اکبرروڈ، ہمایوں روڈ کے سائن بورڈس پر شیواجی کے پوسٹر لگا دئے گئے۔ شرمناک مناظر
نئی دہلی (پی ٹی آئی) دہلی میں اکبر روڈ اور ہمایوں روڈ کے سائن بورڈس کو سیاہ کردیاگیا اور ان پر شیواجی کے پوسٹرس چسپاں کردئیے گئے۔ پولیس ذرائع نے ہفتہ کے دن یہ بات بتائی۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک گروپ نے وکی کوشل کی ہندی فلم چھاوادیکھی جو مراٹھاراجہ سمبھاجی پرمبنی ہے۔
مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر دیکھاجاسکتا ہے کہ بعض نوجوان اکبرروڈ اور ہمایوں روڈ کے سائن بورڈس پربلیک اسپرے کررہے ہیں اور مراٹھا سلطنت کے بانی شیواجی کے پوسٹر چسپاں کررہے ہیں۔ سمبھاجی‘شیواجی کا بیٹا اور دوسرا مراٹھا راجہ تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس ٹیموں اور بلدیہ کے عہدیداروں کو فوری بھیجاگیا۔ سائن بورڈس کو صاف کردیاگیا۔ حکام نے تحقیقات شروع کردیں۔خاطیوں کی نشاندہی کیلئے سی سی ٹی وی فوٹیج کھنگالاجارہا ہے۔ پولیس نے صورتحال پر نظررکھی ہوئی ہے تاکہ نظم وضبط برقرار رہے۔
غزہ کے حوالے سے میرا منصوبہ اچھا لیکن اسے مسلط نہیں کروں گا: ٹرمپ
العربیہ ڈاٹ نیٹ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوز کو دیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ کے حوالے سے ان کا منصوبہ اچھا ہے لیکن وہ اسے مسلط نہیں کریں گے اور وہ صرف اس کی سفارش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ غزہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور اگر اس کے باشندوں کو انتخاب کی آزادی دی گئی تو وہ اسے چھوڑ دیں گے۔ امریکی صدر نے کہا کہ غزہ ایک شاندار محل وقوع ہے اور اسرائیل کا ماضی میں اسے ترک کردینا قابل اعتراض ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ساحلی پٹی کے کچھ حصے مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں کو تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کے لیے دے سکتے ہیں۔ انہوں نے اس وقت ان ملکوں کی وضاحت نہیں کی تھی۔ تاہم بعد میں وہ فلسطینی پٹی کو خالی کرنے کے خیال کو برقرار رکھتے ہوئے اسے خریدنے کی بات سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔ ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ غزہ کو مستقبل کی ترقی کے لیے ایک اچھے مقام میں بدل دے گا۔
ان کی اس اچانک تجویز کو بین الاقوامی سطح پر اور عرب دنیا کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تمام عرب ملکوں نے فلسطینیوں کے حق واپسی اور غزہ سے ان کی نقل مکانی کو مسترد کردیا۔ مغربی ملکوں اور امریکہ کے اتحادیوں نے بھی واضح کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے موقف پر قائم ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ غزہ کی آبادی کی نقل مکانی انسانی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
دوسری طرف ٹرمپ کی اس تجویز کی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کھل کر حمایت کی اور کہا کہ ٹرمپ کا خیال اچھا اور بے مثال ہے اور ایک معقول حل فراہم کر رہا ہے۔ جمعرات کو مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی سٹیفن وٹ کوف نے صورت حال کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کے غزہ کے منصوبے کا مقصد فلسطینیوں کو بے گھر کرنا نہیں ہے۔ غزہ کے مستقبل کے بارے میں یہ بات چیت اس نہج پر ہو رہی ہے کہ فلسطینیوں کے لیے بہتر مستقبل کیسے تلاش کیا جائے۔
4 فروری کو ٹرمپ نے تجویز پیش کی کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالے اور مصر اور اردن سمیت دیگر مقامات پر فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرے۔ یہ تجویز بین الاقوامی طور پر مسترد ہو گئی۔ لیکن وِٹکوف نے سعودی خودمختار دولت فنڈ سے منسلک ایک غیر منافع بخش تنظیم کی میزبانی میں میامی میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر ٹرمپ کے تبصرے گزشتہ 50 سالوں میں تجویز کردہ حل کے مقابلے میں زیادہ بہتر تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ نے غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ہے۔ اسے غیر پھٹنے والے ہتھیاروں سے بھر دیا گیا ہے۔ لوگوں کی واپسی کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ناممکن ہوگیا۔ وِٹکوف نے مزید کہا کہ اس کے لیے بہت زیادہ صفائی، تخیل اور ایک شاندار ماسٹر پلان کی ضرورت ہوگی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نقل مکانی کے لیے کسی منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔ جب صدر اس بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہر ایک کو یہ سوچنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے لیے کیا بہترین حل ہے۔ وٹ کوف نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر کیا وہ وہاں کسی گھر میں رہنا چاہتے ہیں یا کیا وہ بہتر جگہ پر جانے کا موقع حاصل کرنا پسند کریں گے تاکہ نوکریاں، کاروبار کے مواقع اور بہتر مالی امکانات حاصل کرنے کیے جا سکیں۔
آسام: مسلم اراکین اسمبلی کو اب نہیں ملے گی نماز کے لیے چھٹی، بی جے پی حکومت نے 90 سالہ روایت کر دی ختم
قومی آواز بیورو
آسام کی بی جے پی حکومت نے اسمبلی میں نماز کے لیے دی جانے والی چھٹی یعنی بریک کی 90 سالہ روایت کو ختم کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ فیصلہ گزشتہ سال اگست ماہ میں لیا گیا تھا، لیکن نافذ اسے بجٹ سیشن کے دوران کیا گیا ہے۔ آسام حکومت کے اس فیصلے کے بعد زبردست مخالفت بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اے آئی یو ڈی ایف کے رکن اسمبلی رفیق الاسلام نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اکثریت کی بنیاد پر تھوپا گیا فیصلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسمبلی میں تقریباً 30 مسلم رکن اسمبلی ہیں۔ ہم نے اس قدم کے خلاف اپنے نظریات ظاہر کیے تھے، لیکن ان (بی جے پی) کے پاس تعداد ہے اور وہ اسی کی بنیاد پر اسے تھوپ رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اسمبلی اسپیکر بسوجیت دیماری نے آئین کو پیش نظر رکھتے ہوئے تجویز پیش کی تھی کہ آسام اسمبلی کو دیگر دنوں کی طرح جمعہ کو بھی اپنی کارروائی کو چلایا جانا چاہیے۔ اس اصول کو کمیٹی کے سامنے رکھا گیا تھا، جسے کمیٹی نے اتفاق رائے سے پاس کر دیا۔
آسام اسمبلی میں نافذ اس روایت کے تحت مسلم اراکین اسمبلی کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے دو گھنٹے کا بریک دیا جاتا تھا۔ یعنی اس دوران ایوان کی کارروائی نہیں ہوتی تھی۔ اپوزیشن نے ایوان کے اس فیصلے پر سخت اعتراض ظاہر کرتے ہوئے اسے اکثریتوں کی منمانی بتایا ہے۔
اسمبلی کے اس فیصلے کے بعد وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اس فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ یہ روایت مسلم لیگ کے سید سعداللہ کی طرف سے 1937 میں شروع کی گئی تھی، اور اس التزام کو بند کرنے کا فیصلہ پروڈکٹیویٹی کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے جواب میں اسپیکر بسوجیت دیماری نے کہا کہ آئین کے جمہوری اصولوں کے تحت یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ باقی دنوں کی طرح جمعہ کو بھی بغیر کسی نماز بریک کے ایوان چلے گا۔
نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ: 15 اموات دم گھٹنے، دو شدید چوٹ اور ایک سر کی چوٹ سے، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف
قومی آواز بیورو
نئی دہلی: نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر حالیہ بھگدڑ کے دوران جاں بحق ہونے والے 18 افراد میں سے 15 کی موت دم گھٹنے کے باعث ہوئی، جبکہ دو افراد کی جان سینے پر شدید چوٹ لگنے اور ایک شخص کی موت سر پر زخم آنے کی وجہ سے ہوئی۔ یہ انکشاف پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، زیادہ تر اموات بھگدڑ کے دوران لوگوں پر پڑنے والے شدید دباؤ کے سبب واقع ہوئیں۔ متاثرین کے سینے پر دباؤ کی شدت سے ان کے پھیپھڑے اور دل پر نقصان پہنچا، جس کے نتیجے میں ٹرامیٹک ایسفیکسیہ (Traumatic Asphyxia) اور ہیموریجک شاک (Hemorrhagic Shock) کے سبب جانیں ضائع ہوئیں۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرین کے جسم پر جو زخم پائے گئے ہیں، وہ موت سے پہلے کے ہیں۔ سینے پر دباؤ کے نتیجے میں بعض افراد کو نیوموتھوریکس (Pneumothorax) بھی ہوا، جس سے ان کا سانس لینا دشوار ہو گیا۔
یہ حادثہ 15 فروری کی رات تقریباً 9:30 بجے پیش آیا، جب نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 13 اور 14 پر اچانک بھگدڑ مچ گئی۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مسافروں کے درمیان یہ افواہ پھیل گئی کہ پریاگ راج جانے والی دو ٹرینیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ بھگدڑ کے دوران کئی مسافر زمین پر گر گئے، جس کے بعد لوگوں کا دباؤ بڑھتا چلا گیا اور اموات واقع ہوئیں۔
ریلوے حکام کے مطابق، حادثے کے وقت دونوں پلیٹ فارمز پر بے حد بھیڑ تھی، جس کی وجہ سے کچھ لوگ بے ہوش ہو گئے اور حالات بے قابو ہو گئے۔ حادثے کے بعد حکام نے فوری طور پر امدادی کارروائیاں شروع کیں اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا۔
حادثے کے بعد ریلوے نے مرنے والوں کے اہل خانہ کو فی کس 10 لاکھ روپے، شدید زخمیوں کو ڈھائی لاکھ روپے اور معمولی زخمیوں کو ایک لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
آر بی آئی کے سابق گورنر شکتی کانت داس کو ملی اہم ذمہ داری، پی ایم مودی کے پرنسپل سکریٹری مقرر
قومی آواز بیورو
آر بی آئی (ریزرو بینک آف انڈیا) کے سابق گورنر شکتی کانت داس وزیر اعظم نریندر مودی کے پرنسپل سکریٹری مقرر کیے گئے ہیں۔ انھوں نے آر بی آئی گورنر کے طور پر 6 سال تک اپنی خدمات دینے کے بعد گزشتہ سال دسمبر میں سبکدوش ہوئے تھے۔ سبکدوشی کے کچھ ماہ بعد ہی اب انھیں اہم ذمہ داری دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
فی الحال پرمود کمار مشرا وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری1- ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اب شکتی کانت داس پرنسپل سکریٹری2- کے کردار میں نظر آئیں گے۔ شکتی کانت 1980 بیچ کے ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ہیں۔ کابینہ کی تقرری کمیٹی (اے سی سی) نے شکتی کانت کی تقرری سے متعلق جانکاری دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کی تقرری وزیر اعظم کی مدت کار کے ساتھ ساتھ یا اگلے حکم، جو بھی پہلے ہو، تک رہے گی۔
’ہمیں علیحدگی پسند بننے پر مجبور کیا جا رہا‘، مرکز کی سہ لسانی پالیسی سے ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ اے راجہ سخت ناراض
قومی آواز بیورو
ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ اے راجہ نے مرکزی حکومت کی ’سہ لسانی پالیسی‘ کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم علیحدگی پسند نہیں ہیں، لیکن مرکزی حکومت ہمیں علیحدگی پسند بننے پر مجبور کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے وزیر اعظم مودی کی لسانی پالیسی پر بھی سخت تنقید کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’وزیر اعظم نے ایک پروگرام میں کہا کہ کچھ لوگ زبان کے نام پر ملک کو الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو شک ہے کہ ہم زبان کے طور پر ملک کو تقسیم کریں گے تو کیا ہمیں اس بات پر شک نہیں کرنی چاہیے کہ آپ مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟‘‘
اے راجہ نے تنبیہ بھی دی ہے کہ اگر وزیر اعظم زبان کے ایشو پر بولنا جاری رکھتے ہیں تو اس کی سخت مخالفت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر آپ ابھی بھی زبان کے مسئلہ پر بیان دیتے ہیں تو ہمارے نائب وزیر اعلیٰ کہیں گے- واپس جاؤ، مودی اور ہم پارلیمنٹ میں کہیں گے- مودی چپ رہو۔‘‘ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی پارٹی علیحدگی پسندی کی وکالت نہیں کرتی ہے، لیکن مرکز کی پالیسیاں انہیں مجبور کر رہی ہیں۔ اے راجہ کے علاوہ تمل ناڈو کانگریس کے ریاستی صدر سیلواپرونتھاگئی نے بھی مرکز کی ’سہ لسانی پالیسی‘ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’بی جے پی تمل ناڈو میں آر ایس ایس کے نظریے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن ان کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔‘‘
واضح ہو کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ (21 فروری) کو کہا تھا کہ ’’ہندوستانی زبانوں کے درمیان کبھی کوئی دشمنی نہیں رہی، بلکہ وہ ایک دوسرے کو تقویت بخشتی رہی ہیں۔‘‘ ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے زبان کی بنیاد پر اختلاف پیدا کرنے والی غلط فہمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’حکومت ملک کی ہر زبان کو مین اسٹریم کا حصہ سمجھتی ہے۔ زبانوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کو متاثر کیا ہے اور اسے تقویت بخشی ہے۔ جب زبان کی بنیاد پر تقسیم کی کوشش کی جاتی ہے تو ہماری مشترکہ لسانی وراثت اس کا مضبوط جواب پیش کرتی ہے۔ تمام زبانوں کو تسلیم کرنا اور اس کو قبول کرنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کے ذریعہ وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے گئے خط پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹالن سیاسی محرکات سے متاثر ہوکر خیالی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی وزیر تعلیم نے کہا کہ ’’قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کسی بھی ریاست پر کوئی زبان مسلط کرنے کی سفارش نہیں کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ این ای پی کسی بھی طرح سے تمل ناڈو میں ہندی مسلط کرنے کی پالیسی نہیں بنا رہی ہے۔‘‘ واضح ہو کہ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے وزیر اعظ مودی کو ایک خط لکھ کر ریاست کے لیے ’سمگر سکشا‘ فنڈ جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ علاوہ ازیں ایم کے اسٹالن نے مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کے اس بیان پر بھی تشویش کا اظہار کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’تمل ناڈو کو فنڈ تبھی ملے گا جب وہ این ای پی 2020 میں مذکور ’سہ لسانی پالیسی‘ کو نافذ کرے گا۔‘‘
0 تبصرے