگر ماہرین کی جانب سے اس بل کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔
بل وقف جائیدادوں کے تحفظ اور انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ حکومت کے مطابق، اس بل میں وقف قوانین میں ضروری ترامیم کی گئی ہیں تاکہ وقف املاک کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور ان کے استعمال کو شفاف بنایا جا سکے۔
اس سے قبل 13 فروری کو پارلیمانی کمیٹی نے وقف بل پر اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی تھی۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر بل کے نئے مسودے کو تیار کیا گیا، جسے اب کابینہ کی منظوری حاصل ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق، حکومت چاہتی ہے کہ بجٹ اجلاس کے دوسرے حصے میں اسے لوک سبھا میں پیش کیا جائے اور اس کے بعد راجیہ سبھا میں منظوری کے لیے بھیجا جائے۔
بل کے تحت وقف املاک سے متعلق معاملات میں شفافیت بڑھانے اور بے ضابطگیوں کو کم کرنے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، ریاستی وقف بورڈز کی ذمہ داریوں کو مزید واضح کیا گیا ہے اور ان کے دائرہ کار کو مضبوط بنایا گیا ہے تاکہ وقف املاک کی صحیح دیکھ بھال اور ترقی ممکن ہو سکے۔
ذرائع کے مطابق، حکومت اس بل کو جلد از جلد قانون کی شکل دینا چاہتی ہے تاکہ وقف املاک کو غیر قانونی قبضے سے بچایا جا سکے اور انہیں کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کیا جا سکے۔ تاہم، حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے اس بل پر ممکنہ اعتراضات بھی سامنے آ سکتے ہیں اور اس پر پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث ہونے کا امکان ہے۔
حزب اختلاف، مسلمانوں، علمائے کرام اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے مجوزہ وقف ترمیمی بل کی شدید مخالفت کی ہے۔ ان کے مطابق یہ بل نہ صرف آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی میں مداخلت کے مترادف ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اس بل کو وقف املاک پر قبضے کی سازش قرار دیتے ہوئے حکومت سے اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی اس بل کو غیر آئینی اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسلمانوں کو ان کی وقف شدہ جائیدادوں سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ ان تنظیموں نے مشترکہ طور پر قانونی چارہ جوئی، سیاسی جماعتوں سے رابطے اور عوامی بیداری مہم جیسے اقدامات کے ذریعے اس بل کی مخالفت کی حکمت عملی اپنائی ہے۔
اس سلسلے میں جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے اراکین سے بھی ملاقاتیں کی گئیں تاکہ بل کی خامیوں کو اجاگر کیا جا سکے اور اسے واپس لینے پر زور دیا جا سکے۔ وہیں، جے پی سی کے اجلاسوں کے دوران حزب اختلاف نے بھی اس بل کی شدید مخالفت کی تھی اور حزب اقتدار کے ارکان کے ساتھ کئی مرتبہ ان کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ تاہم اب اس بل کو کابینہ نے منظور کر لیا ہے اور دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس بل پر کیا فیصلہ لیا جاتا ہے۔
نجف گڑھ ہی نہیں، محمد پور اور مصطفیٰ آباد کا بھی نام بدلنے کا مطالبہ، بی جے پی حکومت بنتے ہی ’نام کی سیاست‘ شروع
قومی آواز بیورو
دہلی کی نئی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے اپنی ذمہ داری سنبھال لی ہے، اور بی جے پی حکومت تشکیل بھی پا چکی ہے۔ اس نو تشکیل حکومت میں ترقیاتی کاموں کو لے کر پیش رفت بھلے ہی شروع نہیں ہوئی ہو، لیکن علاقوں کا نام بدلنے کی سیاست ضرور شروع ہو گئی ہے۔ دہلی اسمبلی کے اجلاس میں آج نجف گڑھ سے رکن اسمبلی نیلم پہلوان نے وقفہ صفر کے دوران اپنے اسمبلی حلقہ کا نام بدلنے کی سفارش کی، اور ساتھ ہی نیا نام ’ناہر گڑھ‘ تجویز کی۔ لیکن بی جے پی لیڈر نیلم پہلوان واحد رکن اسمبلی نہیں ہے جنھوں نے علاقے کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، بلکہ 2 دیگر بی جے پی اراکین اسمبلی نے بھی اسی طرح کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیلم پہلوان کے علاوہ رکن اسمبلی انل شرما اور دہلی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر موہن بشٹ نے بالترتیب محمد پور اور مصطفیٰ آباد علاقے کا نام بدلنے کی تجویز پیش کی ہے۔ آر کے پورم سے رکن اسمبلی انل شرما نے مطالبہ کیا ہے کہ محمد پور کا نام بدل کر ’مادھو پورم‘ رکھا جائے۔ انھوں نے کہا کہ یہ انتخابی وعدہ ہی نہیں ہے، بلکہ طویل مدت سے وہاں کی عوام محمد پور نام بدلنے کی خواہش مند ہے۔ انل شرما نے یہ بھی کہا کہ دہلی میونسپل کارپوریشن پہلے ہی اس علاقے کا نام بدلنے کی سفارش کر چکی ہے۔
دوسری طرف دہلی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اور مصطفیٰ آباد سے رکن اسمبلی موہن بشٹ ’ٹی وی 9 بھارت ورش‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’یہ یقینی ہے کہ آنے والے دنوں میں مصطفیٰ آباد کا نام بدل کر ’شیو وِہار‘ کیا جائے گا۔ یہ انتخابی وعدہ تھا اور ہم عوام سے کیا گیا یہ وعدہ پورا کریں گے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ مصطفیٰ آباد میں ’مصطفیٰ‘ نام سے ایک علاقہ ہے، اس علاقے کا نام تبدیل نہیں ہوگا۔
جہاں تک نیلم پہلوان کا سوال ہے، تو انھوں نے میڈیا کو دیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’اب وقت آ گیا ہے جب ہم اپنے آبا و اجداد کو سچی خراج عقیدت پیش کر سکیں۔ راجہ ناہر سنگھ کو صحیح معنوں میں تبھی خراج عقیدت پیش کی جا سکتی ہے جب ان کے نام سے علاقے کا نام ہو۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ مغل دور میں نجف خان کو اس علاقے کا صوبیدار بنا دیا گیا۔ اس کے بعد سے ہی علاقے کا نام نجف گڑھ ہو گیا۔ اب ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ میرے اسمبلی حلقہ کا نام بدل کر ناہر گڑھ کیا جائے۔ اپنی خواہش کی وجہ بتاتے ہوئے نیلم پہلوان نے کہا کہ ’’1857 کی جنگ میں جاٹوں نے ناقابل فراموش تعاون پیش کیا تھا۔ راجہ ناہر سنگھ نے 1857 کی بغاوت میں نہ صرف انگریزوں کے خلاف آواز اٹھائی، بلکہ برطانوی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ نجف گڑھ کا نام بدل کر ناہر گڑھ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔‘‘
0 تبصرے