(قومی آوازبیورو)یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) معاملے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ لگاتار اپنا نظریہ کھل کر سامنے رکھ رہا ہے۔ بورڈ یو سی سی کے حق میں نہیں ہے کیونکہ مسلم طبقہ شرعی قوانین کے خلاف نہیں جا سکتا۔ اس سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے 11 اراکین پر مشتمل وفد نے لاء کمیشن کے سربراہ اور دیگر اراکین سے ملاقات کی۔ اس وفد میں بورڈ کے صدر سیف اللہ رحمانی کے علاوہ مفتی مکرم، نبیلہ جمیل اور قاسم رسول الیاس بھی شامل تھے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اراکین نے لاء کمیشن کے سربراہ اور کمیشن کے دیگر اراکین سے ملاقات کے دوران واضح لفظوں میں کہا کہ مسلم پرسنل لاء قرآن اور سنت کا قانون ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ ساتھ ہی وفد نے لاء کمیشن سے کہا کہ مسلم طبقہ شریعت سے قطعی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔اس ملاقات کے دوران لاء کمیشن کے اراکین نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اراکین سے کچھ سوالات کیے۔ مثلاً متعہ (کچھ وقت کے لیے شادی) اور حلالہ کے بارے میں بورڈ کیا سوچتا ہے؟ جنڈر جسٹس پر بورڈ کا کیا رخ ہے؟ ملکیت میں خواتین کے حصے کو لے کر بورڈ کا کیا نظریہ ہے؟ اسلام میں شادی کی کیا عمر ہے؟ وغیرہ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وفد نے مذکورہ بالا سوالات کے جواب دیے، لیکن ساتھ ہی کہا کہ یو سی سی کو لے کر جو چیزیں ہو رہی ہیں اس کی وجہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات ہیں۔جہاں تک لاء کمیشن کے سوالوں کا تعلق ہے، جواب میں وفد نے کہا کہ اسلام میں شادی کی عمر کسی سال کے لحاظ سے طے نہیں ہے۔ جب بھی شادی کے لیے لڑکا اور لڑکی ہر طرح سے تیار ہوں تو شادی کر سکتے ہیں۔ متعہ کو لے کر بورڈ نے کہا کہ یہ ہمارے ملک میں نہیں ہوتا، اور حلالہ کو لے کر جو بات کہی جاتی ہے وہ درست نہیں ہے۔ خواتین کو ملکیت میں حق سے متعلق بھی بورڈ نے اپنی باتوں کو وضاحت کے ساتھ لاء کمیشن کے سامنے رکھا۔اس ملاقات کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان اور بورڈ کے سینئر رکن قاسم رسول الیاس نے بتایا کہ ہم نے لاء کمیشن سے کہا ہے کہ یہ سب بی جے پی اور آر ایس ایس کی شہ پر 2024 کے لوک سبھا انتخاب کے مدنظر کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کرتا رہے گا۔
عوام پچاس فیصد کمیشن والی حکومت کو ضرور گرائے گی: ملکارجن کھڑگے
(ای ٹی وی )بھوپال: کانگریس کے قومی صدر ملکاراجن کھڑگے نہیں مدھیہ پردیش کے ضلع ساگر میں پارٹی کی انتخابی مہم کا افتتاح کیا۔ انہوں نے مدھیہ پردیش کی شیوراج سنگھ چوہان حکومت پر سخت حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کرناٹک میں عوام نے 40 فیصد کمیشن والی حکومت گرا دی۔ اب مدھیہ پردیش کے لوگ یہاں 50 فیصد کمیشن والی حکومت کو بھی ہٹا دیں گے۔ کھڑگے کے ساتھ مدھیہ پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر کمل ناتھ نے بھی بندیل کھنڈ کے ساگر کے کجلی ون میدان میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کیا۔ کھڑگے نے کہا کہ بی جے پی کے 18 سال کے دور حکومت میں مدھیہ پردیش گھوٹالوں کی وجہ سے بدنام ہوا۔ زمین سے آسمان اور دریا سے پہاڑ تک کو انہوں نے نہیں چھوڑا انسانوں سے لے کر بھگوان تک سب کو دھوکہ دیا۔ کہیں فائلیں آگ میں جل رہی تھیں تو مہا کال میں طوفان نے ان کی چالوں کو بے نقاب کر دیا۔ ویاپم گھوٹالے کے بارے میں ملک کا ہر بچہ جانتا ہے۔ یہ اسکینڈل 2013 میں سامنے آیا تھا، جس کے نتیجے میں 40 سے زائد ملزمان، گواہوں اور تفتیش کاروں کی مشتبہ موت ہوئی تھی۔ اسے چھپانے کی کہانی اتنی جادوئی ہے کہ اگر اس پر فلم بنائی جائے تو خوب چلے گی۔ نرمدا میں غیر قانونی کان کنی، نیوٹریشن فوڈ گھوٹالہ، ڈمپر گھوٹالہ، پولیس بھرتی گھوٹالہ، نرسنگ کالج گھٹالہ، پٹواری بھرتی گھوٹالہ- مذہب کے نام پر بھی گھوٹالہ ہوا۔اس موقع پر انہوں نے ریاست میں کانگریس حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ضلع ساگر میں سنت روی داز مہاراج کے نام پر یونیورسٹی شروع کرنے کی بات کہی۔ وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعہ ساگر میں سنت روی داس مہاراج کے مندر کے سنگ بنیاد پر انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے درج فہرست ذاتوں کو راغب کرنے کے لیے یہ کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مرکز میں 9 سال اور ریاست میں 18 سال حکومت کرنے کے بعد انہیں سنت روی داس کی یاد نہ آتی۔ کھڑگے نے اعلان کیا کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت بننے کے بعد ذات پات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے گی۔کھڑگے نے کہا کہ بی جے پی کا ضلع ساگر میں سنت روی داس مندر کی تعمیر کا مقصد صرف درج فہرست ذاتوں کے ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔ ملکارجن کھڑگے نے مزید کہا کہ کانگریس کی ریاست جو حکومت آنے کے بعد بجلی پانی سڑک سب عوام کے لیے آسان کیا جائے گا۔ خواتین کو ہر ماہ 1500 روپے، گیس سلنڈر 500 روپے اور ایسی کئی سہولیات فراہم کی جائے گی، وہیں کھڑگے نے مرکزی حکومت کو منی پور والے معاملے پر بھی گھیرا۔
برکس میں ایران اور سعودی عرب سمیت چھ نئے ممالک کی شمولیت
(ای ٹی وی )جوہانسبرگ: برکس ممالک کے گروپ نے جمعرات کو چھ نئے ممبران ارجنٹینا، ایتھوپیا، مصر، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی رکنیت کا اطلاق یکم جنوری 2024 سے ہوگا۔ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ (BRICS) کے رہنماؤں نے گروپ کی توسیع کی حمایت کی۔ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے کہا کہ توسیع کے پہلے مرحلے کے حصے کے طور پر مذکورہ چھ ممالک کو برکس میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔ حال ہی میں ارجنٹینا، ایران، الجزائر، تیونس، ترکیہ، سعودی عرب اور مصر سمیت کل 23 ممالک نے برکس میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ برکس گروپ کے اس توسیع کے ساتھ دنیا کے نو سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے چھ اب برکس کا حصہ ہوں گے۔ جنوبی افریقہ کے صدر رامافوسا نے ایک کانفرنس میں برکس گروپ کی توسیع کا اعلان 15ویں برکس سربراہی اجلاس کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں چین، بھارت، برازیل جنوبی افریقہ اور روس کے رہنما بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ بھارت نے ہمیشہ برکس کی توسیع کی حمایت کی ہے اور ہمیشہ اس بات پر یقین کیا ہے کہ نئے ممبروں کو شامل کرنے سے برکس کو ایک تنظیم کے طور پر تقویت ملے گی۔یہ
صدر رامافوسا نے کہا کہ اس سربراہی اجلاس نے برکس کی اہمیت کا اعادہ کیا اور عوام سے عوام کے تبادلے اور دوستی اور تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، اس کے علاوہ ہم نے جوہانسبرگ کے دو اعلانات کو اپنایا جو عالمی اقتصادی، مالی اور سیاسی اہمیت کے معاملات پر برکس کے اہم پیغامات کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ان مشترکہ اقدار اور مشترکہ مفادات کو ظاہر کرتا ہے جو پانچ برکس ممالک کے طور پر ہمارے باہمی طور پر فائدہ مند تعاون کی بنیاد رکھتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ برکس سربراہی اجلاس 22 سے 24 اگست تک جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہو رہا ہے۔
یونیفارم سول کوڈ ہمارے لئے قابل قبول نہیں، مسلم پرسنل لا بورڈ نے لا کمیشن سے ملاقات میں کہا
(ای ٹی وی )انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے گذشتہ روز لا کمیشن کے چیئر مین، دیگر ممبران اور افسران سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور یونیفارم سول کوڈ پر بورڈ کے موقف کو پیش کیا نیز ایک یادداشت بھی چیئرمین کو پیش کی۔ بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے پریس کو بتایا کہ وفد کی قیادت بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کی اور وفد میں پروفیسر ڈاکٹر سید علی محمد نقوی (شیعہ طبقہ) اور انجینئر سید سعادت اللہ حسینی ( امیر جماعت اسلامی ہند)، نائب صدور، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی، سینئر ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالا، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی( امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند)، ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد (شاہی امام مسجد فتح پوری)، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد (چیف ایڈیٹر لا جرنل)، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس (ترجمان بورڈ)، پروفیسر مونسہ بشری عابدی (ممبر ورکنگ کمیٹی) اور ایڈوکیٹ نبیلہ جمیل (ممبر بورڈ) شامل تھے۔ یہ ملاقات لا کمیشن کے چیئرمین کی دعوت پر ہوئی تھی۔سب سے پہلے لا کمیشن کے چیئرمین نے اپنا اور لا کمیشن کے دیگر ذمہ داران کا تعارف پیش کیا۔ بورڈ کی جانب سے ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے سب سے پہلے مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجمالی تعارف پیش کیا بعدازاں صدر ، دیگر ذمہ داران اور ارکان بورڈ کا تعارف پیش کیا۔جب لا کمیشن کے چیئرمین نے یونیفارم سول کوڈ پر بورڈ کا موقف جاننا چاہا تو صدر بورڈ نے تفصیل سے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ایسے ملک میں جس میں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے لوگ رہتے ہوں، سب کے لئے یونیفارم سول کوڈ بنانا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ اس لئے بھی کہ ہر طبقہ اور مذہبی گروہ کو اپنے رواج اور کسٹم سے لگائو ہوتا ہے۔جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کا پرسنل لا قرآن و سنت پر مبنی ہو نے کی بناء پر ان کے لئے کو ئی بھی ایسا قانون جو قرآن و سنت سے متصادم ہو ہر گز بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔آپ نے بتایا کہ قانون شریعت کے دو بنیادی ماخذ ہیں۔ ایک قرآن و سنت اور دوسرا قرآن و سنت کی روشنی میں کیا گیا اجتہاد۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے وہ مسلمانوں کے لئے حکم کا درجہ رکھتا ہے، البتہ وقت اور حالات کی مناسبت سے علماء کے اجتہادات میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔مولانا نے آگے فرمایا کہ21 ویں لا کمیشن نے ہمارے سامنے متعین سوالات رکھے تھے اور دوبار لا کمیشن کے ساتھ ملاقات میں ہم نے ہر سوال کا قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیا تھا، جسے بعد میں تحریری شکل میں بھی داخل کر دیا گیا۔ توقع تھی کہ 22 واں لا کمیشن بھی اسی طرح مسلم پرسنل لا کے تعلق سے ان کے جو سوالات ہیں، اسے پیش کرے گا اور اس پر ہم سے جواب طلب کر ے گا۔تاہم اس بار لا کمیشن نے اہل ملک سے یو سی سی پر ان کا موقف جاننا چاہا ہے۔ جو کہ ہم نے تفصیل سے اور ہماری درخواست پر لاکھوں مسلمانوں نے لا کمیشن کو فراہم کر دیا ہے۔لیگل کمیٹی کے کنوینر جناب ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالا نے کہا کہ حکومت نے یونیفارم سول کوڈ پر جو تین رکنی کمیٹی بنائی ہے اس کے کنوینر سشیل مودی نے پریس میں کہا ہے کہ یو سی سی سے قبائلی طبقات اور شمال مشرقی ریاستوں کے عیسائی مستثنیٰ ہو ں گے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پھر مسلمان کو اس سے کیوں استثناء نہیں دیا جا رہا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ صرف مسلمانوں کو ہی یو سی سی کا ہدف بنایا جائے گا۔ حکومت کے پاس کون سے اعداد شمار ہیں جس کو سامنے رکھ کر وہ پرسنل لاز میں تبدیلی کر نا چاہتی ہے۔ اس موقعہ پر مداخلت کر تے ہوئے لا کمشن کے چیئرمین نے کہا کہ متعین طور پر بتائیے کہ بچیوں کی کم عمری میں شادی پر آپ حضرات کی کیا رائے ہے۔اس پر صدر بورڈ نے اظہار خیال کر تے ہو ئے کہا کہ اسلام نے شادی کی کوئی عمر متعین نہیں کی ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ جب عورت اور مرد شادی کے تقاضے پورے کر نے کے قابل ہو جائیں تو وہ شادی کر سکتے ہیں۔ اس موقعہ پر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ شادی کے لئے بلوغت کو معیار بنایا گیا ہے تاہم اگر آپ مسلم معاشرہ کا جائزہ لیں گے تو پائیں گے کہ عام طور پر جب لڑکیاں تعلیم سے فارغ ہو تی ہیں تو ان کی شادی بالعموم 18 سال کے بعد ہو تی ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالانے کہا کہ جہاں تک کم عمری کی شادی کی بات ہے اس کا انحصار سماجی و اقتصادی صورت حال پر ہے۔ جن لوگوں کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر ہے وہاں اس کا رواج نہیں ہے۔ لہذا اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومت لوگوں کی سماجی و اقتصادی حالت بدلنے کی طرف توجہ دے گی۔ ہمارے نزدیک یو سی سی دراصل مسلمانوں کی دینی شناخت کو متأثر کر نے کا ایک بہانہ ہے۔مچھالا نے کہا کہ ہندو کوڈ بل میں ہندوئوں کو HUF (Hindu Individed Family) کے تحت جو رعایت دی جاتی ہے اس سے ملک کا ٹیکس(Revenue) بہت متأثر ہوتا ہے۔ اس پر چیئرمین لا کمیشن نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی ڈاٹا ہے۔ اس پر یوسف حاتم مچھالا نے جسٹس وانچو کمیٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیا۔ پھر یہ دریافت کیا کہ اگر حکومت یونیفارم سول کوڈ لانے پر مصر ہے تو کیا وہ HUF کو ختم کر ے گی یا اس کا فائدہ سب کو پہنچائے گی۔ اس پر چیئرمین نے کہا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے اس کا تعلق انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے ہے۔ کمیشن نے جب متعہ شادی پر سوال اٹھایا تو اس کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر سید علی محمد نقوی نے کہا کہ یہ اجازت استثنائی صورت کے لئے ہے اور اب یہ تقریباََ ختم ہو چکا ہے۔ نہ ہندوستان میں اور نہ ہی ایران میں اس کا چلن ہے۔ ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد نے کہا کہ متعہ شادی کا اب کوئی چلن نہیں ہے تاہم میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جب سپریم کورٹ لیون ریلیشن شپ(Live in Relationship) جائز مانتا ہے اور بغیر شادی کے چند ماہ، چند مہینہ، چند سال یا تمام عمر ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے تو اس صورت میں متعدد شادی پر اعتراض کیوں؟ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد نے کہاکہ خود ہمارا دستور بھی یونیفارم نہیں ہے اور تنوع کو پسند کر تا اور اس کو تحفظ دیتا ہے۔ چیئرمین اوستھی نے کہا کہ ہم شریعت کے کسی مسلم قانو ن کو متأثر نہیں کر نا چاہیں گے لیکن جو غلط باتیں در آئی ہیں ان کو ایڈریس کر نا چاہتے ہیں مثلاََ جنسی تفریق یا صنفی مساوات، قانون کی نگاہ میں مرد و عورت کی برابری کا مسئلہ، بچے کو گود لینے کا مسئلہ وغیرہ، اسلام گود لینے کے تصور کے مخالف ہے تاہم کو ئی گود لینا چاہے تو اس کو منع بھی کر تا ہے۔ اس پر اگر کو ئی چیز لائی جاتی ہے تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہو نا چاہیے۔ صدر بورڈ نے کہا کہ یتیم و نادار بچوں کی پرورش و کفالت پر اسلام نے بہت زور دیا ہے تاہم وہ گود لینے کے ایسے تصور کے مخالف ہے جس میں گود لئے ہوئے بچے کی حیثیت حقیقی اولاد کی ہوجائے۔اس سے شریعت کے بہت سے احکام متأثر ہو جاتے ہیں بالخصوص جائیداد کی تقسیم کا معاملہ، یا محرم و نامحرم کے مسائل وغیرہ۔ پروفیسر مونسہ بشری عابدی نے کہا کہ اسلام صنفی مساوات کے بجائے انصاف کی بات کر تا ہے۔ اسلام میں عورت پر کوئی خانگی ذمہ داری نہیں ہے۔ بیوی بچوں کی کفالت، اپنے ماں باپ کی کفالت اور گھر چلانے کی پوری ذمہ داری مرد پر ہے۔ عورت اگر کو ئی ملازمت کر تی ہو یا اس کی کو ئی جائیداد ہو تب بھی مرد اسے مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ گھر چلانے میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ عورت پوری طرح اپنے مال میں تصرف کا بھی اختیار رکھتی ہے۔دوسری طرف نہ صرف باپ کی جائیداد میں سے حصہ ملتا ہے بلکہ اپنے شوہر، اولاد اور بھائی کی جائیداد میں بھی اس کا حصہ متعین ہے۔ اس طرح اسلام میں جہیز کا کو ئی تصور نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس شادی کے وقت مرد اپنی منکوحہ کو مہر دیتا ہے۔ گفتگو میں مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، محترمہ نبیلہ جمیل نے بھی حصہ لیا۔ آخر میں ایک بار پھر صدر بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ قرآن و سنت کے جو احکامات ہیں وہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں ہم اس میں کسی بھی ردوبدل کے نہ خود مجاز ہیں اور نہ ہم کسی اور کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں، نکاح و طلاق، وراثت وغیرہ کے احکامات(Shariat Application Act 1937 ) کے تحت ملک میں تسلیم شدہ ہیں۔ قانون شریعت، رواجی قانون نہیں ہے بلکہ اللہ اور رسول کی طرف سے ودیعت کردہ ہے، ملک کے دستور کے بنیادی حقوق کے باب میں بھی اسے تسلیم کیا گیا ہے۔آخر میں بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے بورڈ کی طرف سے تیار کردہ جواب تحریری طور پر چیئرمین لا کمیشن کو پیش کیا۔ چیئرمین لا کمیشن نے صدر بورڈ و دیگر ارکان وفد کا شکریہ ادا کیا۔ صدر بورڈ نے بھی چیئرمین لا کمیشن کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہماری درخواست کو قبول فرماکر ہمیں ملاقات کا موقع دیا۔
آپ کوئی بھی بٹن دبائیں، بی جے پی ہی جیتے گی، ڈی اروند کے بیان پر تنازعہ
(روزنامہ منصف )نئی دہلی: کانگریس نے جمعرات کے روز بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ زعفرانی جماعت کے رکن پارلیمنٹ ڈی اروند کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد آخر کار بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔اس ویڈیو میں اروند کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ آپ کوئی بھی بٹن دبائیں، بی جے پی ہی جیتے گی۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے کہا کہ آخر کار راز آشکار ہوچکا ہے۔انہوں نے ایک ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے یہ بات کہی جس کے ساتھ نظام آباد کے رکن پارلیمنٹ اروند کاویڈیو منسلک تھا۔ اس ویڈیو میں جو منگل کے روز نظام آباد میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے تعلق رکھتا ہے،اروند کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ اگر آپ اپنا ووٹ نوٹا کو بھی دیں، تب بھی میں ہی جیتوں گا۔اگر آپ کار (بی آر ایس) کو ووٹ دیں تب بھی میں ہی جیتوں گا۔اگر آپ ہاتھ (کانگریس) کو ووٹ دیں تب بھی کمل(بی جے پی) ہی جیتے گی۔اپنے حلقہ نظام آباد میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اُن کا یہ ریمارک ”آئے گا تو مودی ہی“ پر کانگریس اور تلنگانہ میں حکمراں بی آر ایس نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔اروند نظام آباد کے رکن پارلیمنٹ ہیں اور انہوں نے 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی بیٹی کے کویتا کو شکست دی ہے۔
کرناٹک حکومت کاویری تنازعہ پر سپریم کورٹ میں بحث کرے گی
(ای ٹی وی )بنگلورو: کرناٹک کے وزیر اعلی سدارامیا نے جمعرات کو کہا کہ ریاستی حکومت سپریم کورٹ میں کاویری کا پانی چھوڑنے کے لئے تمل ناڈو حکومت کی طرف سے دائر عرضی پر بحث کرے گی۔سدارامیا نے کہا، "کرناٹک اس معاملے پر بحث کرے گا کیونکہ تمل ناڈو حکومت نے ایک درخواست دائر کرکے پانی چھوڑنے کی مانگ کی ہے۔ ہمارے موقف کے مطابق، تمل ناڈو حکومت کی طرف سے دائر درخواست قابل سماعت نہیں ہے کیونکہ سپریم کورٹ پہلے ہی 25 فروری 2018 کو تمل ناڈو اور کرناٹک کے درمیان کاویری آبی تنازعہ پر حتمی فیصلہ دے چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ عام سال میں کرناٹک کو بلی گنڈلو سے177.25ٹی ایم سی پانی چھوڑنا چاہئے، لیکن بحران میں چھوڑے جانے والے پانی کی مقدار طے نہیں کی گئی ہے کیونکہ بحران کا فارمولہ متعین نہیں کیا گیا ہے۔قبل ازیں، انہوں نے کاویری ندی آبی تنازعہ پر بحث کے لیے بدھ کو یہاں منعقدہ ایک آل پارٹی میٹنگ کی صدارت کی۔ سپریم کورٹ میں اپنی تازہ درخواست میں، تمل ناڈو حکومت نے کرناٹک کو اپنے آبی ذخائر سے فوری طور پر 24000کیوبک فٹ فی سیکنڈ (کیوسک) پانی چھوڑنے کی ہدایت کی مانگ ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ کرناٹک کو بلی گنڈلو میں اپنے آبی ذخائر سے 11 اگست کو 15 دنوں کے لیے 15 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن کرناٹک سی ڈبلیو آر سی کی ہدایت کے مطابق 10 ہزار کیوسک (یومیہ 0.864ٹی ایم سی ) کی مقررہ مقدار جاری کرنے کی ہدایات کو مکمل طور پر لاگو کرنے میں میں ناکام رہا۔

0 تبصرے